جناب! ایک مقدمہ نمبر 1169/20 ‘جس کے آپ تفتیشی مقرر کئے گئے ہیں‘ اس کے بارے میں کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ اس کی تفتیش کہاں تک پہنچی ہے؟ میں نے ان تفتیشی افسر صاحب سے سوال کیا‘ جنہیں ایک ہفتہ قبل مذکورہ مقدمہ نمبر کا تفتیشی تعینات کیا گیا تھا اور وہ میرا فون کئی دنوں سے نہیں اٹھا رہے تھے۔ اس دن شاید انہوں نے بھولے سے میرافون اٹھا لیا تھا تو میں نے بھی بغیر کسی لگی لپٹی کے براہِ راست مقدمے کے حوالے سے سوال کردیا‘ مگر تفتیشی صاحب کے جواب نے مجھے پریشان کردیا۔موصوف پہلے توفرمانے لگے کہ جی ملزموں کی تلاش جاری ہے‘ ہم نے کافی کام کرلیا ہے ۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ جناب !آپ نے تو ابھی تک ایک بھی چکر موقع واردات کا نہیں لگایا اور نہ ہی مدعی سے ملاقات کی ہے تووہ اچانک پینترا بدل کر کہنے لگے کہ ہاں جی !وہ میں کل آئوں گا ‘ ملاقات کے لیے ۔اب ‘یہ تو حال ہے ہمارے پولیس کے ایک تفتیشی افسر کا‘ جس سے میرا اچانک واسطہ پڑ گیا ۔
ہوا کچھ یوں کہ نجی موبائل کمپنی کے ایک انتہائی اہم عہدے پر تعینات افسر کے گھر چوری ہوگئی‘ اس نے اپنی رہائش شوکت خانم ہسپتال کی چورنگی سے منسلک ایک نجی ہائوسنگ سوسائٹی میں رکھی ہوئی ہے۔مجھے یاد ہے کہ انہوں نے رہائش کے لیے اس نجی ہائوسنگ سوسائٹی کا انتخاب بھی بہترین سکیورٹی کی بناء پر کیا تھا۔ اس سوسائٹی کے گرد چار دیواری ہے اور داخلے کے لیے مرکزی دروازے کے علاوہ متعدد دروازے ہیں‘ جن پر باقاعدہ سکیورٹی گارڈز تعینات کیے جاتے ہیں اور داخلی دروازوں سے سوسائٹی کی تمام گلیوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے ہوئے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو بظاہر سکیورٹی کے انتظامات انتہائی عمدہ ہیں اور سوسائٹی ان انتظامات کی مد میں ایک معقول رقم ہر رہائشی سے وصول کرتی ہے۔ ان انتظامات کے باوجود چوروں کا جعلی نمبر پلیٹ کی گاڑی پر سوسائٹی میں داخل ہونا‘ کچھ دیر تک بنگلے کے چاروں اطراف چکر لگانا‘ گھر کے سامنے گاڑی کھڑی کرکے بنگلے میں داخل ہونا‘ اندرونی دروازے اور شیشے ‘اینٹوں سے توڑنا اور پھر تسلی سے دو گھنٹے کی کارروائی کرکے سامان لپیٹ کر اطمینان سے رخصت ہوجانا ‘سمجھ سے بالاتر ہے۔
خیر ‘نواب ٹائون تھانے کے ایس ایچ او صاحب کو مذکورہ واقعہ کی اطلاع دی تو طبی بنیادوں پر رخصت پر ہونے کے باوجود‘پولیس کی روایتی انداز کے برعکس انہوں نے فوری رسپانس دیتے ہوئے اپنی ٹیم کو موقع پر بھیجوا کر کارروائی مکمل کروائی اور مسلسل رابطے میں رہے۔ سکیورٹی انتظامات کے باوجود چوری کی اس واردات پر مجھے جو خدشات تھے ‘میں نے ان کا اظہاران کے سامنے کیے بناء نہ رہ سکا‘ جس پر انہوں نے بتایا کہ اس سوسائٹی میں 60سے زائد سکیورٹی اہلکار ہیں‘ جن کی تعداد میرے تھانے کے عملے سے بھی زیادہ ہے‘ اس کے باوجود یہاں چوری ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ چند روز قبل بھی اسی سوسائٹی میں ڈکیتی کی واردات ہوئی تھی‘ جس کی تفتیش ابھی جاری ہے۔ میں متعدد بار تحریری طور پر سوسائٹی کے ذمہ داران سے سکیورٹی گارڈز کی تفصیلات طلب کرچکا ہوں ‘تاکہ گارڈز کے فرائض انجام دینے والے سکیورٹی اہلکاروں کا ریکارڈ چیک کیا جاسکے ‘مگر مجھے کوئی معلومات تاحال فراہم نہیں کی گئی۔ پولیس کی کارروائی مکمل کروانے کے بعد جب سوسائٹی کے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کی گئی تو پتا چلا کہ سوسائٹی کی جانب سے رہائشیوں سے ایک معقول رقم ماہانہ وصول کیے جانے کے باوجود انتہائی ناقص سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے تھے ‘جن پر مجرموں کے بس چلتے پھرتے ہیولے نظر آرہے تھے اوران کے چہروں کی شناخت ناممکن تھی۔
خیر‘ہمارے اندر کا صحافی ہمیں سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔ سوسائٹی کی سکیورٹی ایجنسیوں اور ہائوسنگ سوسائٹیز کے حوالے سے سوالات ذہن میں لیے قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ایک دوست کے دروازے پر پہنچ گئے۔ سخت گرمی کو گرم چائے سے دُور کرنے کی کوشش کے دوران جب سارے سوالات اپنے اس دوست کے سامنے رکھے تو اس نے بتایا کہ ملک میں بڑھتی آبادی کے باعث ایک جانب تو ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعداد میں اضافہ ہو تا جارہا ہے تو دوسری جانب جرائم کی شرح میں بھی اسی تناسب سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اب‘ جبکہ کورونا کی وبا بھی حملہ آور ہے تو مجرموں کو مزید چھوٹ مل گئی ہے۔ صرف لاہور شہر میں اس وقت چھوٹی بڑی ملا کر کل 334رہائشی سوسائٹیز ہیں ‘جن میں سے 60ہائوسنگ سوسائٹیز سرکاری اور 274غیر سرکاری ہیں۔ ان غیرسرکاری ہائوسنگ سوسائٹیز میں سے 31ایسی سوسائٹیز ہیں ‘جنہیں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے غیر قانونی قرار دیا جا چکا۔ اب‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان غیرقانونی ہائوسنگ سوسائٹیز سمیت تقریباً تمام ہی سوسائٹیز کی سکیورٹی نجی سکیورٹی کمپنیوں کے پاس ہے۔ یہ تمام نجی ہائوسنگ سوسائٹیز عمومی طور پر چار دیواری رکھتی ہیں اور داخلی و خارجی دروازوں پر سکیورٹی انتظامات ظاہر کرتی ہیں‘ تاکہ عام شہریوں کو رہائش کے لیے اپنی جانب متوجہ کیا جاسکے۔ ان رہائشی نجی سوسائٹیز کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سکیورٹی انتظامات بظاہر ڈھکوسلہ ہی ہیں اور ان سوسائٹیز و ایل ڈی اے کے اچھے ٹائونز میں جرائم کی شرح میں کوئی خاطر خواہ فرق نہیں۔جرائم کی صورت میں سکیورٹی اہلکاروں پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی اورنہ ان کی قانونی طور پر گرفت کی جاسکتی ہے‘ پھر سکیورٹی کمپنیوں کے معیار کی تو بات ہی الگ ہے ۔ملک بھر میں اس وقت 239سکیورٹی ایجنسیاں سکیورٹی کی خدمات فراہم کررہی ہیں‘ جن میں سے لاہور میں 32سکیورٹی ایجنسیاں یہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ملک میں اہم تنصیبات‘ سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں‘ رہائشی علاقوں‘ نجی املاک اور اہم شخصیات کی انفرادی سکیورٹی پر بھی ان کمپنیوں کے اہلکار تعینات نظر آتے ہیں‘مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کمپنیوں کے نزدیک ''سکیورٹی‘‘ کا معانی و مفہوم شاید الگ ہی پایا جاتا ہے۔
ملک بھر میں جس جگہ ان سکیورٹی کمپنیوں کے اہلکار تعینات ہوتے ہیں ‘وہاں ہونے والے کسی بھی جرم کی ذمہ داری قطعی طور پر ان سکیورٹی کمپنیوں کے اہلکاروں پر عائد نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں جب بھی جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر بات کی جاتی ہے تو اجرتی محافظ فراہم کرنے والی ان کمپنیوں کے کردار پر کوئی بات نہیں کی جاتی۔ ان سکیورٹی کمپنیز میں صرف 28 سکیورٹی کمپنیز جو بہترین قرار دی جاتی ہیں‘ وہ 70فیصد ایس او پیز کو فالو کرتی ہیں تو باقی کمپنیز کا تو اللہ ہی مالک ہے۔ لوگوں کے جان و مال کے ان اجرتی محافظوں کے حوالے سے ان کی کمپنیوں کے پاس ابتدائی نوعیت کی معلومات بھی مکمل نہیں ہوتی‘ گارڈز بنائے جانے والے افراد کی ہتھیار استعمال کرنے کی تربیت کسی ایلیٹ فورس ‘ پولیس اکیڈمی یا کسی لائسنسنگ اتھارٹی سے ہونا لازمی ہے‘ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ ان سکیورٹی کمپنیوں کے قیام کے لیے سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے منظور ی ضروری ہے اور ان کے قواعد کے مطابق‘ سرکاری محکموں سے نکالا جانے والا ‘ کسی بھی طرح کے جرم میں ملوث ‘ جسمانی و ذہنی معذورشخص سکیورٹی گارڈ نہیں ہوسکتا ۔ یہ کمپنیز اپنے ملازمین کا پورا ریکارڈ رکھیں گی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے طلب کرنے پر فراہم کریں گی‘ پھر یہ گارڈز‘ جس جگہ یا دفتر تعینات ہوں گے‘ اس حدود کے پولیس سٹیشن میں اپنا اندراج کرائیں گے۔ ہمارے دوست نے بتایا کہ ایس او پیز کو پیمانہ بنا کر سکیورٹی کمپنیوں کا معیار چیک کیا گیا تو شاید ہی کوئی سکیورٹی کمپنی قائم رہ سکے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ملک بھر میں سوسائٹیز ہوں یا سکیورٹی کمپنیز ‘ ان پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا اور ایس او پیز پر عملدرآمد کرانا حکومت کا کام ہے ‘مگر کیا کیا جائے کہ اگرحکومتی افراد کے اہل خانہ کا دانہ پانی ہی ان سوسائٹیز میں فراہم کی جانے والی سکیورٹی کی ''سروسز‘‘ سے چل رہا ہوگا ‘تو پھر ایس او پیز پر عملدرآمد کرانا تو ناممکن ہی ہوگا۔ان سکیورٹی کمپنیوں کی باگ ڈوربھی بااثر شخصیات کے ہاتھوں میں ہے اورہماری تو قومی روایت ہے کہ کسی بھی بااثر شخصیت کو چھیڑا نہیں جاسکتا۔ اس لیے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہونا کچھ نہیں ‘ ہم صرف آواز ہی اٹھا سکتے ہیں!