بھارت نے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی جانب سے اسلاموفوبیا کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کی منظوری پر ہرزہ سرائی کی تو نوم چومسکی یاد آگئے ‘ انہوں نے امریکی تارکینِ وطن کی تنظیموں کے ایک پروگرام میں بھارت کا اصل چہرہ دنیا کو دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ ''مغرب میں جنم لینے والے اسلاموفوبیا نے اس وقت ہندوستان میں مہلک ترین شکل اختیار کرلی ہے ۔ مودی نے بھارت میں موجود اقلیتوں کو انتہاپسند ہندوئوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ ملک اب انتہاپسندوں کا گڑھ بن چکا ہے‘‘۔ بھارت کا ہذیان بکنا کسی کام نہ آیا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسلامو فوبیا کے خلاف قرارداد منظور کرتے ہوئے 15مارچ کو اسلامو فوبیا کے تدارک کے لیے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ اگرچہ عالمی برادری نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا ادراک کرنے اور اس کے تدارک کے لیے اقدامات اٹھانے میں تقریبا ًاڑھائی دہائیاں لگادیں پھر بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ دیر آید درست آید۔
عالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور ان پر مسلط کی گئی جنگوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ان جنگوں کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ مسلمانوں کے خلاف مختلف ادوار میں نئی نئی اصطلاحات متعارف کرائی جاتی رہی ہیں۔کچھ ایسا ہی نائن الیون کے بعد بھی ہوا جب امریکہ کو اپنی تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔اس واقعے کے بعد مغربی میڈیا حرکت میں آیا اور مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کام کا آغاز کردیا گیا۔ مسلمانوں کو'' وحشی‘‘ اور'' دہشت گرد‘‘ کے طور پر متعارف کرایا جانے لگا‘ مسلمانوں کی مقدس شخصیات کی توہین کی جانے لگی‘ اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جانے لگا ۔ یہ سب صرف اس لیے کیا جارہا تھا تاکہ دنیا کو یہ بتایا جاسکے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور اسلام امن و سلامتی کا مذہب نہیں ہے۔ مغربی میڈیا جب دنیا میں مسلمانوں کے خلاف ایک بھیانک ماحول بنا چکا تھا اس کے نتیجے میں جو اذہان پیدا ہوئے انہیں اسلامو فوبیا کا شکار قرار دے دیا گیااورمسلمانوں کے خلاف خوف‘ نفرت اور تعصب پر مبنی سوچ اور طرزِ عمل کو ''اسلامو فوبیا‘‘ کہہ کر پکارا جانے لگا۔
اس وقت میں مغربی سازشی ذہنوں نے بڑا سوچ سمجھ کر دو الفاظ پر مشتمل اس اصطلاح کا استعمال شروع کیا ۔ اسلام کا مطلب امن و سلامتی ہے تو دوسرا لفظ فوبیا ہے جس کا مطلب خوف و اندیشہ ہے۔ فوبیا بنیادی طور پر ایک ایسے مریض کو کہتے ہیں جو کسی چیز سے خوفزدہ ہوتا ہے ۔ اس طرح اسلامو فوبیا سے مراد'' اسلام سے خوفزدہ ‘‘لی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر خصوصی طور پر سیکولر ممالک میں اسلاموفوبیا کی لہر شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی۔ اس آگ کو روکنے کے بجائے اس پرتیل ڈالا جاتا رہا۔ انفرادی اور اداروں کی سطح پرمسلمانوں کی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کی جاتی رہی ‘توہین آمیز خاکے بنائے جاتے رہے‘ جان بوجھ کر مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کیا جاتا رہا۔ جب مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کیا جاتا تو توہین آمیز خاکے بنائے جانے کے قبیح فعل کو آزادیٔ اظہارِرائے کی چھتری فراہم کی جاتی۔ توہین آمیز خاکوں کے مقابلے کرائے جاتے اور ایسے مکروہ مقابلوں کا حصہ بننے والوں کو انعام دیا جاتا۔ مسلمانوں کے خلاف کتابیں لکھی جانے لگی‘ فلمیں بنائی گئیں جن میں یہ بتایا گیا کہ دنیا میں ہونے والی ہر برائی کے ذمہ دار مسلمان ہیں۔ہالی وڈ اس حوالے سے خصوصی طور پر سرگرم رہا اور مسلمان اس کا ہدف رہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے جیک شاہین کی کتاب ''ہالی ووڈ لوگوں کو کیسے بدنام کرتا ہے‘‘ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جس میں مصنف نے لکھا ہے کہ معصوم لوگوں کو بدنام کرنے کا اثر براہ راست عام لوگوں پر پڑتا ہے جس کے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ رہا کہ مسلمانوں پر باقاعدہ حملے ہونے لگے جو دن بدن بڑھتے چلے گئے۔ بھارت ‘ فرانس ‘ جرمنی سمیت کئی ممالک میں عوامی سطح کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر بھی اقدامات اٹھائے جانے لگے۔ کبھی سرکاری سطح پر مسلم خواتین کو حجاب سے روک دیا جاتا تو کبھی باریش افراد کو سرکاری ملازمتوں سے فارغ کردیا جاتا۔ کبھی سویڈن سمیت دیگر یورپی ممالک میں قرآن پاک کے نسخے شہید کیے جانے کی اطلاعات آتیں تو کبھی امریکی فوجیوں کی جانب سے مقدس اوراق کی توہین پر مبنی تصاویر سامنے آجاتیں۔ صورتحال اس درجہ بگڑی کہ انفرادی طور پر مسلم خاندان نشانہ بننے لگے۔ کبھی کینیڈا جیسے ملک میں مسلم خاندان کو گاڑی تلے کچل دینے کی خبر آتی تو کبھی سکارف پہنے ننھی طالبات کو روندنے کی اطلاع ملی۔ کبھی نیوزی لینڈ کی مسجد میں فائرنگ کرکے 60نمازیوں کو شہید کردیا جاتا تو کبھی مساجد میں غلاظت پھینک دی جاتی۔ ان واقعات بتدریج میں خوفناک حد تک اضافہ ہوتا چلا گیا۔
اسلاموفوبیا کے نتیجہ میں دنیا کے وہ خطے جہاں مسلمانوں پر اجتماعی حیثیت میں ظلم و تشدد جاری تھا وہاں بھی ان کی حمایت میں آوازیں اٹھنا بند ہوگئیں۔ کشمیر ‘ فلسطین سمیت دیگر حصوں میں مسلم قتلِ عام معمول بن گیا تو روہنگیا جیسے نئے مقتل بھی بننا شروع ہوگئے۔ ایسے میں بھارت اور اسرائیل کو جیسے کھلی چھوٹ مل گئی۔ اسرائیل کی جانب سے نہ صرف فلسطینیوں پر مظالم بے پناہ بڑھ گئے بلکہ اسرائیلی فوج میں ایسے افسران کو پروموٹ کیا جانے لگا جو کسی بھی حوالے سے مسلمانوں پر مظالم میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ ان افسران کو نوازنے کے ساتھ ساتھ انہیں عالمی سطح پر نمایاں بھی کیا جاتا تاکہ دیگر ممالک بھی مسلم مخالف ان سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ اسی طرح بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں تو آگ اور خون کی ہولی کھیلی ہی جارہی تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ بھارت میں مسلم کش پالیسی پر بھی عمل شروع کردیا گیا۔انفرادی و اجتماعی طور پر ہندتوا کے پرچارک غنڈوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ بھارت سے اس قدر دلدوز ویڈیوز منظر عام پر آئیں کہ دنیا دہل کر رہ گئی۔
اس ساری صورتحال پر ابتدا میں تو مسلم ممالک پر خاموشی طاری رہی مگر پھرباقاعدہ طور پر اسلامو فوبیا کے مضر اثرات اور ان کے سدباب کے لیے شعور و آگاہی کے لیے اقدامات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر کانفرنسز کا انعقاد کیا گیا‘ غیرمسلموں تک مسلمانوں کی آواز پہنچائی گئی۔ موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں خصوصی طور پر اقدامات کیے ۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کو ناقابلِ برداشت قرار دیا ۔ چارلی ایبڈو کی جانب سے توہین آمیز خاکوں کی دوسری بار اشاعت اور دنیا بھر میں مسلمانوں پر حملوں ‘ مسلمانوں کے مقدس مقامات پر حملوں اور توہین کی سخت الفاظ میں مذمت کی ۔وزیراعظم عمران خان نے عالمی برادری سے کہا کہ اسلامو فوبیا کے خلاف اقدامات کیے جائیں اور اسے غیر قانونی قرار دیا جائے۔ اس کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے اسلامو فوبیا کے خلاف عالم دن منانے کا اعلان کیا جائے۔ وزیراعظم کی جانب سے اسلامو فوبیا کے خلاف شروع کی گئی اس تحریک کو مسلم ممالک میں نہ صرف پذیرائی ملی بلکہ اسلامی ممالک کی تنظیم بھی اس کی ہمنوا ہوگئی ۔ وزیراعظم نے فیس بک کے سی ای او مارک زکر برگ کو بھی خط لکھا کہ فیس بک پر پیغمبر اسلام ﷺکی گستاخی پر مبنی مواد ختم کیا جائے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ 193ممالک پاکستان کی اس قرارداد کے ساتھ ہوگئے اور اسلاموفوبیا کو عالمی طور پر خطرہ تسلیم کرلیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد منظور کرلی گئی اور 15مارچ کو انسداد اسلاموفوبیا کا دن قرار دے دیا گیا۔ اس دن کے انتخاب کی وجہ اسی روز نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ پر حملے کی یاد تازہ کرنا بھی تھی جس میں 60 مسلمانوں‘ نمازیوں کو شہید کردیا گیا تھا۔اس قرارداد کی منظور ی کا مرحلہ تو طے ہوگیا مگر اب اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا اقوام متحدہ کا اصل امتحان ہوگا ۔ عالمی برادری کو اس حوالے سے خصوصی طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ اس کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جاسکے۔