شیخ ابراہیم ذوقؔ کہتے ہیں ؎
اے ذوقؔ کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا ہے
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
شاعر نے تو نجانے کس ''ہمدمِ دیرینہ‘‘کے لیے یہ شعر کہا مگر گزشتہ اتوار ہماری ملاقات ایک ایسے ''ہمدمِ دیرینہ ‘‘ سے ہوہی گئی۔ یہ دوست آج کل کراچی میں حالیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، سو ان سے ملاقات میرے لیے دہری اہمیت کی حامل تھی۔
ہوا کچھ یوں کہ ہفتہ وار تعطیل بھی عمومی طور پر معلومات کی کھوج اور اسی حوالے سے میل ملاقاتوں میں گزر جاتی ہے۔ اس اتور کو بیٹے کی خرابیٔ طبیعت کی وجہ سے گھر پر ہی تھا کہ شام کے وقت انہی دوست کی کال آ گئی، کہنے لگے کہ میں کراچی سے اسلام آباد جا رہا ہوں اور کچھ ضروری کاموں کی وجہ سے اس بار سکھر تا اسلام آباد موٹروے کا استعمال کر رہا تھا‘ اس وقت لاہور کے قریب ہوں، مجھے بتائو کہاں آئوں‘ جہاں کھانا بھی ساتھ کھا لیں اور گپ شپ بھی ہو جائے؟ میں گھر پر بیٹے کے ساتھ تھا مگر یہ بھی جانتا تھا کہ اس دوست کی گپ شپ کبھی بھی غیر اہم نہیں ہوتی۔ سو ملاقات کے لیے جگہ اور وقت طے کیا اور وقت مقررہ پر ہماری ملاقات طے شدہ مقام پر ہو گئی۔ خاصے عرصے بعد ہونے والی بالمشافہ ملاقات خاصی طویل اور حسب معمول معلوماتی رہی۔ باتوں باتوں میں گفتگو کا رخ دہشت گردی کی جانب مڑ گیا، فرمانے لگے: یہ دہشت گردوں کا ایسا نیٹ ورک تھا جو ایک نئے انداز میں سامنے آیا اور بہت تیزی سے پھیلتا جا رہا تھا۔ خطرناک بات یہ تھی کہ اس نیٹ ورک میں جذباتی نوجوان نہیں بلکہ پختہ عمر کے لوگ کام کر رہے تھے جو ماضی میں لسانی سرگرمیوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔ اس نیٹ ورک کو براہِ راست بھارتی کٹھ پتلیاں دیکھ رہی تھیں اور پیسے کی بنیاد پر دہشت گردوں کے مختلف گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرلیا گیا تھا۔ ماضی میں یہ دہشت گرد اختلافات کا شکار تھے اور ان کے اختلافات کا فائدہ بھی اداروں کو ہوتا تھا،تاہم اس بار صورتحال یکسر مختلف تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دہشت گردوں کے مختلف گروہوں کو جو پیکٹوں کی شکل میں چند شہروں میں سرگرم تھے‘ ایک ہی پلیٹ فارم مہیا کیا گیا تھا۔ اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب کراچی و سندھ میں سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کی تحقیقات کی گئیں۔ میرے وہ دوست مزید بتانے لگے: اگرچہ ان حملوں میں ہمارے تین جوانوں کی شہادتیں ہوئی ہیں مگر اس برائی میں اچھائی کا پہلو یہ رہا کہ ان تحقیقات نے ہمیں دہشت گردوں پر اپنا شکنجہ کسنے کرنے کا موقع دے دیا۔ بنیادی طور پر کراچی میں ایک گھر پر چھاپے سے اس نیٹ ورک کی گتھیاں سلجھنا شروع ہوئی تھیں۔ اس چھاپے میں گرفتار ہونے والا متحدہ قومی موومنٹ لندن کا دہشت گرد جو واٹر بورڈ کا ملازم بھی تھا، گرفتار ہوا اور پھر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا جو کراچی کی ایک جامعہ کے ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ سے گرفتار ہونے والے را کے ایجنٹ سے ہوتا ہوا بھارت سے براستہ دبئی‘ پاکستان رقوم کی منتقلی میں ملوث گروہ تک جا پہنچا اور پھر یہ سلسلہ کراچی سے نکل کر سکھر، لاڑکانہ، ٹھٹھہ اور گھوٹکی تک پھیل گیا۔ ان کارروائیوں میں گرفتار ہونے والے دہشت گردوں سے تحقیقات اور ان سے برآمد ہونے والے لیپ ٹاپس سے ملنے والی معلومات کے بعد کئی اہم سیاسی و سماجی شخصیات کو انٹیلی جنس اداروں نے ''ریڈار‘‘ پہ لے لیا ہے جو محمود صدیقی نیٹ ورک سے براہِ راست منسلک ہیں۔
اب یہ محمود صدیقی کون ہے اور کیسے بھارت پہنچا‘ یہ کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ مشرف دور میں مشترکہ ایم کیو ایم اپنا عروج دیکھ رہی تھی۔ اس وقت ایم کیو ایم کی لندن قیادت بھارت میں اپنا نیٹ ورک مزید مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔ اس مقصد کے لیے محمود صدیقی کو ''لاپتا‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ قومی سلامتی کے اداروں نے جب لاپتا محمود صدیقی کا پتا کروایا تو وہ بھارت کے ایک دور دراز علاقے میں بغیر ویزہ کے‘ انتہائی ''محفوظ ہاتھوں‘‘ میں رہ رہا تھا۔ یہ بات چھان بین کرنے والوں کے لیے بھی حیرت کا باعث تھی کہ جس شخص کو پہلی بار بھارت کا ویزہ 2011ء میں جاری کیا گیا وہ گز شتہ بیس سال سے بھارت میں ہے تو ویزہ جاری ہونے سے قبل وہ بھارت میں کیسے رہ رہا تھا۔ یہ ایسا سوال تھا جس کا جواب ڈھونڈنے کے دوران کئی چہروں سے نقاب اترا۔2011ء میں پہلی بار محمود صدیقی کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا۔ ''کھوجیوں‘‘ نے جب کھوج نکالا تو پتا چلا کہ محمود صدیقی کو اکیسویں صدی کے آغاز پر ہی بھارت بھیج دیا گیا تھا اور اسے لاپتا ظاہر کرکے ایم کیو ایم میں اندرونی طور پر خاموشی اختیار کر لی گئی تھی۔ وہ چونکہ مشترکہ ایم کیو ایم کا دورِ عروج تھا‘ سو ان سے کوئی سوال بھی نہیں کر سکتا تھا۔ پتا یہ چلا کہ جب 2011ء میں محمود صدیقی کا کھوج لگا لیا گیا تو اس بات نے لندن سیکرٹریٹ میں بھی ہلچل مچا دی۔ لندن سیکرٹریٹ سے نائن زیرو حکم جاری ہوا کہ محمود صدیقی کو بھارت میں ''لیگل‘‘ ظاہر کرنے کے لیے فوری طور پر دستاویزات تیار کی جائیں۔ اس کام کی ذمہ داری لندن سیکرٹریٹ کے ایک ''ایڈووکیٹ‘‘ کو سونپی گئی جبکہ پاکستان میں اس وقت کے ایک وفاقی وزیرکے سپرد یہ کام کیا گیا جو اس وقت سمندر پار پاکستانیوں کی ''فلاح و بہبود‘‘ کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ اس وفاقی وزیر نے انتہائی محنت سے قانونی دستاویزات تیار کرا کے دبئی میں ایڈووکیٹ صاحب کے حوالے کیں اور اس طرح محمود صدیقی کو بھارت کا پہلی بار ویزہ 2011ء میں جاری ہوا جبکہ ذرائع کے مطابق وہ 2001ء سے بھارت میں مقیم تھا۔
ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن اور پھر اس کے مختلف دھڑوں میں تقسیم کے بعد بظاہر تو خاموشی چھا گئی تھی مگر ''کھوجی‘‘ اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ دوسری بار محمود صدیقی کی دشمن ملک کے اشارے پر سرگرمیوں کا معاملہ اپریل 2019ء میں اس وقت سامنے آیا جب گھوٹکی میں سندھ، بلوچستان اور مہاجروں کے نام پر ملک مخالف سرگرمیاں کرنے والی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی اطلاعات سامنے آنا شروع ہوئی تھیں۔ اب ایک سال گزر چکا ہے اور جو ملک دشمن عناصر ایک سال قبل ملک مخالف عزائم کے ساتھ نمودار ہوئے تھے‘ ان کے عزائم کو بڑی حد تک خاک میں ملایا جا چکا ہے۔ وہ دوست چلے گئے اور یہ عندیہ دے گئے کہ جلد ہی بڑی مچھلیاں اور مگرمچھوں کی گرفتاری کی خبریں بھی آئیں گی۔
بظاہر تو کراچی سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کو گرفت میں لینے کے حوالے سے ان دوست کی دی گئی معلومات تسلی بخش تھی مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں کراچی کے حوالے سے انتہائی حساس ہوں۔ ''لوگ کراچی میں رہتے ہیں مگر کراچی مجھ میں رہتا ہے‘‘۔ میرے لیے یہ امر انتہائی تکلیف دہ ہے کہ میرے کراچی کی قسمت میں ہر دور میں ایسے رہنما آئے جن کے پاس دہری شہریت ہو یا نہ ہو، دہرے چہرے ضرور تھے۔ کراچی باسی جنہیں اپنا رہنما سمجھتے رہے‘ وہ انہیں منزل کے بجائے لسانی دلدلوں میں پھنسا کر خود بیرونِ ملک عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شاید ایسے ہی رہنمائوں کے لئے کہا گیا ہے کہ ؎
قافلے دلدلوں میں جا ٹھہرے
رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے