"FBC" (space) message & send to 7575

حکومتی شخصیات کی کورونا سے اٹھکیلیاں

گورنر پنجاب اور ان کی اہلیہ نے ملک بھر میں کورونا کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے معروف ٹک ٹاکرز سے گورنر ہائوس میں ملاقات کی۔ یہ خبر میری نظر سے گزری تو فوری خیال آیا کہ یقینی طور پر یہ ٹک ٹاک کوئی ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں اعلیٰ سطح کے دانشور‘تعلیم یافتہ‘ سلجھے ہوئے اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد کا اجتماع ہوتا ہے اور وہ ملک میں کورونا کے حوالے سے آگاہی پھیلانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں‘اسی لیے محترم گورنر صاحب نے بمعہ اہلیہ ان ٹک ٹاکرز سے ملاقات کی ہے۔ اب ناچیز کا نہ تو ٹک ٹاک پر کوئی اکائونٹ ہے اور نہ ہی اس کے استعمال کے حوالے سے کوئی خاص آگاہی ‘ سو تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر فوری طور پر ایپ ڈائون لوڈ کی اور عوام کو آگاہی فراہم کرنے کی ذمہ داری کا شرف حاصل کرنے والے ''معروف سٹارز‘‘ کی کچھ ویڈیو زیکھنے کا موقع مل گیا‘جس کے بعد پہلا خیال یہ آیا کہ‘ یقینی طور پر کورونا آگاہی پھیلانے کے لیے یہ طریقہ کار اپنانے کی تجویز کسی مشیر نے دی ہوگی۔ اپنی اس الجھن کا ذکر ایک اور صحافی دوست سے کیا تو اس نے کہا کہ اگر کورونا کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت اس سطح پر آچکی ہے تو اسے چاہئے کہ پھر ہار ہی مان لے۔ 
ویسے اگر جائزہ لیا جائے کہ نوبت یہاں تک پہنچی کیوں ہے‘ عوام کورونا کے حوالے سے یکسو کیوں نہ ہوسکے؟اس کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ کچھ تو من حیث القوم ہمارا حال یہ ہے کہ ہم کسی بھی اہم ایشو میں سازشی نظریوں کو جلد اپنا لیتے ہیں اور پھر اس کے نتیجے میں جنم لینے والے تباہ کن حالات میں اپنے لیے محفوظ راہوں کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ جب کورونا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو دنیا بھر میں پھیلنے والی سازشی تھیوریز اپنی جگہ اور صرف پاکستان میں جنم لینے والے انوکھے خیالات و افکار اپنی جگہ۔ذرا غور کریں ہم وہ قوم ہیں جو کورونا کے پھیلائو کی ابتدا میں‘ جب ملک بھر میں صرف 50کیسز تھے اور کوئی موت نہیں ہوئی تھی ‘ خوف کے باعث گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دے رہے تھے‘ مگر آج جب کورونا کیسز کی تعداد 85ہزار سے زائد ہوچکی ہے‘1800سے زائد اموات ہوچکی ہیں ‘تمام احتیاطی تدابیر بھلا دی گئیں ہیں۔ ایک موقع تھا کہ جب کورونا کے خلاف کہا جارہا تھا کہ یہ کون سی بیماری ہے جو امیروں کو نہیں ہوتی صرف غریبوں کو ہوتی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یہ وبا حکومتی شخصیات‘ وزرا‘ صحافیوں ‘ پولیس ‘ غرض ہر طبقے میں سراعت کرچکی ہے‘ مگر ہم اب بھی اسے سنجیدہ لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مریضوں کی مسیحائی پر معمو ر 30سے زائد شعبۂ طب کے افراد اپنی جانیں دے چکے ہیں‘مگر ہم ابھی تک اسی کنفیوژن میں ہیں کہ کورونا حقیقت ہے یا فسانہ۔
عجیب بے یقینی کی فضا ہے۔ اور یہ فضا بنانے میں حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ پہلے تو کورونا سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال ہوتا رہا‘پھر جیسے جیسے صورتحال گمبھیر ہوتی گئی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات بھی اسی بے یقینی کو بڑھاوا دیتے رہے۔ پہلے لاک ڈائون کیا گیا پھر جب صورتحال بگڑی تو لاک ڈائون ختم کردیا گیا۔ دنیا بھر میں جہاں بھی کورونا پر قابو پایا گیا‘ صرف اور صرف لاک ڈائون کے ذریعے ہی قابو پایا گیا۔ صرف ہماری حکومت ہے جو آج تک اس کا فیصلہ ہی نہیں کرسکی کہ لاک ڈائون کرنا ہے یا نہیں۔ چند روز قبل پنجاب حکومت کی ایک رپورٹ لیک ہوئی کہ سمارٹ ٹیسٹنگ کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے اندازہ لگایا گیا ہے کہ صرف لاہور میں کورونا کے پونے سات لاکھ کیسز ہوسکتے ہیں۔ اس رپورٹ پر بھی کچھ دیر شو ر برپا کیا گیا اور پھر خاموشی چھا گئی۔ حکومتی وزرا اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ وزیراعظم احتیاط اور گھروں میں رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں‘ جبکہ ایک حکومتی مشیر فرماتے ہیں کہ گھروں میں رہنے والے کورونا سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب حکومتی تقریبات‘اجلاس اور میل ملاقاتوں کی تصاویر سامنے آتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر اجتماع کیے جاتے ہیں۔سندھ کے صوبائی وزیر کچی آبادی مرتضیٰ بلوچ کے جنازے کی تصاویر آئیں تو سماجی فاصلے سمیت کسی احتیاط پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔ پھر عوام کیسے یقین کریں کہ کورونا کوئی حقیقت ہے؟
عالمی سطح پر غیر ضروری سفر سے عوام کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں ‘مگر ہم اپنے تفریحی مقامات کھولنے کی جانب جارہے ہیں۔ یہ ایسا فیصلہ ہے کہ جس نے سب کو حیران کردیا ہے۔یہ فیصلہ کرنے والے کی مجبوری کو سمجھا جاسکتا ہے کہ مری اور سوات سمیت دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اہم ذمہ داریوں پر ہیں ‘یقینی طور پر ان کا دبائو بھی ہوگا۔ ان علاقوں میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح مالی مشکلات پیدا ہورہی ہوں گی‘ ان شخصیات کے کاروبار بھی نقصان میں جا رہے ہوں گے‘ مگر اس کیلئے دوسروں کی زندگیوں کو کیسے خطرے میں ڈالاجاسکتا ہے ؟ آج ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہے‘ ہسپتالوں کی جانب سے نئے مریض لینے سے انکار کیے جانے کی اطلاعات ہیں ۔ اگر سیاحت کی صنعت کھول کر چند منظورِ نظر افراد کو نوازنے کا فیصلہ کرلیا گیا تو اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو کون سنبھالے گا؟ حکومتی انتظامی صلاحیت کا اندازہ تو اسی سے کیا جاسکتا ہے کہ پٹرول سستا کیا گیا تو کمپنیوں نے سپلائی بند کر کے مصنوعی قلت پیدا کر دی ہے۔ اس صورتحال میں حکومت 12تاریخ کو بجٹ بھی پیش کرنے جارہی ہے اور خدشہ ہے کہ یہ بجٹ گزشتہ13سال میں بدترین بجٹ ہوگا۔ ظاہری طور پر تو حکومت نے کورونا کو ڈھال بنا لیا ہے اور اسی ڈھال کی بنیاد پر بجٹ کا وار روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ اب حکومت اس میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا‘ مگر حکومت کو چاہئے کہ کورونا کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی بنائے اور اپنے وزیروں مشیروں کو کورنا سے اٹھکیلیاں کرنے سے روکے ورنہ صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں