"FBC" (space) message & send to 7575

ہمارا تذکرہ رہ جائے گا

کسی غم گُسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گُھلا کِیا اُسے میں نے دل سے بھلا دیا
میں ترے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
یہ ایسے نعتیہ کلام کے اشعار ہیں کہ جس کا ہر شعر اپنی مثال آپ ہے، ایک عاشق کی روداد ہے جو اپنے محبوب کے سامنے اپنی کمی و کوتاہیوں اور خامیوں کا اعتراف کر رہا ہے۔ ایک ایسا کلام جسے تنہائی میں سن لیا جائے تو آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے۔ نامور شعراء نے اس کلام کو ایک شاہکار تخلیق قرار دیا۔ اس تخلیق کے خالق‘ معروف شاعر و ماہر تعلیم پروفیسر عنایت علی خان تھے جو ہفتہ و اتوار کی درمیانی شب اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ ان کی عمر 86برس تھی۔
پروفیسر عنایت علی خان کی زندگی کی داستان انتہائی دلچسپ ہے۔ پروفیسر صاحب13اپریل 1935ء کو بھارتی ریاست راجستھان کے علاقے ٹونک میں ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اجداد کا پیشہ سپہ گری تھا اور دادا اور نانا ٹونک کے عسکری دستوں کے سالار تھے، ان کے والد ہدایت علی خان شاعر تھے اور ٹونک میں ہی ریوینیو انسپکٹر تھے۔ پروفیسر صاحب والدین کے ساتھ نومبر 1948ء میں ہجرت کرکے حیدرآباد آگئے۔ 1962ء میں سندھ یونیورسٹی سے ایم اے کے امتحان میں ٹاپ کیا اور پرائمری سکول کا استاد بننے کا خواب لے کر چلنے والا نوجوان ادبی افق کا ایک درخشاں ستارہ بن گیا۔ اپنی خواہش اور رب کی عطا کا اظہار حمد کے ایک شعر میں اس طرح کرتے ہیں: 
میں ہمیشہ اپنے سوالِ شوق کی کمتری پر خجل رہا
کہ تیری نوازش بے کراں نے میری طلب سے سوا دیا
ماہر نصابیات کے طور پر وزارتِ تعلیم سے منسلک رہے، اردو‘ اسلامیات اور تاریخ اسلام کی کتابیں تصنیف کیں جو آج چاروں صوبوں میں رائج ہیں۔ قران پاک کو ''کامیابی کی کنجی‘‘ قرار دیتے تھے۔ ان کی شخصیت میں ایسی مقناطیسی کشش تھی کہ جو ملتا تھا‘ ان ہی کا ہو جاتا تھا۔ حمد و نعت کے شعری اسلوب میں معروضیت کے نئے افق متعارف کرائے۔ ان کی شاعری نے انہیں کئی ممالک کی سیر کروائی جہاں انہوں نے عالمی مشاعروں میں حصہ لیا۔ جب پہلی بار ایک مزاحیہ مشاعرے میں شرکت کے لیے جدہ پہنچے تو اس کا اظہار اس طرح کیا:
ہوا ہے جدے میں جو ایک مزاحیہ مشاعرہ
ہم آ گئے خدا کے گھر مذاق ہی مذاق میں
اور پھر حرم میں حاضری دی تو مرزا غالب کو ''ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب‘‘ کا کچھ یوں جواب دیتے ہیں:
قلم شق ہے کہ کن الفاظ میں شانِ حرم لکھے
یہاں ہیبت سے دل شق ہیں‘ قلم تو پھر قلم ٹھہرا
جو ہوتا ہم سفر غالبؔ تو میں اس کو یہ بتلاتا
کہ دیکھا! اس جگہ آ کر تمنا کا اگلا قدم ٹھہرا
پھر جب روضہ رسولؐ پر حاضری دی تو امت کا احوال کچھ اس طرح بیان کیا:
زبوں ہے ملتِ خیر الوریٰﷺ کا حال بہت
نہ جانے کھو گیا ملت کا وہ وقار کہاں
اور اس زوال و مصیبت کے باوجود اب بھی
یہ ملت اپنے گناہوں پہ شرمسار کہاں
طویل عرصہ تک کالم بھی لکھتے رہے، سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے کالم قلمی نام سے لکھا کرتے اور ان کے کالموں میں بھی مزاح کا رنگ نمایاں تھا مگر اس سلسلے کو جاری نہ رکھا۔ شاہکار منظومات اور غزلیات کے باوجود مزاحیہ شاعری شناخت کا بنیادی حوالہ ٹھہری، اشعار میں کاٹ کے ساتھ ساتھ نظر آنے والی شوخی و شگفتگی شخصیت کا بھی حصہ تھی، بلا کی بزلہ سنجی، شستہ جملہ بازی، زبان تو جیسے گھر کی لونڈی اور الفاظ ہاتھ باندھے اپنی باری کے منتظر۔ اطہر شاہ جیدی نے کہا تھا کہ یہ مولوی ہوگئے ہیں‘ اگر شوبز میں آ جاتے تو ہمارا چراغ نہ جلتا۔ خود پروفیسر صاحب مزاحیہ شاعری کے حوالے سے کہتے تھے کہ ''مزاح میں آپ لوگوں کے مسائل، ان کی بے چینی اور محرومیوں کو گوارا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مسائل تو سنجیدہ ہوتے ہیں، اگر شاعر میں سلیقہ ہوگا تو سامع فقط ہنسے گا نہیں‘ سوچے گا بھی‘‘۔ ان کی مزاحیہ شاعری پر انہیں اکبرالٰہ آبادی ثانی کا لقب دیا گیا۔ مذہبی حوالے سے بھی سخت عقائد رکھتے تھے اورشاعری و مذہبی فکر میں توازن بھی ان ہی کا خاصہ تھا۔عوامی مسائل ہوں یا ملکی سیاست کے اتار چڑھائو‘ اشعار کی زبان میں بیان کرتے، لوگوں کی آواز بنتے۔
خاندانوں کے بطور حکمران ملک پر مسلط رہنے کے سخت مخالف تھے اور ان خاندانوں کی جانب سے عوام کو نظر انداز کرکے اپنے اثاثے بنانے پر اکثر نشانہ بناتے رہتے تھے:
تالا چابی جو بیچتے تھے کبھی 
آج مالک ہیں وہ خزانے کے
ہے یہ سب اتفاق کی برکت
''اتفاقات ہیں زمانے کے‘‘
جب حکمرانوں کی جانب سے کابینہ میں وزراء و مشیران کی تعداد بڑھانے کے نت نئے بہانے ڈھونڈے جاتے تھے تو اس پر انہوں نے یوں طنز کیا:
خدا کے بندے کچھ تو سوچ دل میں‘ گوارا کیا میرا جینا نہیں ہے
اضافے کی بھی حد ہوتی ہے آخر! یہ اپنا گھر ہے کابینہ نہیں ہے
ملک پر بیرونی قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو خواص و عوام کے تناظر میں کچھ اس طرح سمجھاتے ہیں:
کیا ربطِ باہمی ہے‘ خواص و عوام میں
جیتے خواص‘ جشن مناتے عوام ہیں
بیرونی قرضہ جات کی صورت بھی ہے یہی
کھاتے خواص اور چکاتے عوام ہیں
عوامی مسائل ان کا خصوصی موضوع تھے، کراچی و حیدرآباد کے عوام جن مسائل کا شکار رہے، پروفیسر عنایت علی خان ان کی آواز بنے رہے۔ جب کراچی والوں پر ''بجلی‘‘ گرائی گئی تو پروفیسر صاحب اس طرح گویا ہوئے۔
جب واپڈا والوں سے کہا جا کے کسی نے
یہ کس نے کہا ہے ہمیں راتوں کو سزا دو
بولے ہمیں اقبال کا پیغام ملا ہے
''اٹھو میری قوم کے غریبوں کو جگا دو‘‘
کراچی میں جب خون ریزی کا بازار گرم تھا تو ہر کوئی نفسانفسی کا شکار تھا، شہر کی سڑکوں پر لاشے پڑے ہوتے تھے مگر کوئی اٹھانے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ لوگوں کی بے حسی دیکھتے تھے تو کہتے تھے: 
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
پروفیسر عنایت علی خان صاحب نے بچوں کے لیے لکھا تو ایسا لکھا کہ 2003ء میں بچوں کے ممتاز ترین ادیب قرار پائے۔ ان کی کہانیاں اور نظمیں بچوں کے نصاب کا حصہ بنیں۔ بچوں کے پروگرام میں ہوتے تو بچے ان کے ساتھ ساتھ جھوم کر ان کی نظمیں پڑھتے۔ ان کی تصانیف میں ازراہِ عنایت، عنایتیں کیاکیا، عنایت نامہ اور کلیاتِ عنایت کے علاوہ بچوں کی شاعری پر مشتمل دو کتابیں شامل ہیں۔ ان کی کامیابی یہی تھی کہ انہوں نے ادب سے لگائو رکھنے والے ہر عمر اور طبقے کے دلوں پر راج کیا۔ آج وہ ہم میں نہیں رہے مگر مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف آنے والی نسلوں کے دلوں پر حکمرانی کریں گے بلکہ ان کی تصانیف رہنمائی کا بھی ذریعہ بنیں گی۔ 
پروفیسر صاحب کے اس شعر پر اختتام کرتے ہیں:
ہم نہ ہوں گے بس ہمارا تذکرہ رہ جائے گا
متن مٹ جائے گا باقی حاشیہ رہ جائے گا

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں