کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
مرزاغالبؔ ہمیں گزشتہ دنوں میئر کراچی وسیم اختر صاحب کی پریس کانفرنس سن کر یاد آئے جس میں وہ فرما رہے تھے کہ جو بھی کراچی پر حکومت کرنے آیا‘ اس نے اس شہر کو صرف لوٹا ہے اور جن لوگوں نے ڈیفنس میں بنگلے بنائے ہیں‘ میں سب کو جانتا ہوں۔ پھر انہوں نے کاغذوں کے ایک پلندے کو وہ 70 خطوط قرار دیا جو انہوں نے مختلف محکموں کو لکھے مگر انہیں جواب نہیں دیے گئے۔ یہ سب بتاتے ہوئے محترم میئر صاحب آبدیدہ ہوگئے۔
پریس کانفرنس سننے کے بعد سوچا کہ اس پریس کانفرنس کا ''آپریشن‘‘ کیا جائے۔ اس عمل جراحی کے دوران میں میئر صاحب کے ''آنسوئوں‘‘ کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہتا تھا مگر کیا کروں کہ میں بھی کراچی سے ہی ہوں۔ سوچتا ہوں کہ کاش میرا تعلق کراچی سے نہ ہوتا، کاش 97ء میں وسیم اختر صاحب نے جب وزارتِ ہائوسنگ اینڈ پلاننگ سنبھالی تھی اور بابر غوری صاحب کے ساتھ مل کر شہرِ قائد کے لیے جو ''کارہائے نمایاں‘‘ انجام دیے تھے‘ میں انہیں تب سے نہ جانتا ہوتا، کاش میں نے بطور صحافی ان کے ناظم آباد سے ڈی ایچ اے کے ہزار گز کے بنگلے تک کا سفر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا، کاش میں کسی طریقے سے اپنے حافظے سے ان کا وہ دور نکالنے میں کامیاب ہو سکتا جب وہ سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کے دور میں الطاف حسین کی خصوصی ہدایت پر ای ڈی او فنانس بنائے گئے تھے، کاش مجھے یہ بھی علم نہ ہوتا کہ جب 30 اگست کو وسیم اختر صاحب میئر کراچی بنے تو وہ جیل میں تھے۔ کاش میری یادداشت سے محو ہوگیا ہوتا کہ 12 مئی 2007ء کو سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی کراچی آمد کے موقع پر شہر میں کھیلی گئی خون کی ہولی کے حوالے سے درج ہونے والے 19 مقدمات میں براہِ راست میئر صاحب کا نام شامل ہے جبکہ دہشت گردوں کے علاج معالجہ اور انہیں پناہ دینے کے سنگین الزام جیسے مقدمات سمیت کل 27 مقدمات ان پر چل رہے ہیں۔ کاش حساس اداروں کی وہ رپورٹ بھی بطور تحقیقاتی صحافی میری نظروں سے نہ گزری ہوتی جس میں بتایا گیا تھا کہ کراچی سے زکوٰۃ، فطرہ اور کھالوں کی مد میں 2 ارب روپے سے زائد کا بھتہ ہر سال لندن بھیجا جاتا تھا اور یہ وقت بھی چشم فلک نے دیکھا کہ اقلیتیں بھی محترم میئر صاحب کے سابق سیاسی آقائوں کو زکوٰۃ اور فطرہ دیتی تھیں۔ کاش میں نے اپنے صحافتی کیریئر میں کراچی کے ہسپتالوں، مردہ خانوں اور سرد خانوں میں نوجوانوں کی ہزاروں لاشیں نہ دیکھی ہوتیں۔ کاش چند کروڑ کے بھتے کے لیے بلدیہ فیکٹری میں زندہ جلائے جانے والے 284 مزدوروں کے سانحے کو میں نے کور نہ کیا ہوتا۔ کاش میں بھلا سکتا کہ کس طرح سابق چیف جسٹس کی کراچی آمد پر ان کی حمایت کے ''جرم‘‘ میں کراچی کے طاہر پلازہ میں 6 وکلاء رہنمائوں کو محبوس کرکے زندہ جلا دیا گیا تھا اور جب یہ سب ہوا تو وسیم اختر صاحب وزیر داخلہ تھے۔یقین کیجئے! اگر میرا حافظہ میرا ساتھ چھوڑ چکا ہوتا تو جب وسیم اختر کراچی کا نوحہ پڑھتے آبدیدہ ہوئے تو میری آنکھیں بھی یقینی طور پر بھیگ جاتیں۔ مگر کیاکروں کہ کراچی سے میری وابستگی ہی ایسی ہے۔ فرحان سالم کہتے ہیں ؎
ہوں واردات کا عینی گواہ میں‘ مجھ سے
یہ میری موت سے پہلے میرا بیاں لے لو
میئر صاحب نے جب اختیارات نہ ہونے کا رونا معزز عدالت کے سامنے رویا تھا تو چیف جسٹس گلزار نے ان سے کہا تھا کہ اگر اختیارات نہیں ہیں تو آپ عہدہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ میئر صاحب نے محترم جج صاحب کے ریمارکس پر بھی توجہ نہیں دی اور اب مدتِ میئر شپ مکمل ہونے سے محض 4روز قبل پریس کانفرنس کر ڈالی۔ وقتِ رخصت جو میئر صاحب نے نوحہ پڑھا ہے، یہ آئندہ بلدیاتی انتخابات کے لیے شروع کی گئی انتخابی مہم ہے، اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میئر صاحب کے یارانِ خاص‘ جو اب صفِ دشمناں میں کھڑے نظر آتے ہیں‘ اس حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ میئر شپ کے دوران آپ کی سب سے بڑی کامیابی گرین کارڈ حاصل کرنا تھا، آپ مسند اور ملک ایک ساتھ ہی چھوڑیں گے۔ ماضی میں تو میئر بننے کے لیے بولی لگتی تھی اور لندن سیکرٹریٹ کو سب سے زیادہ ''چندہ‘‘ بھجوانے والا بولی جیتتا تھا۔ 25 ستمبر 2015ء کو لندن سیکرٹریٹ میں ہونے والے اجلاس میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا اور گھر کے بھیدی بتاتے ہیں کہ دو لاکھ پائونڈ پر معاملہ طے پایا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ کراچی آپریشن کے باعث 'ایک اہم مہرے‘ پر برا وقت آیا اور یہ چندہ لندن پہنچ نہ سکا۔ مگر اب ایسا نہیں ہوگا، اب انتخابات میں حصہ لے کر ووٹ کے ذریعے کامیابی حاصل کرکے اور اکثریت ثابت کرکے میئر بننا ہوگا۔ اگرچہ بدخواہوں نے وسیم اختر صاحب پر بطور میئر کراچی بلٹ پروف گاڑی کی فروخت اور باغبانی کے لیے ڈی ایچ اے میں ایک ہزار گز کا پلاٹ تحویل میں لینے جیسے 'الزامات‘ لگائے مگر بھلا ہو ان کرشماتی شخصیات کا جن کا دستِ شفقت میئر صاحب کو ہر بار ایسے الزامات کے مہیب سائے سے نکال لے گیا۔
پریس کانفرنس میں میئر کراچی نے انتہائی دکھ سے اس ''حقیقت‘‘ سے بھی پردہ اٹھایا کہ آج تک کراچی میں جو بھی حکومت میں آیا‘ اس نے کراچی کو صرف لوٹا ہے۔ یہ سننا تھا کہ مجھے ایک جھٹکا سا لگا، سوچا دیکھیں تو سہی کہ میئر صاحب کن ''حاکموں‘‘ کو شہر کا لٹیرا سمجھ رہے ہیں۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء دور 1987ء میں ایم کیو ایم نے پہلی بار بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور کراچی و حیدر آباد سے کلین سویپ کیا، پھر طویل عرصے بعد جماعتی بنیادوں پر ہونے والے عام انتخابات 1988ء میں کراچی و حیدر آباد میں کلین سویپ کے ساتھ اندرونِ سندھ بھی نشستیں جیت لیں۔ اس دن سے جو انتظامی طور پر کراچی کو ایم کیو ایم نے سنبھالا تو اس کے بعد کراچی کو موجودہ حالت میں پہنچانے میں 32 سال لگا دیے۔ اس دوران ایم کیو ایم تین بار پیپلز پارٹی اور تین بار ہی مسلم لیگ کی اتحادی رہی، جنرل پرویز مشرف کی بھی آنکھوں کا تارا تھی۔ اس سیاسی الٹ پھیر کو دیکھیں تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ آخر وسیم اختر صاحب کراچی کو لوٹنے کا ذمہ دار کسے قرار دے رہے ہیں۔
اس حقیقت کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ اب جعلی ووٹ بھگتانے کا دور لَد گیا ہے، اس لیے اس کے باسیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ کراچی ادب سے محبت رکھنے والوں کا شہر ہے‘ آنسوئوں کو پہچانتا ہے۔ یہ بھی جانتا ہے کہ مگرمچھ کے آنسو اس وقت نکلتے ہیں جب وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے اپنے شکار کو نگلتا ہے۔ کراچی کو نگل کر اپنی بھوک مٹانے والے جتنے مرضی آنسو بہا لیں، یہ بات یقینی ہے کہ اس بار ہار جیت کا فیصلہ عوامی ووٹ ہی کی بنیاد پر ہوگا۔
عام انتخابات 1988ء میں کراچی و حیدر آباد میں کلین سویپ کے ساتھ ایم کیو ایم نے اندرونِ سندھ بھی نشستیں جیت لیں۔ اس دن سے جو انتظامی طور پر کراچی کو ایم کیو ایم نے سنبھالا تو اس کے بعد کراچی کو موجودہ حالت میں پہنچانے میں 32 سال لگا دیے۔ اس دوران ایم کیو ایم تین بار پیپلز پارٹی اور تین بار ہی مسلم لیگ کی اتحادی رہی۔ اس سیاسی الٹ پھیر کو دیکھیں تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ آخر وسیم اختر صاحب کراچی کو لوٹنے کا ذمہ دار کسے قرار دے رہے ہیں۔