وہ مسلسل شرکائے محفل کو ایسی باتیں بتارہے تھے کہ جن پر یقین کرنا کم از کم کسی صاحبِ عقل و شعور کے لیے ممکن نہیں تھا ‘ پھر اس پر بضد بھی کہ ان کی بات پر یقین کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی یہ ''اہم خبریں‘‘ شیئر کرنے کے علاوہ انہیں داد بھی دی جائے۔ محترم سینئر ہیں ا س لیے احترام کا تعلق تو اختلاف کے ساتھ بھی موجود رہتا ہے۔وہ میڈیا کے اس حصے سے تعلق رکھتے تھے جہاں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ وزیراعظم کی جانب سے نئے سال کا تحفہ قرار دیا جاتا ہے۔ موصوف ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ وہ حکومت کے سب سے زیادہ قریب ہیں اور ان کی مرضی اور علم میں لائے بغیر حکومت کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔ ان کی اس ساری گفتگو کو انتہائی احترام کے ساتھ ہم نے بھی اتنا ہی سنجیدہ لیا جتنا عوام سوشل میڈیا پر انہیں سنجیدہ لیتے ہیں۔ محفل کے اختتام پر جب ہمارے میزبان نے اس گفتگو کے حوالے سے ہماری رائے چاہی تو عرض کی کہ پاکستان میں نہ تو ''ریپبلک ٹی وی‘‘ جیسے چینلز کی کمی ہے اور نہ ہی ارنب گوسوامی جیسے صحافیوں کی‘ بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ کئی گوسوامی طرزِ صحافت اختیار کرچکے اور درجنوں لائن میں کھڑے ہیں۔ کب نظر ِکرم ہو اور کب وہ بڑے صحافی بنیں۔
خیر یہ تو محض ایک واقعہ تھا مگر آج میں بات ارنب گوسوامی سکینڈل پر ہی کرنا چاہ رہا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ سکینڈل ایک کیس سٹڈی ہے ‘ کس طرح میڈیا چینلز کو انتہا پسندوں نے ''ہائی جیک‘‘ کیا؟‘ کیسے اپنے تئیں محب وطن صحافی پیدا کیے گئے اور کس طرح مختلف چینلزکو پیٹر یاٹزم کی اسناد تقسیم کی گئیں‘ پھر کس طرح اپنے تراشے ہوئے ان محب وطن صحافیوں کو اہم اور حساس خبریں لیک کرواکر پہلے ان صحافیوں اور ان کے اداروں کو عوام کی نظر میں ''مستند اور باخبر‘‘کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کے ذریعے ان اینکرز اور صحافیوں کے پروگرامز اور چینلز کی ٹی آر پی بڑھوائی گئی ۔غرض یہ کہ پروپیگنڈے کی بنیاد پر ایسا جتھا تیار کرلیا گیا جو بظاہر تو میڈیا ادارے اور صحافی تھے مگر دراصل یہ میڈیا ادارے آر ایس ایس کے دفاتر اور صحافی کارکنان بن چکے تھے۔ جب یہ سب کچھ ہوچکا تو پھر ان مخصوص چینلز کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ایسی ایسی من گھڑت رپورٹس نشر کی گئیں کہ اللہ کی پناہ‘بھارتی میڈیا عالمی سطح پر مذاق بن کر رہ گیا مگر بھارت کے ان ''محب وطن چینلز اور صحافیوں‘‘ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور وہ بدستور بی جے پی کا پروپیگنڈہ ٹُول بنے رہے۔
اس حوالے سے جب سوشل میڈیا کے بھارتی میڈیا اور صحافیوں کے اکائونٹس کی میں نے اپنے تئیں چھان بین کی تو پتا چلا کہ بھارت کے قومی اور علاقائی سطح کے11 چینلز کے 27اینکرز ایسے تھے جو اپنے ماضی کے رجحانات کو یکسر تبدیل کرکے گزشتہ تقریباً پانچ سالوں سے اپنے اداروں سمیت نریندر مودی کے مرض (انتہاپسندی) کا شکار ہوچکے تھے۔ اس کے ساتھ دلچسپ حقائق یہ بھی سامنے آئے کہ مودی دور ِحکومت سے پہلے یہ صحافی اور ان کے ادارے بھارت میں ریٹنگ کے حوالے سے نچلے درجوں پر رہتے تھے مگرمودی حکومت کی حمایت نے ان کی ترقی کروادی تھی۔جب ترقی کے پیمانوں کی جانچ کی تو پتا چلا کہ مودی کے پہلے دورِ حکومت سے ہی یہ ادارے اور صحافی پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف رہے۔ بھارتی عوام میں پاکستان مخالف جذبات بھڑکانے کے بعد انتہا پسند ہندوئوں کے ذریعے غیر ہندو اقلیتوں ‘ خصوصی طور پر مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی گئی ۔ یہ ''محب وطن میڈیا اور اس کے صحافی‘‘ ہندوانتہاپسندوں کی درندگی کو بھی درست قرار دیتے رہے۔غرض یہ کہ مودی حکومت نے میڈیا کے مخصوص اداروں کے ساتھ ملک کر ایک ایسا جال تیار کرلیا تھا جس کے ذریعے حقائق چھپا ئے گئے‘ عوام سے شعور چھین کر ان کی آنکھوں پر انتہاپسندی کی پٹی باندھ دی گئی۔ پاکستان ‘ چین ‘ نیپال اور دیگر پڑوسی ممالک کے خلاف زہر اُگلنا‘ مقبوضہ کشمیر میں روا رکھے جانے والے انسانیت سوز مظالم کو بھارت کا حق اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ قرار دینا‘کسان تحریک جیسی حکومت مخالف تحریکوں کو غداروں اور غیرملکی ایجنٹوں کی تحریک قرار دینا‘ غرض حکومت کے ہر غلط قدم کو ملکی مفاد میں قرار دینے کا کام اسی ''مودی میڈیا گٹھ جوڑ‘‘ سے لیا جارہا تھا۔اس گٹھ جوڑ کا کام صرف اسی حد تک نہیں تھابلکہ بھارت میں اپوزیشن کا کہنا ہے کہ مودی کو انتخابات میں فتح دلوانے میں بھی مودی کے تراشے ہوئے میڈیائی جتھے کا کردار رہا ہے ۔ جعلی سروے رپورٹس‘ مخصوص نکات پر گھنٹوں کی ٹرانسمیشن‘ مودی مخالف امیدواروں کا بائیکاٹ‘ بی جے پی مخالف امیدواروں کے سکینڈلز پر مبنی رپورٹس ‘ غرض ہر وہ طریقہ استعمال کیا گیا جس سے عوام کو یہ باور کرایا جاسکے کہ ان کے پاس آخری آپشن صرف اور صرف نالائق‘ نااہل‘ نکما اور انتہاپسند نریندر مودی ہی ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ نریندر مودی دوسری بار بھی وزیراعظم منتخب ہوگیا اور پھر بھارت اندھیر نگری چوپٹ راج کی عملی تصویر بن گیا۔ اس ساری صورتحال میں جوذلت بھارت کے مقدر میں آئی اور جو لعنت و ملامت ان میڈیا اداروں اور ان کے صحافیوں کو اُٹھانا پڑرہی ہے شاید اس کا ازالہ بھارت اور اس کا میڈیا کبھی بھی نہ کرسکے۔
ارنب گوسوامی سکینڈل یا چیٹ گیٹ‘ دنیا بھر میں موجود میڈیا اداروں اور ان میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے عبرت ہے‘ اس سکینڈل سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس طرز ِصحافت میں سب سے پہلے سچ کی موت ہوتی ہے۔ جیسے ہی عوام میں شعور و آگاہی کا فریضہ انجام دینے والے افراد جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں توتباہی صرف ایک فرد‘ ادارے یا ملک تک محدود نہیں رہتی بلکہ پورا خطہ جنگ کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے ۔ اس کی واضح مثال بھارت کا پلوامہ میں اپنے ہی فوجیوں کو مروانے کا ڈرامہ اور پھر بالاکوٹ میں حملہ تھا جسے'' مودی میڈیا گٹھ جوڑ ‘‘نے بھارت کی فتح قرار دیا تھا۔ پاکستان نے جوابی کارروائی میں دو بھارتی طیارے مار گرائے اور بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کرلیاتھا ۔ پاکستان نے انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے بھارتی پائلٹ کو رہا کرکے خطے پر منڈلانے والے جنگ کے بادل دور کردیے تھے مگر مودی میڈیا اتحاد نے جنگ شروع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اسی نیکسس کی بدولت بھارت کے چین‘ نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ بھی تعلقات نہ صرف خراب ہوئے بلکہ چین کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں بھارت کو خفت اٹھانی پڑی اور نیپال کے ساتھ بھی نوبت سرحدی جھڑپوں تک پہنچ گئی تھی۔ اس ساری صورتحال کے باوجود ایسا بھی نہیں ہے کہ بھارت میں صحافت ختم ہوچکی ہے یا سارے بھارتی صحافی مودی جیسے نفسیاتی مریض کی حمایت کرتے ہیں۔ درج بالا تذکرہ ان صحافیوں کا ہے جو شہرت و پیسے کے حصول کے لیے کٹھ پتلی بننے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور پھر بھانڈا پھوٹنے پر ایسے ہی ''بمعہ اہل و عیال‘‘ رسوا ہورہے ہوتے ہیں۔ بھارتی صحافیوں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو مودی کی جنگی نفسیات کا پردہ فاش کرتی رہی اور حقائق بتانے کے جرم میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہی ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران تین صحافی بھارتی انتہاپسند ہندوئوں کے ہاتھوں قتل ہوچکے جبکہ 63جیل کاٹ رہے ہیں۔
آخر میں بات کرتے ہیں پاکستانی صحافت کی تو ''پاکستانی ارنب گوسوامیوں ‘‘ سے بس اتنا کہنا ہے کہ یہاں عوام بہت باشعور ہیں‘ جھوٹ سچ کی تمیز رکھتے ہیں اور گوسوامیوں کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں۔اس لیے اپنے شعبے کے تقدس کا خیال رکھیں اور قلم کو حق اور سچ کے لیے استعمال کریں ورنہ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی ایسے صحافیوں کی کمی نہیں ہے کہ جو ارنب گوسوامی طرزِ صحافت سے نفرت کرتے ہیں اور اپنا کام کیے جارہے ہیں۔