مظفر گڑھ میں سسر نے معمولی گھریلو تنازعے پر اپنے داماد کی پہلی بیوی کے گھر پر حملہ کیا اور دو کمسن بچیوں کو پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ دو ننھی کلیاں جل کو کوئلہ بن گئیں... اسلام آباد میں شوہر سے رنجش کے بعد سوتیلی ماں نے پانچ سالہ بیٹے کو کپڑوں میں لپیٹ کر آگ لگا دی... لاہور میں باپ نے اپنی دو ذہنی معذور بچیوں کو چھریوں کے پے درپے وار کر کے قتل کر دیا اور خودکشی کر لی... لاہور میں ایک شخص نے اپنی بیوی اور دو بچیوں کو آگ لگا دی... خیرپور کی سات سالہ بچی کو درندوں نے بھنبھوڑنے کے بعد قتل کرڈالا...
یہ گزشتہ ایک ہفتے کی خبریں ہیں‘ جو میری نظر سے گزریں، ایسی کتنی ہی خبریں ہوں گی جو نظروں سے اوجھل رہیں یا وہ بھی جو خبر بن ہی نہیں پائیں۔ اب اگر گزشتہ چند ماہ پر نظر ڈال لیں تو نوشہرہ کی حوض نور، نوشہرہ کی ہی صبا نور، قادر پوراں کی چار سالہ بچی، اس کے علاوہ مانگا منڈی، شہداد کوٹ، ٹنڈو آدم، رحیم یار خان، میاں چنوں، خیرپور ناتھن شاہ، سکھر، لاہور اور کراچی سمیت سے ایسی خبریں‘ ایسے سانحات سامنے آئے کہ دل دہلا دیے۔ چارسدہ کی دو سالہ نور فاطمہ کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا، اس کی لاش ایسی حالت میں ملی کہ اس کا ایک بازو اس کی آنکھوں پر رکھا تھا، جس کرب و تکلیف سے وہ گزری ہو گی‘ اس میں زیادہ وہ کر ہی کیا سکتی تھی۔ پھر کشمور کی وہ چار سالہ بچی‘ جس نے اپنے ساتھ بیتے واقعے کی تفصیل بتائی تو پولیس والوں کی بھی آنکھیں بھر آئیں۔
بچے تو زمین پر خدا کا روپ ہوتے ہیں، معصوم فرشتے کہ جنہیں دیکھتے ہی پیارے آئے، جن سے پاکیزگی کا احساس ہو، زندگی پیاری لگنے لگے۔ انہیں قتل کیا جا رہا ہے، زیادتی کا نشانہ بنا کر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینکا جا رہا ہے۔ ایسی درندگی دکھائی جا رہی ہے کہ جس کا تصور صرف جنگلوں میں ہی کیا جا سکتا تھا مگر اب ان سانحات کو دیکھنے کے لیے جنگلوں میں جانے کی ضرورت نہیں، اب ہمارا اپنا ملک تقریباً ہر گائوں‘ ہر شہر‘ ہر قصبہ بچوں کے حوالے سے جنگل بن چکا ہے۔ کوئی دن نہیں گزرتا جب ایسا کوئی دردناک واقعہ دل نہ چیر دے۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں کورونا نامی وبا نے تباہی مچائی ہوئی ہے اور پاکستان میں بھی اس وبا سے دس ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں‘ ایسی وبا کہ جس میں جان سے پیارے تکلیف میں ہوں تو ان کے قریب نہیں جایا جا سکتا‘ ایسی وبا کہ جس میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ معاشرے میں اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوتا، انفرادی و اجتماعی طور پر استغفار کا اہتمام کیا جاتا‘ معاشرہ رب کا باغی بننے کی جانب مزید تیزی سے سفر کرنے لگا۔ اگر ماضی قریب یا ماضی بعید پر نظر دوڑائیں تو کسی زندہ شخص کو آگ میں جلا کر مارنے کے واقعات خال خال ہی رپورٹ ہوتے تھے اور جب رپورٹ ہوتے تھے تو ہر فورم پر ان کا تذکرہ ہوتا تھا۔ اب یہ صورتِ حال ہے کہ معصوم پھولوں کو معمولی رنجش پر جلا کر کوئلہ بنا دیا جاتا ہے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ میں سول ہسپتال برنز وارڈ کے ڈاکٹر جاوید اشرف کے الفاظ جب بھی یاد کرتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ''اگر کوئی صحت مند و توانا جوان جسم بھی خدانخواستہ آگ سے جھلس جائے اور بچ جائے تو وہ بقیہ زندگی کبھی بھی نارمل انداز میں نہیں گزار سکتا۔ آگ میں جلنے کا کرب ایسا دردناک ہے کہ اس کے اثرات کسی بھی طرح ذہن سے ختم نہیں کیے جا سکتے۔ جلنے کا کرب اور اس کی اذیت اتنی دردناک، ہولناک اور تکلیف دہ ہوتی ہے کہ صحت مند ہونے کے باوجود انسان نفسیاتی طور پر مکمل ٹھیک نہیں ہو پاتا۔ آگ میں جلنے کا عمل اتنا بھیانک ہے کہ انسان کو برائیوں سے روکنے کے لیے دوزخ کا حوالہ اسی لیے دیا جاتا ہے‘‘۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی سفاکی انسان میں کہاں سے آ جاتی ہے، ایسے شقی القلب نفسیاتی مریض کیوں نظروں سے اوجھل رہتے ہیں، وہ کون سے عوامل ہیں جو ان نفسیاتی مریضوں کی نفسانی خواہشات کو ایندھن فراہم کر رہے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ان واقعات میں ملوث مجرموں کے ماضی کا جائزہ لیا جائے تو ان کی شخصیت میں کہیں نہ کہیں کمی رہ گئی ہوتی ہے، بیشتر خود ایسے جرائم کا شکار رہ چکے ہوتے ہیں، خاص طور پر جو لوگ بچوں کو جلا کر مارنے جیسے بھیانک جرم کا ارتکاب کرتے ہیں‘ ان کے ماضی کھنگالا جائے تو 90 فیصد مجرم ماضی میں جلائے جانے کا کرب سہہ چکے ہوتے ہیں اور لاشعوری طور پر وہ اس اذیت کا بدلہ لیتے ہیں۔ اگر معاشرے میں انصاف اور قانون محض نام کو باقی رہ جائیں تو ایسے درندوں کو چھوٹ مل جاتی ہے اور پھر پیٹرول چھڑک کر بچوں کو جلا دینا عام سی خبر بن کر رہ جاتی ہے۔
نومولودوں کی اموات کا سب سے زیادہ تناسب پاکستان میں ہے،عالمی ادارے نشاندہی کر رہے ہیں کہ پاکستان میں 100 میں 61 بچے اپنی پہلی سالگرہ نہیں منا پاتے۔ ساحل کے مطابق 2020ء کے ابتدائی 6 ماہ میں روزانہ 8 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ دنیا ہماری صورتِ حال پر چیخ رہی ہے اور ہم ہیں کہ ایک دوسرے پر چلا رہے ہیں۔ اس وقت ملکی سطح پر سیاسی ماحول دہک رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ اپنے بچوں کو‘ اپنے مستقبل کو بچانے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھ جائیں، ہمارے رہنما ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار نظر آتے ہیں۔
کلیاں روندی جا رہی ہے جس پر عام عوام سراپا احتجاج ہیں مگر جانے یہ حکمران کس مٹی کے بنے ہیں کہ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ تحریکِ انصاف انصاف کی فراہمی کو منشور کا حصہ بنا کر اقتدار میں آئی تھی مگر اس کے دورِ اقتدار میں جو چیز سب سے پہلے ناپید ہوئی وہ سماجی انصاف تھا۔ بلند بانگ دعووں کے ذریعے پہلے عوام کو سبز باغ دکھائے گئے لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ ہمیں ایک سال تک تو اکانومی کی سمجھ ہی نہیں آئی، اس لیے اقتصادی حالت دگرگوں رہی۔یہاں سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں‘ وہ کون سا شعبہ ہے وہ اس وقت بلندیوں کو چھو رہا ہے؟ سبھی معاملات تنزلی کا شکار ہیں۔جب تمام وزرا اور مشیران کو یہ فرض سونپا جائے کہ اپوزیشن کو بھرپور جواب دیا جائے اور پوری کابینہ اس فریضے کی ادائیگی میں مشغول ہو جائے تو ایسے معاشرے میں بچوں کو بھنبھوڑ کر پھینک دیا جائے یا زندہ جلا دیا جائے، کسے فرق پڑتا ہے؟ پھر یہ معمولی بات بن جاتی ہے۔ ایسے میں جب صحافیوں سے کہا جاتا ہے کہ ''مثبت صحافت‘‘ کریں تو بے اختیار ظفر رباب یاد آ جاتے ہیں ؎
سانحہ روز نیا ہو تو غزل کیا کہیے
ہر طرف حشر بپا ہو تو غزل کیا کہیے
بربریت پر ہی قدغن ہے نہ سفاکی پر
رقصِ ابلیس روا ہو تو غزل کیا کہیے