مخالفین کا کسی نکتے پر اکٹھے ہو جانا اور دوستوں کا اختلافِ رائے کی بنیاد پر تقسیم ہو جانا ہی جمہوریت کا حسن ہے۔ غیر معمولی حالات میں سیاسی اتحاد اسی وقت جنم لیتے ہیں جب مفادات ایک ہوجاتے ہیں۔ ضیاء الحق دور اور مشرف دور میں بحالیٔ جمہوریت کے لیے قائم ہونے والے ایم آر ڈی اور اے آر ڈی جیسے اتحادوں کو کامیاب تصور کیا جاتا ہے جن میں دائیں اور بائیں بازو یکجا نظر آئے حالانکہ اسلامی جمہوری اتحاد اور پیپلز ڈیموکریٹک الائنس میں دونوں بازو باہم نبرد آزما رہے۔ صدر ایوب خان کے خلاف پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ جیسے واضح اہداف رکھنے والے اتحاد کامیاب رہے مگر یوتھ لیگ جیسے اتحاد تاریخ کے کوڑے دان میں ہی جگہ پا سکے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سیاسی اتحاد کی کامیابی زیرک و دور اندیش قیادت اور پارٹی مفادات کے بجائے اجتماعی مفادات کی جدوجہد سے مشروط ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو پی ڈی ایم آج جس صورتِ حال سے دوچار ہے یہ بعید از قیاس نہ تھا۔ اجتماعی کے بجائے پارٹی مفادات کی سیاست کرنے کی وجہ سے ہی بہترین سیاسی دماغوں کی موجودگی میں بھی پی ڈی ایم کوئی بڑا بریک تھرو دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ یہ پختہ کار جب کچھ کرنے کی پوزیشن میں آئے تو آپس کے اختلافات کا شکار ہو گئے، جب بھی قیام کا وقت آیا، یہ ناداں سجدے میں گرے نظر آئے۔
20 ستمبر 2020ء کو اتحاد تو قائم ہو گیا تھا مگر اس میں شامل جماعتیں کبھی بھی ایک دوسرے سے مخلص نہیں رہیں۔ حکومت کو گھر بھیجنے کے نعرے کی آڑ میں پارٹی مفادات کے حصول کا کھیل جاری رہا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اچھی طرح جانتی تھی کہ اگر موجودہ حکومت جاتی ہے اور اس سیٹ اَپ کو لپیٹ کر نئے انتخابات کرائے جاتے ہیں تو بھی اسمبلیوں میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن کم و بیش یہی رہے گی جو اِس وقت ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ حکومت کے سوا‘ کسی صوبے میں کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں سمیٹ سکے گی، البتہ تحریک انصاف کی حکومت گرانے کا فائدہ مسلم لیگ (ن) ضرور اٹھا سکتی ہے جو پنجاب حکومت واپس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی اپنی موجودگی کا بہتر اظہار کر سکتی ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر موقف تو یہی اپنایا کہ موجودہ حکومت کو گھر جانا چاہئے مگر حقیقت میں وہ کبھی حکومت کو گھر بھیجنے کی سنجیدہ کوششوں کا حصہ نہیں بنی۔ جب بھی پی ڈی ایم نے کسی انتہائی اقدام کی جانب جانے کی کوشش کی تو پیپلز پارٹی نے ماحول کو ٹھنڈا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حکومت سازی کے فوراً بعد جب پہلی دفعہ مولانا فضل الرحمن نے استعفوں پر زور دیا تو یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے اسمبلیوں میں جا کر سیاسی لڑائی لڑنے پر قائل کیا۔ بعد ازاں بھی پیپلز پارٹی نے ہی تحریک عدم اعتماد کو ڈھال بنا کر استعفوں کا معاملہ کھٹائی میں ڈال دیا۔ وزیراعظم کے این آر او نہ دینے کے واضح اعلانات کے بعد اب یہ محض اتفاق ہی ہو سکتا ہے کہ جب پہلی بار استعفوں کا معاملہ ٹلا تو اس کے بعد زرداری صاحب کو مختلف مقدمات میں ضمانتیں ملنا شروع ہو گئی تھیں۔
مولانا صاحب ایک زیرک سیاستدان ہیں، جانتے تھے کہ تحریک انصاف کو بڑا دھچکا دینا ہو گا اس لیے انہوں نے گزشتہ سال کے اختتام پر ایک بار پھر سینیٹ انتخابات سے قبل استعفے دینے کا معاملہ اٹھایا۔ اس وقت بھی پیپلز پارٹی نے پوری پی ڈی ایم کو قیادت کے پاس استعفے جمع کرانے کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا۔ اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے اراکین اسمبلی نے اپنے استعفے قیادت کے پاس جمع بھی کرا دیے۔ اسی دوران پی پی پی قیادت نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کا معاملہ سینیٹ انتخابات کے بعد تک کے لیے موخر رکھنے پر اتحادیوں کو قائل کر لیا۔ اس سے پیپلز پارٹی نے کیا حاصل کیا؟
اب جب سینیٹ انتخابات ہو چکے ہیں تو سب نے دیکھ لیا کہ پیپلز پارٹی سینیٹ میں دوسری اکثریتی جماعت بن کر سامنے آنے کے ساتھ ساتھ سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کی صورت میں حکومت کو ایک بڑا دھچکا دے چکی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس دھچکے سے سنبھلنے کے لیے اگرچہ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا؛ تاہم پارٹی ارکان کے ''بکنے‘‘ کی وجہ سے تحریک انصاف جو بیک فٹ پر چلی گئی تھی اور جس طرح اس کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آئے‘ ان سے نمٹنے میں شاید وزیراعظم کو ابھی کافی وقت لگے گا۔ ایسے حالات میں جو جماعت سیاسی منظر نامے میں صرف سندھ تک محدود ہو چکی تھی‘ وہ سینیٹ انتخابات کے بعد ایک بار پھر ملکی سطح کی پارٹی کے طور پر ڈسکس کی جا رہی ہے‘ یہی اس پارٹی کی ایک بڑی کامیابی سمجھی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کی قیادت اینٹی سٹیبلشمنٹ ہونے کا داغ دھونے کے ساتھ ساتھ نظام کو بچانے کی تگ و دو کرنے والی جماعت کا تاثر بنانے میں کسی حد تک کامیاب ہو چکی ہے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) مدتِ ملازمت میں توسیع کے حوالے سے حکومت کی حمایت کرنے کا اپنا آخری دائو کھیلنے کے بعد بھی جب خالی ہاتھ رہی تو وہ جان گئی کہ اس نظام سے اب مزید کچھ حاصل نہیں کر پائے گی۔ مریم نواز صاحبہ کی سوشل میڈیا پر طویل مدتی خود ساختہ زباں بندی بھی کسی کام نہیں آئی۔ سو جب پی ڈی ایم کے قیام کا وقت آیا تو نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے متنازع بیانات سے پارٹی کو بند گلی میں دھکیل دیا۔ اگرچہ اس موقف کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے اندر سے بھی شدید مزاحمت ہوئی مگر نواز شریف اور مریم نواز نے ان آوازوں کو سننے کے بجائے اپنے اس موقف کو پی ڈی ایم پر مسلط کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں ایسی تقاریر کی گئیں جس کے جواب میں پیپلز پارٹی جیسے اتحادیوں کو وضاحت دینا پڑی کہ یہ پی ڈی ایم یا اپوزیشن کا نہیں (ن) لیگ کا ذاتی موقف ہے۔ اسی سخت موقف کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اپنے گڑھ لاہور میں پاور شو کرنے میں بھی ناکام رہی جس کا پی ڈی ایم کو بڑا نقصان یہ ہوا کہ پی ڈی ایم کی تحریک کا ملک بھر میں حکومت مخالف جلسوں کا اہم مرحلہ ضائع ہوگیا۔
اس ناکامی کے بعد مسلم لیگ (ن) کی تمام توقعات لانگ مارچ سے وابستہ ہوگئی تھیں۔ اس ساری صورتِ حال میں مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے سربراہ کے طور پر اگرچہ دونوں جماعتوں کو ساتھ لے کر چلتے رہے؛ تاہم وہ اپنا وزن گاہے گاہے مسلم لیگ (ن) کے پلڑے میں ڈالتے رہے۔ ان کے اسی عمل نے پیپلز پارٹی کو ان سے دور کر دیا۔ سینیٹ انتخابات کے بعد جب لانگ مارچ کا وقت نزدیک آیا تو مسلم لیگ (ن) نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کے معاملے کو لانگ مارچ سے نتھی کر دیا اور مولانا صاحب کو ساتھ ملا کر پی پی پی قیادت کو مجبور کر دیا کہ وہ اس حوالے سے واضح موقف اپنائے۔ پیپلز پارٹی کے پاس جب کوئی بیچ کی راہ نہیں بچی تو اس نے اس تمام عرصے میں سمیٹی کامیابیوں کو (ن) لیگ اور مولانا کی حمایت سے ضائع کرنے کے بجائے تھوڑا سا فاصلہ پیدا کرنے کو بہتر جانا۔
حالات بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کرنے کے بجائے اس سے جڑی رہے گی مگر اپنی کامیابیاں کسی صورت ضائع نہیں ہونے دے گی اور پی ڈی ایم بھی اپنا وقار بچانے کے لیے ''اسی تنخواہ‘‘ پر کام کرتی رہے گی۔ اس ساری صورتِ حال سے جسے سب سے زیادہ فائدہ پہنچا ہے وہ تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اس وقت موجودہ حکومت میدان میں اکیلی موجود ہے‘ نہ تو اسے کسی حقیقی اپوزیشن کا سامنا ہے اور نہ ہی کوئی اور اس کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ اب بھی اگر حکومت عوام کے لیے کچھ نہیں کر پاتی تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ حکومت واقعی نااہلوں کا ٹولہ ہے جو زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ ایسی صورت میں منصوبہ سازوں کورجوع کرنا پڑے گا اور پھر وہی اصل اپوزیشن بن کر سامنے آئیں گے۔