2002ء میں وہ پاک افغان سرحد پر کھڑے تھے اور ان کے سر سے خون بہہ رہا تھا، مجمع انہیں قتل کردینے کے درپے تھا‘ سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں اپنے حصار میں لے لیا تھا ورنہ شاید غصے میں آگ بگولا ہجوم ان کی تکا بوٹی کردیتا۔ اس موقع پر جب سرکاری اہلکاروں نے ان سے پوچھا کہ اگر آپ کہیں تو حملہ آوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے سکیورٹی اہلکاروں کو جوجواب دیا‘ وہ صرف موقع و محل کے لحاظ سے ہی درست نہ تھا بلکہ ایک ایسی عالمگیر حقیقت تھی جسے اس دور میں کسی غیر ملکی صحافی میں کہنے کی ہمت نہیں تھی۔انہوں نے کہا: یہ (افغان مہاجرین) نہیں جانتے کہ میں ایک صحافی ہوں، میرے گورے رنگ کی وجہ سے یہ مجھے امریکی سمجھ رہے ہیں۔ امریکا نے جو اِن کے ملک میں کیا ہے‘ اگر ان کی جگہ میں ہوتا تو کسی بھی گورے کو دیکھ کر ایسا ہی ردعمل دیتا‘‘۔
یہ برطانوی نژاد صحافی رابرٹ فسک تھے جو چند روز قبل 74سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے کے سبب انتقال کرگئے۔ہزاروں صحافیوں کے استاد، سینکڑوں کے آئیڈیل! وہ کوئی جنگجو نہ تھے مگر ان کی ساری زندگی میدانِ جنگ میں گزری۔ ہوش سنبھالا تو اپنے والد کے ساتھ دوسری جنگ عظیم کی تباہی و بربادی کے شاہد بنے۔انگریزی لٹریچر میں گریجویشن اور سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کی سند لینے کے بعد انہوں نے عالمی طاقتوں سے ٹکر لینے کے لیے میدانِ صحافت کا انتخاب کیا۔ پھر دنیا میں جس جگہ بھی جارحیت ہوئی‘ وہ اس میدان میں کھڑے نظر آئے۔ انہوں نے اپنی پسند کا کام منتخب کیا تھا‘ سو انہیں یہ کام کبھی بھی بوجھ نہ لگا بلکہ ایک مشن سمجھ کر وہ اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
ان کا کہنا تھا ''حقائق کے قریب بھی نہیں پہنچا جاسکتا ‘جب تک کہ اس جگہ نہ پہنچا جائے جس کے بارے میں حقائق جاننے کی خواہش ہو‘‘۔ اپنے اس نظریے پر عمل کرتے ہوئے وہ ستر کی دہائی کے اوائل میں آئرلینڈ میں مذہبی بنیادوں پر ہونے والے فسادات کی کوریج کرتے نظر آئے تو 1976ء میں لبنان مین ہونے والی خانہ جنگی کے دوران انہوں نے اپنا ٹھکانہ بیروت کو بنا لیا۔ 1979ء میں ایرانی انقلاب کے عینی شاہد بنے تو 1980ء سے 1988ء تک ایران عراق جنگ کی صورتحال سے عوام کو آگاہ کرنے کے لیے کبھی بغداد تو کبھی تہران میں دکھائی دیتے۔ 1990ء سے 1991ء تک وہ خلیجی جنگ کے حالات دنیا کو بتاتے رہے۔ 90ء کی دہائی میں انہوں نے عالمی قوتوں کو مطلوب القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے تین انٹرویوزکئے۔ 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد وہ افغانستان پہنچے اور پاک افغان سرحد پر ڈیرہ ڈال لیا۔ پھر جب عرب سپرنگ کا آغاز ہوا تو ایک بار پھر عراق، شام اور لیبیا میں نظر آنے لگے۔ غرض یہ کہ بوسنیا، کوسوو، فلسطین‘ رابرٹ فسک ہر اُس میدان میں دکھائی دیے جہاں عام عوام کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی۔
رابرٹ فسک جونیئر صحافیوں سے ملنے سے کبھی گریز نہ کرتے تھے، وہ نہ صرف ان صحافیوں کی قدر کرتے تھے بلکہ ان سے رابطے میں بھی رہتے تھے جو انہیں سچ کی تلاش میں میدان میں اور خصوصا میدانِ جنگ میں موجود نظر آتے تھے۔ وہ ہوٹلوں میں بیٹھ کر میدانِ جنگ کی رپورٹنگ کرنے اور ''آفیشل ذرئع‘‘ سے خبریں جاری کرنے کے سخت خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا ''ہوٹل جرنلزم کے ذریعے حقائق سے آگاہی حاصل نہیں کی جاسکتی ‘‘۔ میدان جنگ میں فریقین ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں اور اپنے دشمن کو پہچانتے ہیں مگر اس جنگ کی صورتِ حال کی کوریج کرنے والا صحافی غیر جانبدار ہوتا ہے‘ اس لیے وہ کسی بھی فریق کا ہدف بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے رابرٹ فسک نے اپنی جونیئر اور الجزیدہ کی رپورٹر کیٹیا بوڈھان کو بتایا ''جنگ کے میدان میں جانے سے پہلے مجھے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ شاید واپسی نہ ہوسکے، اپنی ان آنکھوں سے میں اتنی بربادی اور اتنی لاشیں دیکھ چکا ہوں کہ اب مجھے ان سے خوف محسوس نہیں ہوتا‘‘۔رابرٹ فسک اکثر اپنے شاگردوں اور جونیئر صحافیوں کو 1940ء کی دہائی میں بننے والی الفریڈ ہچگاگ کی فلم ''Foreign Correspondent‘‘ دیکھنے کا مشورہ یہ کہہ کر دیتے تھے کہ ان کو صحافت کی جانب راغت کرنے کا ذریعہ یہ فلم بنی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک صحافی کی افریقہ میں سرگرمیوں کے حوالے سے لکھے گئے ایولن واگ ( Evelyn Waugh) کے ناول Scoop پڑھنے کی بھی وہ اکثر تاکید کیا کرتے تھے۔
''دنیا وی خدائوں‘‘ کے سامنے کلمہ حق کہنا کبھی بھی آسان نہیں رہا‘ جس نے بھی سچ بولا‘ وہ دشمن بناتا چلا گیا، ایسا ہی رابرٹ فسک کے ساتھ بھی ہوا۔ جب امریکا نے 1988ء میں ایرانی مسافر طیارے کو تباہ کیا تو رابرٹ فسک نے امریکی درندگی کا پردہ فاش کیا مگر ٹائم آف لندن کے ایڈیٹر نے نہ صرف فسک کی سٹوری نہیں چھاپی بلکہ امریکی درندگی کے دفاع میں خبر لگائی ''ایرانی پائلٹ خود کش حملے کا ارادہ رکھتا تھا‘‘۔ رابرٹ فسک نے اس صحافتی بددیانتی پر اخبار سے استعفیٰ دے دیا اور پھر The Independent سے رشتہ جوڑ لیا جو تادمِ مرگ قائم رہا۔ 1982ء میں اس وقت کے شامی صدر حافظ الاسد کی حماہ پر بمباری کے حقائق دنیا کے سامنے لانے پر شامی حکومت کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو صابرہ و شتیلا کے فلسطینی کیمپوں پر اسرائیلی بمباری کی صورتِ حال سے دنیا کو آگاہ کرنے پر انہوں نے اسرائیل کو اپنا دشمن بنا لیا۔ انہوں نے اپنے جنگی صحافتی کیریئر پر نصف درجن کتابیں لکھیں جو دنیا بھر میں ریکارڈ تعداد میں شائع و فروخت ہوئیں۔ ان میںPity the Nation: Lebanon at War ، The Great War for Civilisation: The Conquest of the Middle East اور Why Algeria's Tragedy Matters معروف ترین قرار دی جا سکتی ہیں۔ رابرٹ فسک کو مسلسل 7 سال تک برطانیہ میں ''British Foreign Reporter of the year‘‘ قرار دیا گیا۔ اس کے انہیں علاوہ درجنوں بین الاقوامی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ رابرٹ فسک کے انتقال پر بین الاقوامی میڈیا کی سرخیاں اور شام، لبنان، عراق اور آذربائیجان جیسے جنگی حالات کا سامنا کرنے والے ممالک میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے والے صحافیوں کے تعزیتی پیغامات‘ ان کی اپنے کام سے محبت کے ساتھ ساتھ جونیئرز میں مقبولیت بھی ثابت کرتے ہیں۔
ایسا صحافی کہ جو اپنے جونیئرز کو صحافتی زندگی پر بننے والی فلمیں اور ڈاکومنٹریز دیکھنے کا مشورہ دیتا تھا‘ جب خود اس کی اپنی زندگی پر 2019ء میں چینی ڈائریکٹر یونگ چنگ نے دستاویزی فلم بنائی تو یہ صحافت کے طلبہ کے لیے ایک اثاثہ ثابت ہوئی۔ اس دستاویزی فلم میں آگ، خون، تباہ شدہ عمارتوں اور تباہی و بربادی کے حقیقی مناظر میں رابرٹ فسک حقائق کی کھوج میں محو نظر آتے ہیں۔ یہ مناظر ایسے ہیں جنہیں دیکھ کسی ہالی ووڈ فلم کا گمان گزرتا ہے۔ شاید اسی لیے اس دستاویزی فلم کے خالق کو فلم کے نام کے ذریعے بتانا پڑا کہ ''This Is Not A Movie‘‘۔
کسی بھی شعبے کی اصل اس کی اقدار کے ساتھ ہی قائم رہ سکتی ہے۔ صحافت کی اصل حق گوئی و بے باکی ہے‘ چاہے اس کے لیے جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ رابرٹ فسک تو نہ رہے مگر ان کا طرزِ صحافت اب ایک استعارہ بن گیا ہے۔ آج بھی جو صحافی حقائق کی کھوج میں رہتے ہیں وہ رابرٹ فسک کے طریق پر عمل کرتے ہوئے خبر کی کھوج میں ''سوشل میڈیا اور ہوٹل جرنلزم ‘‘ سے گریز اور ''آفیشل ذرائع‘‘ سے افواہوں کو فروغ دینے سے بچتے ہوئے جائے وقوعہ پہنچ کر حقائق جانتے ہیں۔ ایسے صحافیوں کی ذاتی لائبریریوں میں رابرٹ فسک کی کتابوں کے ساتھ ساتھ ان کی تجویز کردہ فلمیں اور ناول بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔