"FBC" (space) message & send to 7575

نہ چہرے بدلے نہ کردار

سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک تصویر میں منظر کچھ اس طرح تھا:
دیوار کی آڑ میں چیتے کی طرح مستعد بیٹھا نوجوان حملہ آور کی تلاش میں محو تھا۔ وہ بہترین نشانہ باز کی طرح گھٹنے کے بل پوزیشن بنائے ہوئے تھا۔ اس کے ہاتھوں نے انتہائی مضبوطی سے اس کے ہتھیار کو تھام رکھا تھا اور ہتھیار کا رخ بتارہا تھا کہ وہ کسی بھی لمحہ ہدف کو نشانہ بناسکتا ہے۔ اس کے قریب ہی ایک دہشت گرد کی لاش پڑی تھی ‘جس کے سرمیں گولی کا نشان تھا ‘یعنی Head Shotسے حملہ آور کو گرایا گیا تھا‘ جو کسی بھی ماہر نشانچی کا ہی خاصا ہوسکتا ہے۔ حملہ آور کے ہتھیار سے حاصل کیے گئے دو میگزین اس کے پاس زمین پر رکھے ہوئے تھے‘ جو بطور ِاضافی ایمونیشن استعمال ہوسکتے تھے اور اس تصویر میں جو آخری بات مجھے نظر آئی ‘وہ اس پولیس اہلکار کی بلٹ پروف جیکٹ کا ٹوٹا ہوا ہک تھا‘ جس کی وجہ سے اس کی بلٹ پروف جیکٹ دائیں جانب سے کھل گئی تھی ‘مگر وہ بے پروا ہوکر مادرِ وطن پر ناپاک قدم جمانے کی کوشش کرنے والوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔ اس کی خستہ حال جیکٹ ثابت کررہی تھی کہ میدانِ کارزار میں وسائل نہیں جذبے لڑتے ہیں۔ 
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی یہ تصویر سندھ پولیس کے اہلکار رفیق سومروکی تھی‘ جس نے اپنے ساتھی خلیل جتوئی اور نجی کمپنی کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر صرف 8 منٹ میں دہشت گردوں سے پاک کردیا تھا‘ جس میں سی ٹی ڈی کے ایک ذمہ داردوران گفتگو فرط جذبات میں کہنے لگے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جب کسی فورس کو تربیت دی جاتی ہے تو عمومی طور پر اس کا رسپانس ٹائم 18سے 22 منٹ اور کمانڈوز پر مشتمل خصوصی دستے سے 12منٹ میں رسپانس کی توقع کی جاتی ہے‘ تاہم میرے ان بچوں نے دنیا کو حیران اور ہمارا سر فخر سے بلند کردیا ہے‘ اسی معرکے میں سندھ پولیس کے ایک سب انسپکٹر شاہد اور نجی سکیورٹی کے اہلکار افتخار‘ خدایار اور حسن شہید ہوئے۔ ان میں سے سکیورٹی اہلکار افتخار کے پانچ بچے ہیں‘ جن میں سے ایک بچہ ذہنی معذور ہے اور افتخار گھر کا واحد کفیل تھا‘ اسی طرح سب انسپکٹر شاہد نے یکم جولائی کو پولیس فورس سے ریٹائر ہوجانا تھا‘ مگر اپنی ریٹائرمنٹ سے صرف دو روز قبل اپنی مادرِ وطن پر قربان ہوگئے۔ جن اہلکاروں نے مادرِ وطن کے لیے جان دی وہ جانتے تھے کہ اگر اس معرکے میں وہ مارے گئے تو نہ تو انہیں کوئی پلاٹ ملیں گے اور نہ گھر‘ پھر بھی وہ لڑے اور ایسی دلیری سے لڑے کہ دنیا کو حیران کردیا۔ اب‘ یہ ریاست کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان شہیدوں کے اہل ِخانوں کی کفالت کاذمہ اٹھا کر'' ماں‘‘ ہونے کا ثبوت دے۔
کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملہ ‘ سندھ میں جاری دہشت گردی کی حالیہ لہر کی ہی ایک کڑی قرار دی جارہی ہے۔ یہ کڑی بھارت کی سرحدی کشیدگی سے جا ملتی ہے‘ جہاں بھارت ایک جانب چین تو دوسری جانب پاکستان‘ بنگلہ دیش اور نیپال سے ایک ہی وقت میں کشیدگی پیدا کررہا ہے۔ بھارت کے اس رویے کے پیچھے نریندر مودی کا ہندو انتہاپسندی کا رویہ ہے‘ جس کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی کے بعد اب اس سے پیچھے ہٹنا مودی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے اپنی انتہاپسندی کے باعث اپنی سرحدوں پر صورت ِ حال خراب کرلی اور اب اسے سنبھالنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ لداخ کے معاملے پر چین کے ہاتھوں ذلت اٹھانے اور عالمی سطح پر تضحیک کا نشانہ بننے کے بعد اب بھارت کی جانب سے پڑوسی ممالک میں اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے امن و امان کی صورت ِ حال پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔اس کی ایک مثال ہانگ کانگ کی جانب سے اچانک بھارت کی حمایت میں آواز اٹھانا ہے تو دوسری جانب نیپال میں حکومت مخالف تحریکوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہے‘ اسی طرح پاکستان میں بھی بھارت نے اپنی پراکسیز کو اچانک سرگرم کر دیا ہے‘ جس کی وجہ سے بلوچستان ‘سندھ اور قبائلی علاقوں میں اچانک سکیورٹی اہلکاروں پر حملے شروع ہوگئے۔بھارت سے مالی فوائد سمیٹنے کے لیے ان دہشت گردوں نے بظاہر ایک ہونے کا ڈھونگ رچانا شروع کردیا‘ یہ تنظیمیں 2018ء میں بھارتی مالی امداد پر اختلافات کا شکار ہوکر ایک دوسرے پر حملے کرکے ایک دوسرے دھڑوں کے دہشت گردوں کو ماررہی تھیں اور پاکستانی فورسز کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کرنے کے لیے اس آپسی قتل و غارت گری کو سکیورٹی اہلکاروں کا ظلم و ستم قرار دیتی تھیں ۔اب‘ دوبارہ مالی فوائد سمیٹنے کے لیے اپنے ہی ملک کے خلاف سرگرم ہوئی ہیں‘اسی طرح سندھ میں ایک سیاسی جماعت کے دھڑوں میں موجود کالی بھیڑوں اور سندھ کی قوم پرست تنظیموں میں شامل بیرونی ایجنٹس اور قبائلی علاقوں میں موجود بھارتی نمک خواروں کو جمع کیا گیا ہے۔ سندھ ریولیوشنری آرمی کے ساتھ مہاجر فریڈم موومنٹ کو سامنے لایا گیا اور دہشت گردوں کی جانب سے مشترکہ کارروائیوں کا تاثر دیا گیا ‘مگر سندھ ریولیوشنری آرمی دہشت گردوں کی کوئی نئی تنظیم نہیں ہے‘ ماضی میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں اس کے 40سے زائد دہشت گرد مارے جانے اور اس کے ذمہ داران کے مابین بھی بھارت کی جانب سے ملنے والی رقم پر تنازع کے بعد پہلے اس تنظیم کے درمیان آپس میں قتل و غارت گری ہوئی‘ پھر اس کا وجود ختم ہوگیاتھا‘مگر اب ایک بار اس نے سرابھارنا شرو ع کیا ہے ۔ 
اس نیٹ ورک کے حوالے سے اہم انکشافات اور بھارتی ایجنسی ''راء‘‘ کی سرگرمیوں کا بھانڈہ ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق کے قتل میں ملوث محمد انوار نے بھی پھوڑا ہے‘ جس نے ایم کیو ایم لندن کے ''راء‘‘ سے رابطے میں رہنے والے تمام رہنمائوں کا تمام چھٹا کٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ ایم کیو ایم لندن کے رہنما جو بھارت سے کھلے عام پاکستان کے خلاف مدد مانگنا شروع ہوگئے تھے‘ اب ان کے قائد اور پاکستان میں دہشت گردی کے مختلف مقدمات میں مطلوب قائد الطاف حسین نے خود کو بابائے سندھودیش کہلوا نا شروع کردیا ہے ‘جس سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ کراچی و سندھ سمیت ملک کو بدامنی کی جانب دھکیلنے کی کوششوں میں ایک بار پھر کون اپنا مکروہ کردار ادا کررہا ہے۔اورنگی ٹائون میں انٹرنیٹ پر دہشت گردوں کی ویب سائٹ چلانے والے سیل پر سکیورٹی اداروں کے چھاپے نے بہت سی اہم شخصیات کے پائوں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہے۔ اب ‘تو خبریں ایسی بھی ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کی ایسی شخصیات جو الطاف حسین کی ملک مخالف سرگرمیوں پر نظریں پھیر لیتی تھیں‘ اب ریڈار پر ہیں اور بغیر کورونا ہی قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔ دبئی اور کینیڈا سے بھی تین ایسی شخصیات کو واپس لانے کے لیے کارروائی کا آغاز ہوچکاہے ‘جن کا ماضی ایم کیو ایم کے رہنما ہوتے ہوئے کراچی میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کروانے جیسے الزامات سے آلودہ ہے۔ 
پاکستان میں چھپے آستین کے سانپ‘ اپنے آقائوں کی شہ پر اکثر باہر آتے ہیں اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ‘مگر اللہ کا شکر ہے کہ عوام اور سکیورٹی کے اداروں نے ان دہشت گردوں کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔ سندھ کے عوام ہوں یا بلوچستان کے ‘ ان دہشت گردوں کے خلاف سرگرم ہوجاتے ہیں اور دہشت گردوں کو جہنم کا ایندھن بنا کر ہی دم لیتے ہیں۔ اس کی واضح مثال کراچی میں واقع '' پاکستان سٹاک ایکسچینج پر حملہ کرنے والوں دہشت گردوں کو واصل جہنم کرنے والے نوجوان پولیس اہلکار ہیں ‘جن میں سے ایک سندھ کے سومرو قبیلے سے اور دوسرے نوجوان اہلکار کا تعلق جتوئی قبیلے سے ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں