کورونا کی تیسری لہر بڑھتی جا رہی ہے، وزیراعظم پاکستان اور ان کی اہلیہ بھی کورونا وائرس کے متاثرین میں شامل ہو چکے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وزیراعظم صاحب اور خاتونِ اول کو اس مہلک وائرس سے جلد نجات دے اور انہیں صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے، آمین!
بیماروں کی عیادت کرنا اور ان کے لیے شفا کی دعا کرنا میرے نبیﷺ کی سنت ہے۔ مذہبی و سماجی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ یہ عمل اخلاقی ذمہ داری کے ذیل میں بھی آتا ہے۔ مگر ہم کیا کررہے ہیں، یہ دیکھنا ہو تو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا رخ کیجئے۔ اس درجہ طوفان بدتمیزی ہے کہ شیطان بھی پناہ مانگتا ہو گا۔ اخلاقیات کی اس درجہ گراوٹ یکطرفہ نہیں رہی۔ جو کام آج ایک سیاسی جماعت کے مخالفین کر رہے ہیں‘ کل یہی کام دوسری سیاسی جماعت کے مخالفین نے بھی کیا تھا۔ غرض چاروں جانب ایسی چیخ و پکار اور طوفانِ بدتمیزی جاری ہے جو کسی باشعور قوم کی تہذیب کا عکاس نہیں ہو سکتا۔یاد پڑتا ہے کہ جب ملک کے تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف علاج کی غرض سے ملک سے باہر گئے تو ان کی بھی تضحیک کی گئی تھی۔ آج بھی ایسے کلپس موجود ہیں جن میں نواز شریف کے جہاز پر سوار ہونے کو مکاری سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ اللہ کی طرف سے بیماری کی صورت میں آنے والی آزمائش کا سامنا کسی کو کسی وقت بھی کرنا پڑ سکتا ہے مگر نجانے کیوں دلوں سے خوفِ خدا ہی رخصت ہوگیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے سیاسی جماعتوں کے کارکن نہیں بلکہ عقل و شعور اور اخلاقیات سے عاری اجڈ لوگوں کا ایک ریوڑ ہے جسے بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے عدم برداشت کے بڑھتے رجحان نے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ ان کے قائدین کی قوتِ برداشت کے حوالے سے بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اس عدم قوتِ برداشت اور تربیت سے میری توجہ یکدم طلبہ یونینز کی طرف چلی گئی کیونکہ بلدیاتی اداروں کی طرح طلبہ یونینز بھی نئے سیاسی لیڈ پیدا کرنے کی نرسریاں تصور کی جاتی تھیں اور ان دونوں اداروں کی بھٹی سے گزر کر آنے والے سیاستدان قدرے بالغ نظر اور منجھے ہوئے سمجھے جاتے تھے۔
سیاسی کارکنوں کی تیاری اور ان کی تربیت کے حوالے سے جب بھی بات ہوگی تو طلبہ یونینز کا ذکر ضرور آئے گا۔ یہ طلبہ تنظیمیں ہی تھیں جو عملی سیاست میں آنے سے پہلے کارکنوں کی مکمل سیاسی تربیت کرتی تھی۔ جامعات میں یونین کے انتخابات کے ذریعے صدر، نائب صدر، جنرل سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری، گرلز جوائنٹ سیکرٹری کے ساتھ ہر شعبے سے نمائندے منتخب کیے جاتے تھے۔ یہ نمائندگی فیکلٹی کی تعداد پر منحصر ہوتی تھی۔ شعبوں کی سطح پر کونسلز بنتی تھیں جن میں کونسلرز کا انتخاب ہوتا تھا، جتنا بڑا شعبہ ہوتا تھا‘ اتنے ہی کونسلر منتخب ہوتے تھے۔ ان کونسلرز کا ایک سپیکر منتخب ہوتا تھا اور یونین اپنے مسائل سپیکر کو پیش کرتی تھی۔ اس تمام انتخابی عمل کی نگرانی ایک کمیٹی کرتی تھی جو چند دنوں میں انتخابات کا انعقاد یقینی بناتی تھی۔ دلچسپ امر یہ تھا کہ یونین کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کے لیے لازم تھا کہ وہ کبھی فیل نہ ہوا ہو اور چونکہ یہ ملکی سیاست کا میدان نہیں تھا سو یہاں جعلی اسناد کا کوئی تصور نہیں تھا کیونکہ تمام طلبہ تعلیمی اداروں کے سٹوڈنٹس ہوا کرتے تھے۔ یونین کی اتنی اہمیت ہوتی تھی کہ جامعات کے پالیسی ساز ادارے سنڈیکیٹ میں بھی طلبہ یونین کو نمائندگی ملتی تھی۔ یونین کے ان انتخابات میں تمام تنظیمیں حصہ لیتی تھیں، سب کا منشور جاری ہوتا تھا، بیانیہ و جوابی بیانیہ تخلیق کیا جاتا تھا۔ مقابلے کا یہ رجحان سیاسی و فکری تربیت کے ساتھ ساتھ مخالف کے نقطہ نظر کو سننے اور دلائل سے اسے رد کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا تھا۔ تربیت کی اس بھٹی سے گزر کر کندن بننے والے افراد سیاسی میدان کے بہترین کھلاڑی ثابت ہوتے تھے۔ اخلاقی، سیاسی، نظریاتی طور پر مضبوط ہوتے تھے۔ آئین پاکستان کے دفاع کا بیڑہ یہی نظریاتی کارکن اٹھاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی آمر نے شب خون مارنے کی کوشش کی تو اس نے سب سے پہلے تعلیمی اداروں پر حملہ کرکے انھیں مقفل کیا۔
طلبہ یونینز کی موجودگی میں تعلیمی ادارے سیاسی و نظریاتی شعور اجاگر کرنے کے لیے نرسریوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان نرسریوں نے ایسے ایسے بلند قامت سیاسی کردار پیدا کیے جنہیں آج بھی ادب و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی تاریخ کی بڑی تحریکوں کا آغاز بھی انہی نرسریوں سے ہوا جن کی قیادت آج کی نامور شخصیات نے کی تھی۔ 1953ء میں جب طلبہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے اٹھے تو اس کے قائدین میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور ڈاکٹر سرور جیسے لوگ شامل تھے، اس تحریک میں پولیس کی فائرنگ سے 8 طلبہ شہید ہوئے تھے مگر اس کے باوجود بھی تحریک نے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا تھا۔ 1963ء میں جنرل ایوب خان کے دور میں طلبہ تحریک چلی تو اس کے کراچی سے تعلق رکھنے والے بیشتر قائدین کو صوبہ بدر کر دیا گیا۔ ان میں معراج محمد خان، فتح یاب علی خان، امیر حیدر کاظمی، حسین نقی، واحد بشیر سمیت دیگر بڑے نام شامل تھے۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں بھی یہی طلبہ تھے جو صف اول میں نظر آئے۔ مخدوم جاوید ہاشمی، فرحت اللہ بابر، جہانگیر بدر، شیخ رشید، سید منور حسن، لیاقت بلوچ، سعد رفیق، احسن اقبال، شہلا رضا، راحیلہ ٹوانہ سمیت سینکڑوں نام ہیں جو ماضی میں طلبہ یونینز کی زرخیز کھیتی کی پیداوار ہیں۔ جب بھی کسی آمر نے کوئی غیر آئینی قدم اٹھانے کی نیت کی تو اس نے سب سے پہلے تعلیمی اداروں کو تالے لگوائے تاکہ آئین کے پاسبانوں کو حرکت میں آنے سے روکا جا سکے۔ طلبہ یونینز کا خاتمہ بھی ایک آمر کی خوفزدہ سوچ کا عکاس تھا جو باشعور سیاسی کارکنوں سے خائف تھا اور انہیں اپنی غیر آئینی حکومت کے دوام کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔ جب کسی طرح بھی طلبہ کو آمریت کی اطاعت پر مجبور نہ کیا جا سکا تو فروری 1984ء میں طلبہ یونین پر پابندی لگا کر طلبہ کی سیاسی و شعوری نشو ونما کو روک دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ 35 سال میں جو سیاستدان میدان میں آئے یا لائے گئے، ان کی اکثریت ''دولے شاہ کے چوہوں‘‘ جیسی تھی۔
سیاستدانوں کی آخری لڑی‘ جو اس وقت سیاست میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور جنہوں نے کسی درجے میں نظریاتی سیاست کو زندہ رکھا ہوا ہے‘ طلبہ یونین سے ہی جنم لینے والی لڑی ہے۔ اس آخری لڑی کے موتی اب ایک ایک کرکے رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔ جو رہ گئے ہیں‘ وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ طلبہ یونین کے تراشے ان ہیروں کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ان کی جگہ جو کنکر سیاست کے سینے میں پیوست کیے جا رہے ہیں ان کی آمد کا دارومدار ہی بینک بیلنس پر ہے۔ نظریاتی و فکری سیاست سے ان کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ علم و ادب سے بھی ان کا بس اتنا ہی تعلق ہوتا ہے جتنا کسی آمر کا آئین سے۔زبان و بیان اور اسلوب ایسا کہ بیان سے باہر ہے۔
نوٹوں سے بنے پیراشوٹ کے ذریعے اچانک سیاسی منظر نامے پرکودنے والے سیاستدانوں نے سیاسی کارکنوں کی بھی ایسی کھیپ تیار کی ہے جو اخلاقی حوالے سے کسی طرح بھی اپنے بڑوں سے کم نہیں ہیں۔ ایسے میں خیر اور اخلاقیات کی توقع رکھنا عبث ہے۔ ہاں! اگر سیاست میں اخلاقی اقدار کو زندہ کرنا ہے اور زمامِ کار باشعور و نظریاتی افراد کے ہاتھ میں دینی ہے تو طلبہ یونینز سے پابندی اٹھانا ہو گی۔