"FBC" (space) message & send to 7575

’’گینگز آف کراچی‘‘

'' مجھے مارنے کے بعد تم دیکھو گے کہ کیا ہوگا‘ جب پنجرا ٹوٹے گا اور تمام درندے چیر پھاڑ کرنے کے لیے آزاد ہوجائیں گے‘ اس وقت تم مجھے یاد کروگے‘‘ یہ ڈائیلاگ1980ء کی دہائی میں میکسیکو پر راج کرنے والے منشیات فروش فلیکس گلاردو کی زندگی پر بنائی گئی معروف ڈرامہ سیریز ''Narcos: Mexico‘‘کے ہیں۔اس میں دکھایا گیا ہے کہ فلیکس گلاردو کس طرح میکسیکو میں کام کرنے والی مختلف مافیاز کو ایک پیج پر لاکر اپنے ماتحت کرتا ہے اور پھر اپنا الگ نظام وضع کرتا ہے۔ اس کا اثرورسوخ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ انتخابات کے نتائج تبدیل کرانے سے لے کر عدالتوں سے من چاہے فیصلے لینے پر قادر ہوجاتا ہے۔ریاست میں ریاست کی بنیاد رکھتا ہے۔ہر شعبے کے افراد کو اپنے مافیا میں شامل کرکے نیٹ ورک قائم کرتا ہے‘ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد اس کے لیے کام کرتے ہیں۔ ٹرانسپورٹرز‘ تاجر‘ اساتذہ‘ وکلا ‘ طلبا‘سیاستدان‘ پولیس‘ فوجی اہلکار‘ جج‘ غرض وہ سب کو خرید لیتا ہے۔ کئی مواقع پر جب وہ پکڑا جاتا ہے تو اسی لمحے وہ مخالف کو ایسی آفر کرتا ہے جس سے انکارمخالف کے بس کی بات نہیں رہتی اور وہ فلیکس کو آزاد کردیتا ہے۔ سیزن کے اختتام پر جب وہ گرفتار ہوتا ہے تو ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن کے افسرسے درج بالا ڈائیلاگ کہتا ہے۔اس ڈائیلاگ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو نیٹ ورک اس نے بنایا ہے اسے سنبھالنا کسی اور کے بس کی بات نہیں ‘ اگر اسے ختم کردیا گیا تو یہ سب گینگسٹرز آزاد ہوجائیں گے۔ ہر کوئی اپنا اپنا گینگ بنا لے گا اور شہر کی کوئی گلی ‘ کوئی کوچہ ان سے محفوظ نہ رہے گا۔کچھ ایسی ہی صورتحال کی عکاسی ڈان ونسلو کے ناول ''The Power of the Dog‘‘ میں بھی کی گئی ہے‘ جس میں امریکہ میں ''وار آن ڈرگز‘‘ کے ابتدائی تیس سالہ تاریخ کو فکشن میں بیان کیا گیا ہے ۔ ناول میں امریکی ادارے ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن ‘ سی آئی اے‘ ایف بی آئی اور امریکی سیاستدانوں کے کرتوت بے نقاب کیے گئے ہیں کہ وہ کیسے اپنے مقاصد کے لیے منشیات کا کاروبار کرنے والی مافیاز کو سپانسر کرتے ہیں۔
زیر زمین دنیا کا نیٹ ورک کیسے چلتا ہے ‘اسے سمجھے اور جاننے کے لیے ماریو پازو کے ''The God Father‘‘ کو پڑھ لیں یا جیمز الرائے کے ''L.A. Confidential‘‘پر نظر ڈال لیں‘ معروف بھارتی صحافی حسین زیدی کی ''Dongri To Dubai‘‘ اور اس کے دوسرے حصے ''Byculla to Bangkok‘‘ کا مطالعہ کرلیں یا ایس کے گھوش کی '' The Indian Mafia‘‘ کی ورق گردانی کرلیں‘ اگر وقت کم ہو تو کم از کم وکرم چندرا کی ''Sacred Games‘‘ کے ذریعے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایسے مافیاز کا نیٹ ورک کس قدر مضبوط ہوتا ہے اور اس کی جڑیں کہاں تک پھیلی ہوتی ہیں۔ حقائق پر مبنی بے شمار کتب ‘فلمز اور ڈاکیومینٹریز موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ کسی بھی مافیا کا خاتمہ اس کی جڑیں کاٹے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مافیا کے سربراہ کو گرفتار یا مار کر اسے نیٹ ورک ختم کردینے کے مترادف سمجھنا خود فریبی ہے۔
مجھے ان کتابوں اور موویز سے سمجھ آنے والا یہ نقطہ اس وقت یاد آیا جب کراچی سی ٹی ڈی کے سربراہ ڈی آئی جی عمر شاہد کو پریس کانفرنس کرتے سنا‘ جس میں انہوں نے بتایا کہ جمشید کوارٹرز کے علاقے میں مفتی عبداللہ پر حملہ کرنے والے گروہ کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ مجرموں کا تعلق لیاری گینگ وار سے ہے اور اب وہ کرائے کے قاتلوں کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے گینگز چلا رہے ہیں۔ڈی آئی جی عمر شاہد کا شمار کراچی کے قابل ترین افسران میں ہوتا ہے اور وہ طویل عرصے سے شہر میں کام کرنے والے مختلف مافیاز سے برسرپیکار رہے ہیں۔ عمر شاہد نے ان مافیاز کے خلاف جدوجہد اس وقت شروع کی جب ان کے والد ملک شاہد حامد ‘جو اُس وقت کے ای ایس سی کے ایم ڈی تھے‘ کو ان کے گھر کے سامنے مافیا کے کارندوں نے ڈرائیور اور گارڈ سمیت قتل کردیا تھا۔ عمر شاہد اور ان کی والدہ نے تمام تر دبائو کے باوجود ملک شاہد حامد کا کیس لڑا‘ جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے مجرم صولت مرزا کو پھانسی ہوئی۔ ڈی آئی جی عمر شاہد نے کراچی میں سرگرم رہنے والے گینگز کے حوالے سے تفصیلات اپنی کتابوں ''The Prisoner‘‘ اور ''The Party Worker‘‘ میں تفصیل سے بیان کی ہیں۔
کراچی گزشتہ چار دہائیوں سے جس طرح مافیاز کے قبضے میں رہا اس کا مشاہدہ میں نے کراچی میں طویل عرصے تک کرائم رپورٹنگ کے دوران کیا ہے۔ان مافیاز نے کیسے کام کیا ‘ کون ان کی پشت پناہی کرتا رہا‘ ان مافیاز کے کارندے کہاں سے تربیت حاصل کرتے رہے‘ کون انہیں فنڈنگ کرتا رہا‘ یہ تمام تفصیلات عزیر بلوچ اور اجمل پہاڑی کی جوائنٹ انٹیروگیشن رپورٹ میں سامنے آچکی ہیں۔سیاستدانوں ‘ بیوروکریٹس‘ پولیس افسران اور سماجی شخصیات کے چہرے بے نقاب ہوئے ہیں۔یہ تفصیلات ایسی ہیں کہ اگر ان پر ''گینگز آف کراچی‘‘ کے نام سے انڈر ورلڈ اور ان کے آقائوں کے حوالے سے ایک بہترین تحقیقی ڈاکیو منٹری بنائی جائے تو یقینی طور پر آسکر جیتا جاسکتا ہے۔جب ان مافیاز کو کنٹرول کرنے کا مرحلہ آیا تو ہوا یہ کہ بڑوں کو تو لگام ڈال دی گئی مگر نچلی سطح تک قلع قمع نہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب کراچی بڑے مافیاز کے تسلط سے آزاد ہونے کے بعد سپلنڑ گروپس کے قبضے میں آگیا ہے ۔ ان مافیاز سے منسلک گینگز اور ٹارگٹ کلرز اب شہرمیں اپنے اپنے گروپس بنا کر دندناتے پھر رہے ہیں اور اپنی ''گزربسر‘‘ کے لیے سٹریٹ کرائمز ‘قتل و غارت‘ اور ملک دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ حالات کی سنگینی دیکھئے کہ گارڈن پولیس نے ایک قاتل کو گرفتار کیا ہے جس کا تعلق ایم کیو ایم لندن سے بتایا جاتا ہے اور اس نے صرف 1000روپے کے موبائل کارڈ کے لیے ایک شخص کو قتل کردیا۔ یہ سپلنٹر گروپس اصل مافیاز سے زیادہ خطرناک ثابت ہورہے ہیں۔ ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں ان گروپس کے لسانی و فرقہ وارانہ کارروائیوں میں بھی استعمال ہونے کی اطلاعات ہیں ۔ سکیورٹی اداروں پر حملے ہوں یا علما پر ‘ پڑوسی ممالک انہی گروپس کو استعمال کررہے ہیں۔ جوسپلنٹر گروپس باقاعدہ کسی نیٹ ورک کا حصہ نہ بن پائے وہ کرائے کے قاتلوں کا کردار ادا کررہے ہیں جبکہ ایسے گروپس کے لیے لینڈ مافیا کی بھی'' پدرانہ شفقت‘‘ جاگی اور اس نے بھی متعدد گروپس کو گود لے لیا ۔
کراچی کی بدقسمتی ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں سے اسے کبھی بھی جرائم پیشہ گروہوں سے مکمل طور پرپاک نہیں کرایا جاسکا۔ 92ء کا آپریشن یک طرفہ ہونے کی وجہ سے متنازع ہوگیا‘ 96ء اور 98ئکے محدود آپریشنز بھی سیاسی مصلحتوں کی نذر ہوگئے۔ستمبر 2013ء میں شروع ہونے والا کراچی آپریشن جو 2016ئ میں اپنے عروج پر پہنچا ‘ اسی کے ثمرات ہیں کہ مافیاز کا نیٹ ورک تو ٹوٹ گیا مگر اس نیٹ ورک سے جنم لینے والے چھوٹے دھڑوں کے خلاف کارروائی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اب تو یہ بھید بھی کھل چکا ہے کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں جنم لینے اور جنرل مشرف دور میں عہدِ شباب گزارنے والی ایم کیو ایم کا سربراہ بھی 'را‘ سے فنڈنگ لے کر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے ۔ اب بیچارے مصطفی کمال گھر کے بھیدی کے طور پر بے شک نام لے کر بتارہے ہیں کہ کون بھارت گیا اور کس طرح نیٹ ورک بنایا گیا‘ مگر کوئی سننے کو تیار نہیں۔ اس لیے کہ جن کے نام مصطفی کمال لے رہے ہیں وہ حکومت کے اتحادی ہیں۔ ارباب اختیار کو خبر ہو کہ جب تک کراچی میں سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی جرائم کا خاتمہ ناممکن ہے۔فلیکس گلاردو نے ٹھیک کہا تھا کہ‘ '' مجھے مارنے کے بعد تم دیکھو گے کہ کیا ہوگا‘ جب پنجرا ٹوٹے گا اور تمام درندے چیر پھاڑ کرنے کے لیے آزاد ہوجائیں گے‘ اس وقت تم مجھے یاد کروگے‘‘

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں