"FBC" (space) message & send to 7575

چین کے سامنے بھارتی بے بسی!

لداخ میں امن قائم ہوچکا اور چینی و بھارتی فوجیں اپنی پوزیشنز پر واپس چلی گئیں ہیں۔گزشتہ ہفتے جب تمام بھارتی چینلز چیخ چیخ کر یہ خبریں دے رہے تھے‘ اس وقت ہم نے اپنے کالم میں بتایا تھا کہ چین کے میڈیا اور وزارتِ خارجہ کا سخت ردعمل ظاہر کررہا ہے کہ حالات ویسے نہیں ‘ جیسے بھارتی میڈیا ثابت کررہا ہے۔ ان خبروں کے نشر ہونے کے ٹھیک 48گھنٹوں بعد ہی لداخ کی گلوان ویلی میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان اس وقت خونریز تصادم ہوا‘ جب گلوان ویلی سے گزرنے والے دریا کے ساتھ ہی نصب چینی فوج کے کیمپ کو بھارتی فوجیوں نے آگ لگادی۔گلوان ویلی مشرقی لداخ میں واقع ہے اور چین لداخ کی اس پوری وادی کو اپنی ملکیت قرار دیتا ہے۔
گزشتہ ماہ بھی چین اور بھارتی فوجیوں کے درمیان لداخ میں جھڑپیں ہوئی تھیں ‘جن میں 72سے زائد بھارتی فوجی زخمی ہوئے تھے۔ ایل اے سی کے بھارت چین معاہدے کے تحت اس مقام پر آتشیں اسلحے کا استعمال ممنوع ہے ۔ سو‘ حالیہ تصادم میں دونوں جانب سے ڈنڈوں‘ لاٹھیوں آہنی سلاخوں اور پتھروں کا آزادانہ استعمال کیا گیا‘جس کے نتیجے میں ایک کرنل اور تین میجر سمیت 50 سے زائد بھارتی فوجیوں کے مارے جانے اور 100سے زائد کے زخمی ہونے کی اطلاعات منظر عام پر آئیں‘ جبکہ بھارتی فوجیوں کی بڑی تعداد نے جان بچانے کیلئے دریا میں چھلانگیں لگا دیں۔ دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان جب یہ تصادم ہوا تو ابتداء میں بھارتی سرکارکی جانب سے کسی بھی قسم کے جانی نقصان سے انکار کردیا گیا تھا‘مگر آج کے اس جدید دور میں ایسی خبروں کوچھپانا کہاں ممکن ہے ؟ اسی لیے کچھ دیر بعد ہی بھارت کی جانب سے ایک کرنل سمیت تین فوجیوں کے مارے جانے کا اعتراف کیا گیااور پھر آہستہ آہستہ مارے جانے والے فوجیوں کی تعداد 20بتائی جانے لگی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی انتہا پسند حکومت کو اس وقت شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا‘ جب 20بھارتی فوجیوں کے مارے جانے کی خبر دی جارہی تھی‘ جبکہ لداخ کی گلوان ویلی سے دہلی پہنچنے والے فوجیوں کے تابوتوں کی تعداد 50سے زائد نکلی۔بھارتی حکومت عوامی دبائو سے بچنے کیلئے اپنے فوجیوں کی چینی حراست میں ہونے کی بھی مسلسل تردید کررہی تھی‘ مگر پھر میجرجنرل کی سطح پر ہونیوالے مذاکرات کے بعد 10فوجیوں کی رہائی کے بعد یہ بھانڈہ بھی پھوٹا کہ بھارتی فوجی گرفتار ہوئے تھے یا نہیں؟یہ عام فوجی سپاہی نہیں تھے‘ بلکہ ان میں لیفٹیننٹ کرنل اور تین میجر بھی شامل تھے۔ مردہ فوجیوں کے تابوت دیکھ کر دو دن تک تو بھارتی انتہاپسند مودی سرکار کو سانپ سونگھ گیا اور میڈیا پر بھی سکتہ طاری رہا‘ پھر جب کچھ اوسان بحال ہوئے تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے مختصر اور واحد خطاب میں فوجیوں کے مرنے پر افسوس کا اظہار کیا ‘ عوام کو تسلی دی کہ کسی کو بھارتی سرزمین کے ایک انچ حصے پر بھی قبضے کی اجازت نہیں دی جائے گی ‘مگر ساتھ ہی مودی نے اپنے پورے خطاب میں چین کا نام لینے سے مکمل طور پر گریز کیا۔ مودی کی یہ طفل تسلیاں بھی پروپیگنڈے کا ہی حصہ تھیں‘ کیونکہ چین لداخ میں 165کلومیٹر حصے سے بھارتی فوج کو پیچھے دھکیل چکا تھا‘ جس کی واپسی کا حصول اب ‘بھارت کیلئے قریباً ناممکن ہوچکا ہے۔
بھارتی میڈیا نے اپنی غیر اخلاقی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے عوام کو تسلی دینے کیلئے پاکستان میں سرجیکل سٹرائیک کی طرح ایک جھوٹی خبر جاری کی کہ تصادم میں 43چینی فوجی مارے گئے ہیں ۔ یہ خبر جاری ہونے کی دیر تھی کہ سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا پر بھارت سے اس خبر کے ثبوت مانگے جانے لگے‘ مگر بھارتی حکومت ومیڈیا تاحال اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکا۔ بھارتی عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے میڈیا کی شہہ پر بھارت میں چینی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم شروع کرکے ایک اور احمقانہ حرکت کی گئی‘ جو بھارتی بھوکھلاہٹ کو ظاہر کرتی ہے‘ اگر اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ مہم انتہائی بچگانہ لگتی ہے‘ کیونکہ چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور ان کی باہمی تجارت کا حجم 93ارب ڈالر ہے۔ اب‘ اگر بھارت حقیقت میں چین سے تجارتی بائیکاٹ کی جانب جاتا ہے تو ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا اصل نقصان بھارت کو ہی ہوگا ۔چین نے تو پہلے ہی اپنی کمپنیوں کو بھارت کا ساتھ تجارت محدود کرنے کی ہدایات جاری کرکے اس صورت ِ حال سے نمٹنے کی تیار ی کرنے کے ساتھ بھارتی کو اس فورم پر بھی شکست دینے کا انتظام کردیا ہے۔
دوسری جانب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کیلئے اندرونی محاز پر اپوزیشن بھی انتہائی سخت صورتِ حال پیدا کررہی ہے‘ جس نے واضح طور پر سوال اٹھانے شروع کردیے ہیں کہ بھارتی سرکار بتائے کہ چین نے کتنے رقبے پر قبضے کیا ہے اور اس قبضے کو کیسے ختم کیا جائے گا؟ ماضی میں تو ایسے سوالات پر مودی اور اس کے حواری اپنی ہی اپوزیشن کو غدار قرار دے دیتے تھے‘ مگر ایسی صورت ِ حال میں مودی اپنی اپوزیشن کو غدار قرار دینے والی سابقہ پالیسی پر بھی عمل نہیں کرسکتا۔ بی جے پی سرکار جو اب شدید دبائو کا شکار ہے۔ اس نے دوسری بار حکومت آنے کے بعد جس طرح جارحانہ انداز میں قوم پرستی کی لہر ملک میں پیدا کی اور اقلیتوں کو کچلنے کی آزادی دیدی تھی اس کے بعد ملکی سطح پر ہندتوا کے پرچارکوں نے یہ تاثر بنا دیا تھا کہ مودی سرکار بھارت کو فوجی اور اقتصادی سطح پر ایک سپر پاور بنا دیے گا۔ اس تاثر کے قائم ہونے کے بعد مودی نے سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر پر قبضے کیلئے سازش کی اور اس کے ساتھ ہی ایل او سی پر پاکستان کے ساتھ جھڑپیں شروع کردیں۔ پاکستان جو ایک طویل عرصے سے بھارت کے ساتھ امن قائم رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور خطے میں امن کی خاطر کسی طرح کے ٹکرائو سے گریز کررہا ہے‘ مسلسل دفاعی پالیسی پر عمل پیرا رہا۔پاکستان کی امن پسندی کو بھارت اپنی جارحانہ پالیسی کی کامیابی سمجھتا رہا اور جنگی جنون کو قرار نہ آیا تو لائن آف کنٹرول کے بعد اس نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ چین ‘ جس نے ایک قوم کی طرح 1963ء کی جنگ کے بعد بھارت کے ہر قدم پر انتہائی ماہرانہ انداز میں نظر رکھی اور اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے اندرون خانہ اپنی مکمل تیاری کرتا رہا‘ اب مکمل طور پر بھارت کو لگام ڈالنے کو تیار تھا۔ سو‘ جیسے ہی بھارت نے چھیڑ چھاڑ شروع کی‘ چین نے اس موقعے کو ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اورفوری طور پر جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے بھارت کو 165کلومیٹر حصے سے پیچھے دھکیل دیا ہے۔ چینی ردعمل بھارت کیلئے قطعی طور پر غیر متوقع تھا اسی لیے جب بھارت کے ہوش ٹھکانے آئے تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ زمین کے ساتھ ساتھ خطے کی چودھراہٹ بھی گنوا چکا ‘ نیز چین کے سامنے بھارتی بے بسی سے ثابت ہو چکا کہ جدید دنیا میں انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں ! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں