"FBC" (space) message & send to 7575

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو !

ڈھلکا ہوا سر، ہوا میں لٹکے ہوئے بازو، جھولتے پائوں اور زرد پڑا ہوا چہرہ‘ یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ یہ ایک بے جان جسم تھا جسے وہ لڑکا اٹھائے ہسپتال کی ایمرجنسی کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس نے خاموشی سے وہ لاشہ سٹریچر پر رکھا، ڈاکٹر کو متوجہ کیا اور وہاں سے رفوچکر ہو گیا۔ اس لڑکے کے چہرے پر نظر ڈالتے ہی احساس ہوتا تھا کہ وہ پکڑے جانے کے خوف سے گھبرا رہا ہے۔ اسے اپنے گناہ پر کوئی ندامت یا پشیمانی نہیں ہے۔ یقینی طور پر اس لڑکے نے تعلق کو اس درجہ تک لانے کے لیے باتوں کے جال بُنے ہوں گے، رنگین خواب دکھائے ہوں گے۔ اگر وہ لڑکی زندہ ہوتی تو اسے اندازہ ہوتا کہ اس کے جسم کو وہ ذہنی مریض اس طرح ہسپتال کی ایمرجنسی میں چھوڑ کر بھاگا جیسے کسی شے کو استعمال کرکے پھینکا جاتا ہے۔ اس لڑکے نے لڑکی کے بے جان جسم کو تو اتنی توقیر بھی نہیں دی کہ چند لمحے اس کے پاس کھڑا ہی ہو جاتا۔
یہ تصویر سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج سے حاصل کی گئی تھی جس میں نظر آنے والے لڑکا اسامہ اور اس کے بازئوں میں لاش میں بدل جانے والی لڑکی نجی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم تھے۔ لڑکے کا تعلق لاہور سے ہے جبکہ لڑکی ضلع گجرات سے تعلق رکھتی تھی اور تعلیم کے حصول کے لیے لاہور آئی تھی جہاں وہ ہاسٹل میں رہ رہی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر لڑکے کے لڑکی سے تعلقات تھے اور وہ حاملہ ہو چکی تھی، تحقیقات اس حوالے سے بھی کی جا رہی ہیں کہ لڑکی کے ساتھ تعلقات ایک لڑکے نے قائم کیے تھے یا یہ کوئی گروہ ہے جو لڑکیوں کو بلیک میل کرکے اجتماعی طور پر ان کی آبرو ریزی کرتا ہے۔ جس دن یہ واقعہ پیش آیا اس دن بھی وہ لڑکی اپنے والد سے یونیورسٹی میں فیس جمع کرانے کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے لے کر آئی تھی مگر بعد میں پتا چلا کہ حصولِ علم کے نام پر باپ سے لی گئی رقم دراصل اسقاطِ حمل کے لیے تھی۔ معلوم ہوا کہ لڑکے نے اسقاطِ حمل کے لیے رقم بھی اس لڑکی سے ہی منگوائی تھی۔ وہ جنہیں گھر سے تعلیم کے حصول کے لیے بھیجا گیا تھا‘ ان میں سے ایک تو منوں مٹی تلے چلی گئی اور دوسرا اپنے ''سہولت کاروں‘‘ کے ساتھ سلاخوں کے پیچھے ہے۔ دونوں کے والدین کا حال یقینی طور پر ابتر ہو گا۔ لڑکی کے بزرگ والد کو ٹی وی پر بات چیت کرتے دیکھا، سفید بال‘ کہ جنہیں دیکھ کر غیروں کی نظریں بھی احترام میں جھک جائیں‘ الجھے ہوئے تھے، کمر کا خم بڑھتی عمر کا گواہ تھا جبکہ ناتواں کندھے رسوائی کے بوجھ سے مزید جھک گئے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کی بیٹی تو ان سے فیس کے نام پر رقم لے کر گئی تھی‘ باقی انہیں کچھ نہیں پتا۔ یہ بتاتے ہوئے ان کی آنکھوں میں ''بھروسہ ٹوٹنے کا کرب‘‘ واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔
ذرا تصور کریں کہ اس باپ پر کیا گزری ہو گی جس نے نجانے کس طرح جمع کی گئی رقم اپنی لاڈلی بیٹی کے ہاتھ پر رکھی ہوگی تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرے اور دنیا میں سر اٹھا کر جی سکے۔ ہمارے سخت گیر دیہی ماحول میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے خاصا سخت موقف اپنایا جاتا ہے۔ جانے اس بزرگ باپ نے کس کس سے لڑ کر اپنی بیٹی کی تعلیم مکمل کروانے کے جتن کیے ہوں گے۔ کتنے ہی منہ اس نے یہ کہہ کر بند کیے ہوں گے کہ مجھے اپنی بیٹی پر پورا اعتماد ہے۔ جب وہ اپنی بیٹی کو خود سے دور صرف تعلیم کے لیے شہر سے باہر بھیجتا ہو گا تو کتنے ہی منفی معاشرتی رویوں کا سامنا کرتا ہو گا، صرف اس امید پر کہ جب اس کی بیٹی پڑھ لکھ کر اپنے قدموں پر کھڑی ہو جائے گی تو بس وہ لمحہ ہی اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا جواب ہو گا مگر ایسا نہ ہو سکا اور اب جو ہمارا سماج اس باپ کے ساتھ کرے گا‘ اس کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ یقینی طور پر لڑکے کے والدین کو بھی ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا ہو گا۔
اگر دیکھا جائے تو طلبہ میں بڑھتی بے راہ روی کی بنیادی وجہ دین سے دوری ہے۔ اللہ رب العزت کی جانب سے مقرر کردہ حدود و قیود پر عمل کے ذریعے ایسی برائیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ حدود صرف عورتوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی سخت احکامات ہیں۔ سورۃ النور میں اگر عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اپنی عصمتوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت دکھاتی نہ پھریں، تو اسی سورۃ مبارکہ میں مردوں کے لیے بھی حکم آیا ہے کہ ''مسلمان مردوں سے کہیں کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہی اُن کے لیے پاکیزگی ہے‘‘۔ یہ واضح احکامات نظر انداز کرکے صرف تباہی کو ہی دعوت دی جا سکتی ہے کیونکہ ''جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو‘‘۔
بچوں کی اس بے راہ روی کی وجہ والدین کا ان سے شعوری یا لاشعوری طور پر لاتعلق ہو جانا بھی ہے۔ بچے کیا کر رہے ہیں، ان کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں کیا ہیں، اس حوالے سے والدین کی اکثریت یکسر لاعلم رہتی ہے۔ پھر اداروں میں ماحول کیا ہے اور وہ بچوں کے ذہن پر کیا اثرات مرتب کر رہا ہے‘ اس حوالے سے بھی والدین جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ رویہ صرف باہر تک محدود نہیں بلکہ گھروں کی چار دیواری میں بھی صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے۔ بچے ٹی وی پر کیا دیکھ رہے ہیں‘ اس سے والدین کو کوئی غرض نہیں، بچوں کے موبائل فون کی ہسٹری پر نظر ڈالنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی جاتی کہ ان کی ''پرائیویسی‘‘ میں خلل پڑتا ہے۔ سوشل میڈیا پر‘ ٹی وی ڈراموں میں سسر کو بہو کے ساتھ‘ سالی کو بہنوئی کے ساتھ اور شادی شدہ مرد و عورت کو دفتر میں مخالف جنس کے ساتھ تعلقات قائم کرتے دکھایا جاتا ہے‘ ان ڈراموں کے ذریعے ناجائز تعلقات کا سبق دیا جا رہا ہوتا ہے اور گھروں میں یہ ''سکرپٹ‘‘ والدین اور بہن‘ بھائیوں کے درمیان موضوعِ بحث ہوتے ہیں۔ بزرگ کہتے تھے کہ اولاد کو کھلائو سونے کے چمچ سے اور دیکھو شیرکی نظر سے۔ آج والدین سونے کے چمچ سے کھلا تو رہے ہیں مگران کا تعلق بچوں سے ایسا نہیں کہ وہ ان کے حالات و معاملات سے مکمل طور پر آگاہ رہ سکیں۔ اب تھانے کے بعد کورٹ کچہری‘ وکیل ، فیسیں‘ پیشیاں، کیا کچھ نہیں دیکھنا پڑے گا، جتنی محنت اور تگ و دو اب لڑکے کو رہا کروانے کے لیے کی جائے گی‘ اگر اس کا سوواں حصہ بھی اس کی تربیت پر صرف ہوا ہوتا تو آج شاید کسی کو بھی یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اولاد کی شکم سیری کی فکر میں غلطاں والدین کو تربیت کے ذریعے انہیں سیرچشم بھی بنانا چاہئے ورنہ معاشرے پر بوجھ ایسے افراد کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی۔
آخر میں بہن بیٹیوں کو صرف اتنا کہنا ہے کہ اگر والدین آپ پر زیادہ توجہ دیتے ہیں تو اسے ان کی سختی نہ سمجھیں بلکہ یہ جانیں کہ وہ آپ کو اپنی حرمت سمجھتے ہیں اور کسی کے لیے اس کی حرمت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ مادر پدر آزاد معاشرے کے خواہاں ہر طرف اپنے جال پھیلا کر بیٹھے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں بہنوں بیٹیوں کو بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اپنی طرف کسی کی پیش قدمی کو صرف آپ خود ہی روک سکتی ہیں، ایسا ممکن ہی نہیں کہ آپ کی اجازت کے بغیر کوئی آپ کی طرف دیکھنے کی بھی ہمت کر لے۔ بے حس لڑکے کے ہاتھ میں جھولتا وہ بے جان جسم اپنی ہم جنسوں کو یہ پیغام دے گیا ہے کہ اس دنیا میں سب سے زیادہ قابلِ اعتبار و قابلِ بھروسہ رشتے ماں باپ بہن بھائیوں کے ہیں، اگر باہر کے کسی تعلق کو ان رشتوں پر مقدم سمجھا جائے گا تو پھر انجام میرے جیسا ہو گا۔ وہ لاشہ پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں