"FBC" (space) message & send to 7575

جعلی ہوا باز اور پکی نوکری

نوکری پکی اے جی‘ یہ الفاظ عمومی طور پر رشتہ کرانے والی خواتین ایسے امیدواروں کے لیے استعمال کرتی ہیں جو سرکاری ملازم ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ ادا ہونے کی دیر ہوتی ہے کہ رشتہ ہوجانے کے امکانات یقین کی حدتک پہنچ جاتے ہیں۔ تم جانتے ہو یہ پکی نوکری کیا ہوتی ہے؟‘ بات کرتے کرتے میرے مہربان نے اپنی عادت کے مطابق ایک سوال میری جانب اچھال دیا اور پھر میرے جواب کا انتظار کیے بغیر حسبِ معمول اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے‘ یوں سمجھو کہ یہ پکی نوکری ایک طلسم ہوشربا ہے ‘جو اس میں داخل ہوگیا وہ پھر ہر مراد پاگیا۔ ایک ایسا شخص جو انتظامی صلاحیتوں سے عاری ہو‘ معاملہ فہمی چھو کر نہ گزری ہو‘ دوراندیشی سے واقف تک نہ ہو‘ مشاورت سے اسے بیر ہو‘لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا نہ جانتا ہو‘ وہ بھی اگر پکی نوکری حاصل کرلے تو اس کی یہ تمام خامیاں چھپ جاتی ہیں۔
اپنے فلسفے کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہنے لگے کہ یہ پکی نوکری دراصل سرکاری نوکری ہوتی ہے۔ ایک بار آپ سرکار کے نوکر ہوگئے تو بس پھر آپ کو سرکار کا نوکر بن کے رہنا ہے اور کوئی کام نہیں کرنا۔ جو عہدہ آپ کو بخش دیا جائے اس کی ذمہ داریاں بھی آپ کو ادا نہیں کرنا پڑیں گی کیونکہ اصل میں تو آپ سرکار کے نوکر ہیں ناں۔ اس لیے یہ بڑی آئیڈیل نوکری ہوتی ہے۔ اب اس سرکاری نوکری المعروف پکی نوکری کا کریز اتنا بڑھ چکا ہے کہ ہمارے 80فیصد نوجوان اس کے حصول کی جدوجہد میں لگ جاتے ہیں۔ اپنی ساری صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کرتے ہیں اور جب پکی نوکری مل جاتی ہے تو پھر کچھ نہیں کرتے ۔ہمارے مہربان فلسفۂ پکی نوکری سمجھاتے ہوئے مزید فرمانے لگے کہ بظاہر تو اس کا حصول مشکل ہوتا ہے‘ مختلف عوامل ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا ہوتا ہے‘ مراحل ہوتے ہیں جن سے گزرنا ہوتا ہے اور امتحان ہوتے ہیں جنہیں پاس کرنا ہوتا ہے۔ہاں! ممتحن کی خوشنودی اور قرب کا حصول‘ ایک ایسی صلاحیت ہے جو ان تمام آزمائشوں سے کامیابی سے گزار دیتی ہے ۔ بس پھر آپ جس درجے بھی نااہل ہوں‘ اپنے زیرنگیں افراد کو کچھ بھی ڈیلیور نہ کر پائیں‘ آپ کی نوکری ہر حال میں پکی رہتی ہے۔
اپنے مہربان سے پکی نوکری پر لیکچر سننے کے بعد دفتر پہنچا تو ٹی وی سکرین پر جعلی ہوابازوں کا ایشو گرم تھا‘ وزیر ہوا بازی غلام سرور خاں قومی اسمبلی میں بتا رہے تھے کہ قومی فضائی کمپنی کے 150پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہیں‘اور حکومت پر کڑی تنقید ہورہی تھی ۔معاملہ تو واقعی سنگین تھا کہ جعلی ہواباز سینکڑوں جانوں کو لے کر روزانہ زمین سے ہزاروں فٹ بلندی پر پرواز کررہے تھے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں تھا۔ قابل افسوس بات یہ بھی ہے کہ 10مئی 2018ء کو جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے بتایا تھا کہ 541پائلٹس میں سے 24کی اسناد جعلی نکلی ہیں ‘17جعلی اسناد والے ہوا باز پہلے ہی ہوابازی چھوڑ کر جاچکے ہیں جبکہ جعلی اسناد کے حامل 7ہواباز عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرکے ادارے کے ساتھ بدستور کام کررہے ہیں۔یہ اعدادوشمار دو سال قبل دیے گئے تھے اور اب جو ہولناک نمبر سامنے آئے ہیں ان سے پتا چلتاہے کہ مجموعی طور پر 262ہوا بازوں کے لائسنس جعلی ہیں۔یعنی ہر تین میں سے ایک ایسا ہوا باز جو سینکڑوں مسافروں کو لے کر جہاز کو فضا میں بلند کرتا ہے ‘ دراصل جعلی دستاویزات پر اس عہدے پر براجمان ہوا ہے۔اب ذرا غور کریں کہ کیا کوئی عوامی حکومت اس حد تک غفلت کا مظاہرہ بھی کرسکتی ہے کہ اس کے علم میں ہو کہ یہ جو طیارہ فضا میں بلند ہوا ہے اس کا ہواباز جعلی ہے ۔وہ حکومت کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ کرے اور ہلچل دکھانے کے لیے کسی سانحہ کی منتظر رہے۔
پھر وہی ہوا کہ ان کرتا دھرتائوں کو جگانے کے لیے لوگوں کو اپنی جانوں کی قربانی دینی پڑی۔ جب 97لوگ لقمۂ اجل بن گئے تو حکومت کو ہوش آیا کہ جعلی ہوابازوں کے خلاف بھی ایکشن لینا ہے۔ اب حکومتی پھرتیاں دیکھنے والی ہیں ‘ کبھی انکوائری رپورٹ آرہی ہیں تو کبھی ماہرین کے تبصرے‘ وزارت ہوابازی کی پریس کانفرنسز اور میٹنگز نے تو ''غل غپاڑے‘‘ کا الگ ہی میدان سجا رکھا ہے۔ حکومتی وزراء و ذمہ داران کی '' آنیاں جانیاں‘‘ دیکھنے والی ہیں۔ مگر کیا یہ ساری ہلچل ‘جعلی ہوابازوں کی گرفت کرنے میں دو سال کی تاخیر کا جواز ہوسکتی ہے؟ کیا اس حکومتی اچھل کود سے وہ بچے واپس آسکتے ہیں جن کی اجسام جلنے کے بعد اپنے والدین میں پیوست ہوچکے تھے اور اسی طرح دفنائے گئے۔ کیا وہ نوجوان فوجی افسر واپس آسکتا ہے جو اپنی تربیت مکمل ہونے کے بعد گھر پہنچ کر سرپرائز دینا چاہتا تھا اور کیا معروف صحافی انصار نقوی واپس آسکتے ہیں‘ جو گزشتہ دو سالوں سے خود بھی اس حکومت کو جگانے میں مصروف تھے؟یقینی طور پر نہیں ‘ نہ تو جانے والے واپس آسکتے ہیں اور نہ ہی نااہل حکمران کبھی اہل بن سکتے ہیں۔
اس سے بڑھ کر یہ دنیا بھر میں ہونے والی رسوائی کا بھی کوئی مداوا نہیں کیا جاسکتا ۔ بین الاقوامی میڈیا تمسخر اڑا رہا ہے کہ یہ کیسا ملک ہے اور کس درجہ نااہل ہیں ان کے حکمران کہ جہاں ہوابازی جیسے منصب پر جعلی افراد تعینات کرکے مسافروں کی زندگیاں دائو پر لگائی جارہی ہیں۔ سی این این کے پروگرام First Move With Julia Chatterley کی میزبان نے جب طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ پاکستان میں جعلی ہوابازوں کے ایشو کو اپنے بزنس ایڈیٹر Richard Questسے ڈسکس کیا تو رچرڈ نے کہا کہ'' جعلی ہوابازوں کے باقاعدہ کسی ائیر لائن میں جہاز اڑانے کی مثال دنیا میں نہیں ملتی اورایک ملک کا یہ تسلیم کرنا کہ کمرشل ائیر لائن میں مشکوک فلائنگ لائسنس موجود ہیں ‘یہ ہوابازی کی تاریخ میں غیرمعمولی واقعہ ہے‘ جس سے پاکستان میں ائیرلائنز کی سیفٹی کے حوالے سے انتہائی سنگین سوالات جنم لیتے ہیں‘‘۔
دنیا بھر میں ملک کی تضحیک کا باعث بننے والے اس ایشو کے ذمہ داران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی‘ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو یقینی طور پر اب تک وزیر موصوف مستعفی ہوچکے ہوتے اور جعلی ہواباز جیل میں ہوتے‘ مگر ہمارے ملک میں کسی سانحہ پر وزیر کا مستعفی ہونا استعارہ کے طور پر ووٹ حاصل کرنے کے لیے دئے جانے والے بیانات ہی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں ٹرین میں 70لوگ زندہ جل کر ناقابل شناخت ہوجائیں تو وزیر موصوف سانحہ پر بات کرنے کے بجائے وزیراعظم کے قصیدے پڑھ کر وزارت بچا جاتے ہیں‘ آخر کو سیاست کی اس دیگ کے پرانے چاول ہیں۔اسی طرح شعبہ صحت کے ناقص انتظامی ڈھانچے کا پول کھولنے کے لیے کورونا کے باعث 3755افراد کی لاشیں کافی ہونی چاہئیں مگر حکومت اور ان کے وزراء کے بیانات ایسے ہیں کہ لطائف پر مبنی کتاب شائع ہوسکتی ہے۔ یہ واحد حکومت ہے جس کے کریڈٹ پر دو سال بعد بھی کوئی ایک منصوبہ نہیں ہے‘ جس کا ہر دعویٰ ریت کی دیوار ثابت ہوا‘ جو انتخاب سے قبل کیے جانے والے اپنے ہر دعوے سے مکر گئی اور اس حوالے سے بھی اس حکومت کا کوئی ثانی نہیں کہ اس کے اپنے ہی افراد میڈیا پر ایک دوسرے کوبرا بھلا کہتے اور تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں۔ حکومتی انتظامی صلاحیتوں اور کپتان کی ٹیم کی اندرونی صورتحال سے آگاہی کے لیے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا انٹرویو ہی کافی ہے۔ 
اب دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت جب بھی ایسی کسی بحرانی کیفیت میں ہوتی ہے اچانک ہی مختلف فورم سرگرم ہوجاتے ہیں جن کا ہدف صحافیوں کی رائے جاننا کے ساتھ ساتھ ان میں اپنی ''رائے‘‘ انجیکٹ کرنا ہوتا ہے۔ مختلف ہوٹلوں میں محفلوں میں تیزی آجاتی ہے‘ خاموش واٹس ایپ گروپس اچانک جاگ اٹھتے ہیں۔بریکنگ نیوز جنریٹ کرنے والی فیکٹریاں سرگرم ہوجاتی ہے اور صحافیوں کی موبائل سکرینوں پر ایسے پیغامات ملنے شروع ہوجاتے ہیں کہ ''حکومت جانے والی ہے‘‘ اور اس ''خبر‘‘ کو وزنی بنانے کے لیے ساتھ مختلف وجوہات بھی بتائی جارہی ہوتی ہیں۔ اس بار جب ایک محفل میں حکومت کے جلد گرنے کے حوالے سے ''مدلل گفتگو ‘‘ کے دوران مجھ سے رائے مانگی گئی تو حکومت گرنے کے حوالے سے تمام ''دلائل‘‘ سننے اور ان دلائل پر شرکاء کی گردنیں اثبات میں ہلتی دیکھنے کے باوجود عرض کی کہ میرے خیال میں یہ حکومت نہیں گرسکتی کیونکہ...''نوکری پکی اے جی‘‘۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں