لاقانونیت، دندناتے غنڈے، ہراساں عوام، بیان داغتے حکمران، لاغرض انتظامیہ، جعلی ووٹ بھگتاتے اہلکار۔ میرے لیے یہ مناظر نئے نہیں تھے۔ کراچی میں جب لندن والی ایم کیو ایم کا عروج تھا تو ایسے مناظر عام تھے۔ قومی، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات میں شہر قائد کی شاہراہوں کو خون سے رنگین کرنا ہر کسی کی اولین ترجیح ہوتی تھی تاکہ خوف کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے ووٹ چھینا جا سکے۔ لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے جاتے تو انہیں بتایا جاتا تھا کہ گھر واپس جائو تمہارا ووٹ کاسٹ ہو چکا ہے، ایسا بھی ہوتا رہا کہ جس پولنگ بوتھ میں ایک ہزار ووٹ رجسٹرڈ ہوتے تھے وہاں سے دو ہزار ووٹ کاسٹ ہو جاتے تھے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ایک دفعہ جب عوامی دبائو پر رینجرز نے جعلی ووٹ بھگتانے والوں کے خلاف کارروائی کی تو ایک پارٹی کے ایک سیکٹر انچارج سمیت پانچ لڑکے گرفتار ہوئے جن سے ربڑ کے انگوٹھے بھی برآمد کیے گئے جو وہ جعلی ووٹ کاسٹ کرنے کے دوران استعمال کر رہے تھے۔ جس پولنگ سٹیشن پر مخالف امیدوار کے حامیوں کا رش زیادہ ہوتا تھا وہاں فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کرا دی جاتی تھی تاکہ ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال ہی نہ کر سکیں۔ اس سب پر بھی جب تسلی نہ ہو پاتی تھی تو مخالف امیدوار کے مضبوط پولنگ سٹیشن کے بیلٹ باکس چھین لیے جاتے تھے۔ اس کے بعد پولنگ کے اس ڈرامے کا دوسرا حصہ شروع ہوتا تھا۔ دن بھر جاری رہنے والی لاقانونیت کے بعد پارٹی رہنما پریس کانفرنس کرتے تھے اور تمام ذمہ داری مخالفین پر تھوپ دیتے تھے۔ قتل و غارت گری، جعلی ووٹ ڈالنا، مخالفین کے کیمپوں پر حملے، غرض ہر غیرقانونی عمل مخالفین کے گلے ڈال دیا جاتا تھا۔
اب ذرا غور کریں، ڈسکہ میں کیا ہوا۔ پولنگ کا عمل شروع ہوتے ہی مختلف مقامات پر فائرنگ شروع ہو گئی۔ دستیاب وڈیوز کے مطابق امیدواران کی موجودگی میں ان کے حامی فائرنگ کر رہے تھے۔ بغیر نمبر پلیٹ موٹر سائیکلوں پر سوار غنڈوں کے جتھے کھلے عام خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے گھوم رہے تھے۔ جب یہ لاقانونیت جاری تھی اس وقت پولیس اہلکار موقع پر موجود تھے اور بظاہر اپنا فرض ادا کر رہے تھے۔ ایک افسر صاحب تو مبینہ طور پر فرائض کی ادائیگی میں اس قدر جذباتی ہو گئے کہ جعلی ووٹ تک ڈالنے نکل کھڑے ہوئے جنہیں عوام نے پکڑ کر ان کے پیٹی بند بھائیوں کے حوالے کیا۔ ان ساری غیر قانونی کارروائیوں کے نتیجے میں دو نوجوان جان سے چلے گئے۔ کون تھے وہ؟ کس پارٹی سے تعلق تھا؟ اس سے قطع نظر‘ دو قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ حکومت اور قانون کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ پھر جب پولنگ ختم ہوئی اور زخمی ہسپتالوں میں پڑے کراہ رہے تھے، مقتولین کے لواحقین تدفین کے انتظامات کر رہے تھے تب حکومتی اور اپوزیشن شخصیات ٹی وی سکرینوں پر قبضہ جمانے کی تگ و دو میں لگی ہوئی تھیں۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ جاری تھی کہ الیکشن کمیشن کے افسران لاپتا ہو گئے ہیں۔ ان کی بازیابی کے لیے جن حکومتی اور انتظامی عہدیداران کو کارروائی کرنا تھی وہ خود لاپتا ہو گئے اور الیکشن کمیشن صبح تک اپنے افسران کو تلاش کرتا رہا۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ امن و امان قائم رکھنا کس کی ذمہ داری تھی؟ جعلی ووٹ ڈالنے والوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ قانون کی ابتر صورتحال پر متعلقہ اداروں کے ذمہ داران کے خلاف کیا ایکشن ہوا؟ الیکشن کمیشن کے افسران کی گمشدگی کے معاملے پر قانون حرکت میں کیوں نہیں آیا؟ کیوں تاریخ میں پہلی بار الیکشن کمیشن کو حکومت وقت کے ذمہ داران کے خلاف بیان دینا پڑا؟ ان سوالات کا جواب تو شاید ماضی کی طرح اب بھی نہ مل سکے اور سب کچھ دھند میں چھپا ہی رہ جائے؛ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ الیکشن کمیشن کے افسران کی گمشدگی کی ذمہ داری دھند پر ڈال کر تمام مناظر کو دھندلانے کی کوشش کی گئی۔ ایسی انوکھی دھند کہ جس میں الیکشن کمیشن کے افسران کے فون نمبرز بھی بند ہو گئے۔ ایسی دھند کہ جس نے چھانٹ چھانٹ کر اپنی لپیٹ میں الیکشن کمیشن کے صرف ان افسران کو لیا جن کے پاس موجود بیلٹ باکسز میں مبینہ طور پر مخالفین کے ووٹ زیادہ تھے۔ الیکشن کمیشن کے کچھ افسران ایسے بھی تھے جنہوں نے دھند کی لپیٹ میں آنے سے انکار کر دیا تھا، انہی کے بیان پر اب ''دھند‘‘ سے متاثر ہونے والے بیس حلقوں میں دوبارہ انتخابات کی بات ہو رہی ہے۔ امجد اسلام امجد کہتے ہیں ؎
مانا نظر کے سامنے ہے بے شمار دھند
ہے دیکھنا کہ دھند کے اس پار کون ہے
پھر اسی دوران جب مختلف سرکاری شخصیات سے رابطے کر کے ان سے انتخابی نتائج اور اصل صورت حال جاننے کی کوشش کی تو ان کا جواب کچھ یوں تھا ؎
یہ دھند‘ یہ غبار چھٹے تو پتا چلے
سورج کا حال رات کٹے تو پتا چلے
دیکھا جائے تو ملک کے چاروں صوبوں میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات کئی حوالوں سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان انتخابات میں بنیادی طور پر تحریک انصاف کی ابتدائی ڈھائی سالہ مدت کی کارکردگی کو ووٹ پڑنا تھا۔ اب ہوا یہ کہ غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے نہ صرف پنجاب میں اپنی نشست پر کامیابی حاصل کی بلکہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی نشست بھی اس سے چھین لی۔ اس حلقے میں انتخاب سے تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آئے اور پرویز خٹک صاحب کو اپنے ہی بھائی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈسکہ کی قومی اسمبلی کی نشست کے نتائج دھند میں ہونے کی وجہ سے واضح نہیں ہیں جبکہ کرم ایجنسی کی نشست پر آزاد امیدوار کو تحریک انصاف نے شکست دے دی ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے حکومت کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ یہ صورتحال بتاتی ہے کہ عوام خوشنما وعدوں اور دعووں کو مسترد کر چکے ہیں۔ ملک کی دو بڑی جماعتوں کے خلاف حکمرانوں کی جانب سے کرپشن کا واویلا بھی عوام کو متاثر نہیں کر سکا۔ اپوزیشن کے خلاف درجنوں مقدمات کے باوجود اس کے ووٹ بینک میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ویسے تو ضمنی انتخابات میں وسائل اور اختیارات رکھنے کے باعث عمومی طور پر فاتح حکمران جماعت ہی ہوتی ہے اور اپوزیشن دور میں موجودہ وزیراعظم اس بات کا برملا اظہار کرتے رہتے تھے مگر ان سب کے باوجود موجودہ حکومت کی ضمنی انتخابات میں شکست یہ ثابت کرتی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہیں جبکہ حکمران جماعت اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ ایسے موقع کے بارے ہی کہا جاتا ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔ مگر یہاں تو ایسا لگ رہا ہے کہ زبان خلق کو کسی خاطر میں ہی نہیں لایا جا رہا۔ بجائے اس کے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج کو خود احتسابی کی جانب پہلے قدم کے طور پر لیا جاتا‘حکومت کے انمول رتنوں نے اپنے جوہر دکھانا شروع کر دیے ہیں۔ ان کے پاس ہزار حیلے اور لاکھ بہانے موجود ہیں، بس یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ عوام کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ لوگ جو مہنگائی کے بوجھ تلے دبے چیخ رہے ہیں‘ انہیں کوئی امید دینے کے بجائے اپوزیشن سے ٹکرائو کی سیاست کو اوڑھنا بچھونا بنایا جا چکا ہے۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی نہ تو مخالفین پر مقدمات کے قیام سے کم ہو گی اور نہ ہی پریس کانفرنسز میں کیے جانے والے بلند بانگ دعووں سے، یہ عملی اقدامات سے ختم ہو گی۔ جب تک مہنگائی میں کمی نہیں ہو گی‘ ووٹ کی امید رکھنا دیوانے کا خواب ہی ثابت ہو گا۔ ضمنی انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ اب عوام کو وعدوں اور دعووں سے بہلانا ممکن نہیں۔ اس بات کو حکمران طبقات جتنی جلدی سمجھ لیں‘ ان کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔