"FBC" (space) message & send to 7575

پولیس کی نفسیاتی پروفائلنگ کی اہمیت

جب وہ عدالت پہنچے تو ان کے چہروں پر خوف کی رمق تک نہ تھی، چہرے پُرسکون تھے، بااعتماد قدموں‘ کھلے بازوئوں کے ساتھ وہ احاطۂ عدالت میں ایسے چل رہے تھے جیسے معصوم طالبعلم کے مبینہ قاتل نہیں بلکہ قومی ہیرو ہوں۔ انہیں عدالت لانے والے، ان کے پیٹی بند بھائی قتل کے ملزموں کے گرد ایسے گھیرا بنائے چل رہے تھے جیسے وہ ملزموں کو نہیں بلکہ اپنے ادارے کے ہیروز کو عوامی دیدار کے لیے لا رہے ہیں اور ابھی یہ ملزمان ہاتھ ہلا ہلا کر نعروں کا جواب دیں گے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے دنیا نیوز کے نمائندے کا کہ یہ ساری صورتِ حال جوں کی توں نشر کر دی۔ بس پھر کیا تھا‘ اچانک ہی مبینہ قاتلوں کے گرد حفاظتی حصار میں بجلی کوندی، پہلے ان ملزمان کے ہاتھ کپڑے سے باندھے گئے‘ پھر طوعاً و کرہاً انہیں ہتھکڑیاں پہنا دی گئیں مگر ان ملزمان کے چہروں پر پشیمانی، خجالت اور ندامت کا شائبہ تک نہ تھا؛ البتہ ہتھکڑیاں پہنانے والے ملزمان کے سامنے شرمسار سے لگ رہے تھے۔
یہ پروٹوکول کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے ایسے اہلکاروں کو دیا جا رہا تھا جنہوں نے اسلام آباد میں ایک طالبعلم اسامہ ستی کو مبینہ طور پر ذاتی رنجش کی بنا پر قتل کیا اور اس کارروائی کو پولیس مقابلے کا رنگ دے دیا۔ قتل کے بعد اسے سڑک پر پھینک کر مرنے کا انتظار کیا جاتا رہا۔ ستم در ستم یہ کہ ڈی ایس پی، ایس ایس پی اور ڈی آئی جی اسلام آباد اپنے اہلکاروں کو بچانے کے لیے عوام سے جھوٹ بولتے رہے مگر جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے بھانڈا پھوڑ دیا۔ پتا چلا کہ ان اہلکاروں نے اپنے مکروہ فعل پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے مقابلے کا رنگ دینے کی کوشش کی؛ تاہم اس حوالے سے ان کی ساری ''مہارت‘‘ دھری کی دھری رہ گئی۔ رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر ون فائیو پولیس کنٹرول آفس میں بیٹھے 'سہولت کاروں‘ نے ریسکیو ٹیم کو غلط لوکیشن دے کر ملزمان کی مدد کرنے کی بھی کوشش کی۔ افسرانِ بالا نے بھی اہلکاروں کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور ایک موقع پر تو ایسا محسوس ہوا جیسے پورا نظام ملزمان کا حمایتی بن گیا ہے۔ اعلیٰ حکام نے جب دیکھا کہ پول کھل گیا ہے اور معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہے تو سب خاموشی سے پیچھے ہوتے گئے۔ اس حوالے سے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ افسران کے ٹویٹر اکائونٹس دیکھے جائیں تو دھند چھٹ جاتی ہے اور منظر واضح ہو جاتا ہے۔
ان اہلکاروں کی عدالت میں پیشی کے مناظر ٹی وی سکرین پر دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے ماضی کے ایسے کئی مناظر گھوم گئے جس میں مبینہ قاتل بڑی ''شان‘‘ سے عدالت میں پیش ہوتے تھے۔ سانحہ ساہیوال تو زیادہ پرانی بات نہیں پھر ''فیک انکائونٹر سپیشلسٹ‘‘ رائو انوار کی عدالت میں انٹری تو کسی کو نہیں بھولی ہو گی۔ پاکستان کے تمام ادارے 400 نوجوانوں کو مارنے والے اس شخص کو ''تلاش‘‘ کرنے کے لیے اپنی تمام ''صلاحیتیں‘‘ صرف کرتے رہے مگر ہوا کیا؟ رائو انوار اپنی مرضی کے دن، اپنی مرضی کے وقت اور اپنی مرضی کے دروازے (خاص افراد کے لیے مختص) سے عدالت میں پیش ہوا۔ جب وہ عدالت پہنچا تو احاطۂ عدالت ماتحتوں کے سلیوٹ سے گونج اٹھا۔ حاضرین اسی وقت سمجھ گئے کہ صیاد نہ چاہے تو کوئی پنجرہ پنچھی کو قبول نہیں کرتا اور یہی ہوا رائو انوار اب بیرونِ ملک آرام کی زندگی گزار رہا ہے۔ مدعی بس قتیل شفائی کے اس شعر کی عملی تصویر بنے رہ گئے،
کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک
جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے
جس میں غلے کے نگہبان ہیں وہ گیدڑ جن سے
قحط و افلاس کے بھوتوں نے اماں چاہی ہے
ملک بھر میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کی جانب سے مشکوک مقابلوں کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ ان میں سے جو مقابلے موبائل فوٹیج ، سی سی ٹی وی کیمروں میں آ جانے یا کسی بھی اور وجہ سے جعلی ثابت ہو جائیں صرف ان کے حوالے سے عوامی دبائو پر ملوث اہلکاروں کے خلاف ابتدائی طور پر کچھ کارروائی کی جاتی ہے اور پھر کچھ عرصے بعد اہلکار وں کو رہا کروا لیا جاتا ہے۔ ویسے تو جوڈیشل کمیشن نے کئی سفارشات دی ہیں جن کے حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کے قابل عمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سی ٹی ڈی کے ایسے اہلکاروں‘ جنہیں گولی چلانے کا اختیار ہو‘ کا پہلے نفسیاتی معائنہ کرایا جانا چاہئے۔یادش بخیر! کئی سال قبل ایک اخباری رپورٹ نظر سے گزری تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب پولیس کے ڈی ایس پی رینک سے نیچے کے اہلکاروں کی نفسیاتی پروفائلنگ کی گئی تو پتا چلا کہ کام کی زیادتی اور ذہنی دبائو کی وجہ سے بڑی تعداد میں اہلکار مختلف نفسیاتی عارضوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ڈی ایس پی سے اوپر رینک کے افسران ٹیسٹ میں شامل ہی نہیں ہوئے تھے‘ ورنہ پتا نہیں تناسب کیا رہتا۔
بات ہو رہی تھی جعلی مقابلوں کی! ان جعلی مقابلوں سے کہیں زیادہ خطرناک معاملہ یہ ہے کہ ایسے مقابلوں پر ایکشن لینے اور ملزمان کو نشانِ عبرت بنانے کے بجائے پورا نظام ملزمان کو بچانے میں جت جاتا ہے۔ اس کے لیے جھوٹ کی ہر حد عبور کر دی جاتی ہے۔ ایوانوں میں مجرموں کوسخت سزائیں دینے کے دعوے کیے جاتے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خاموشی چھا جاتی ہے۔ اہلِ علم کہتے ہیں کہ خاموشی دراصل پشت پناہی کی ہی ایک شکل ہے۔
اب اگر سی ٹی ڈی کی پیدائش پر نظر ڈالیں تو پرویز مشرف جب بیرونی جنگ کو کھینچ کر اپنے ملک میں لائے تو ایسے ادارے کی ضرورت محسوس ہوئی جو 'نیم فوجی‘ ہو، دہشت گردوں کے خلاف بہتر انداز سے سرگرم ہو سکے۔ اس کے لیے ابتدا میں پولیس کے کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کو چنا گیا اور پھر اس کا نام 2010ء میں تبدیل کرکے سی ٹی ڈی کر دیا گیا اور 2015ء میں اسے مخصوص تھانے دے دیے گئے۔ یہ ادارہ جہاں دہشت گردی کے خلاف سرگرم رہا وہیں ملک بھر میں اس کی کارروائیوں پر سوال بھی اٹھتے رہے۔ پھر سی ٹی ڈی میں ہی 1200 افراد پر مشتمل ایک اور فورس'' کائونٹر ٹیررازم فورس (سی ٹی ایف)‘‘ قائم کی گئی۔ اگرچہ ان فورسز کی اہمیت و ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اس میں بھرتی کے عمل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ برادری، سفارش، رشوت اور سیاسی اثر و رسوخ پر بھرتی کیے گئے نااہل و غیر ذمہ دار اہلکار کسی بھی ادارے کے لیے کلنک کا ٹیکا ثابت ہوتے ہیں۔
یہ حکمرانوں کے لیے سوچنے کا وقت ہے! اب جبکہ جوڈیشل انکوائری کمیشن نے بھی اپنی سفارشات میں اسلحہ تھام کر عوام میں گھومنے والے اہلکاروں کے نفسیاتی معائنے کی اہمیت پر زور دیا ہے تو اربابِ اختیار کو چاہئے کہ تمام اہلکاروں کا معائنہ کرائیں اور نفسیاتی مسائل کے شکار اہلکاروں کا مناسب علاج کرائیں‘ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آئندہ کوئی رائو انوار اور عابد باکسر پیدا نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ فوری طور پر ایسی اصلاحات کی جائیں‘ کوئی انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے جس کے تحت محکمہ میں خود احتسابی کے عمل کو فروغ ملے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر آئے روز ایسے سانحات جنم لیتے رہیں گے اورکوئی نہ کوئی اپنے کسی پیارے کی لاش اٹھائے انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہو گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں