"WAC" (space) message & send to 7575

پانچ دن کی حکومت

پانچ دن کی مہمان حکومت اور پارلیمنٹ کی پھرتیوں سے لگنے لگا ہے کہ کوئی الہ دین کا چراغ ان کے ہاتھ لگ گیا ہے جو دنوں میں عوام کی پانچ سال کی محرومیوں کو دور کر دیں گے۔ یہ تھوڑی سی مہلت حکمرانوں کا قرار لوٹ رہی ہے۔ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے چلنے والی کروڑوں کی تشہیری مہم سے بھی لگنے لگا ہے کہ یہی تو اصل خادم تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بیسویں آئینی ترمیم کے مطابق حکومت نگرانوں کے حوالے کر دی جاتی۔ ہماری سیاست اکیسویں صدی میں پہنچنے کے باوجود قرون اولیٰ کی ڈگر پر ہی چل رہی ہے۔ ملک کے سیاسی منظرنامے سے واضح ہو چکا کہ اب انتخاب ٹالنے کا عمل ممکن نہیں ہے پھر بھی ہمارے حکمرانوں پر غیر سنجیدگی کا غلبہ بدستور طاری ہے۔ آنے والے انتخابات غالباً مئی 2013ء کے پہلے ہفتے میں ہوں گے۔ تب شدید گرمی ہوگی۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی حکومت نے اتنے شدید گرم موسم کا انتخاب نہیں کیا۔ اب تک نو عام انتخابات ہوئے۔ جو عموماً ستمبر سے مارچ کے مہینوں میں ہی ہوتے رہے۔ غضب کی گرمی میں لوگ جل رہے ہوں گے‘ اس حالت میں خواتین اور بوڑھے پولنگ سٹیشن کا کیسے رُخ کریں گے۔ آزاد الیکشن کمیشن نے ٹرن آؤٹ بڑھانے کے لیے جو کوششیں کی ہیں وہ موسم کی سختیوں کے سامنے ناکام ہو جائیں گی۔ حکومت چاہتی تو اپنے اقتدار کی ایک ڈیڑھ ماہ کی قربانی دے کر رائے دہندگان کو آسانی فراہم کر سکتی تھی۔ لیکن حکمران نہ جانے کس خوش فہمی کے تحت آخری دن تک اقتدار میں رہنے کا عزم کیے ہوئے تھے غالباً وہ اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ ہو سکتا ہے کہ آخری ہفتوں میں توانائی کے بحران کا عارضی حل نکل آئے۔ یا ’’بہاولپور جنوبی پنجاب‘‘ صوبہ بنانے کی کوئی شکل نکل آئے کہ اس طرح جنوبی پنجاب کا بہت بڑا ووٹ بینک مل سکتا ہے۔ البتہ حکومت نے پارلیمنٹ کی مدت ختم ہونے سے پہلے سینٹ سے ’’بہاولپور جنوبی پنجاب‘‘ کے نام سے 104 کے ایوان سے 70 ووٹوں سے نیا صوبہ بنانے کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرا لیا ہے۔ دلچسپ صورت یہ ہے جو سینٹ کے چیئرمین نیئر بخاری کے حوالے سے رپورٹ ہوئی ہے کہ آئین کا آرٹیکل 78(3) واضح طور پر بتاتا ہے کہ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد اسمبلی تحلیل ہو جائے گی اور تمام قانونی کارروائی جو اسمبلی سے پاس ہو چکی ہو گی اور سینٹ سے منظور نہ ہوئی ہو خود بخود ختم ہو جائے گی اور یہی اصول سینٹ کے حوالے ہے۔ موجودہ اسمبلی کے تحلیل ہونے میں 5 دن رہ گئے ہیں۔ اگر قومی اسمبلی میں یہ بل دو تہائی اکثریت سے پاس نہ ہو سکا تو اگلی قومی اسمبلی نئے سرے سے اس پر کارروائی کرے گی۔ زیادہ سے زیادہ حکومت یہ کر سکتی ہے کہ ’’بہاولپور جنوبی پنجاب‘‘ کے ایشو کو انتخابی کارڈ کے طور پر استعمال کرلے۔ اس سے کیا حاصل ہوگا۔ اس کا پتہ تو پولنگ ڈے پر ہی چلے گا۔ بہاولپور کے عوام کو بھی حکومت کا صوبہ قبول نہیں۔ اس سارے منظرنامے میں جنوبی پنجاب کے اہم سیاسی خاندانوں کی ہمدردیاں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جڑرہی ہیں۔ حکومت کی سیاسی حکمت عملی کے برعکس ملک کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے چند ماہ میں اپنی انتخابی حکمت عملی کے لیے جو اہداف مقرر کیے تھے‘ اسے اس سے زیادہ کامیابی ملی ہے۔ چاروں صوبوں سے سیاسی خاندانوں اور جیتنے والے امیدواروں کی بہت بڑی تعداد مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ٹکٹوں کی تقسیم کا (غیر اعلانیہ) کام بھی تقریباً مکمل کر لیا۔ حکمت عملی سے مختلف دھڑوں اور گروپوں کو بھی مطمئن کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے انتخابی منشور جاری کردیا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں انتخابی منشور کی اہمیت محض الفاظ تک ہی محدود رہتی ہے۔ حکومت میں آنے والی جماعت سب سے پہلے اسی کو بھولتی ہے لیکن مسلم لیگ کا موجودہ منشور روایت سے ہٹ کر محسوس ہوتا ہے۔ منشور میں ’’ مضبوط معیشت، مضبوط پاکستان‘ ہم بدلیں گے پاکستان‘‘ کا سلوگن دیا گیا ہے جس میں امن و امان، گڈ گورننس، جدید انفراسٹرکچر، منصفانہ احتساب، مقامی حکومتوں، صوبائی خودمختاری، توانائی بحران کا خصوصی ذکر کیا گیا۔ میاں صاحب نے معیشت کے بحران کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے دیا۔ اس کے علاوہ تعلیم، صحت، خواتین، عدلیہ، انتظامیہ کے حوالے سے ’’ضابطہ پاکستانیت‘‘ جاری کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں حکومتی اتحاد کی انتخابی تیاریاں بھی مکمل ہو چکی ہیں اور ایسا لگنے لگا ہے کہ حکومتی اتحاد کے پاس تُرپ کا کوئی پتہ ضرور ہے جو صرف پانچ دن کی حکومت رہ جانے کے باوجود مطمئن ہے۔ اُسے نگران حکومت بنانے کی بھی جلدی نہیں۔ وزیراعظم نے آئینی ضرورت کا تقاضا پورا کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر چودھری نثار کو خط لکھ کر نگران حکومت کے لیے نام مانگ لیے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر نے مشاورت کے بعد وزیراعظم کو خط لکھنے کی بجائے پریس کانفرنس کے ذریعے تین نام دے دیئے۔ مخدوم امین فہیم کا یہ کہنا معنی خیز ہے کہ ریٹائرڈ ججوں کے علاوہ بھی کوئی غیر جانبدار ہو سکتا ہے جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت کی طرف سے آنے والے نام اپوزیشن کے لیے کتنے قابل قبول ہوں گے۔ اگر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان اتفاق نہ ہوا تو یہ معاملہ سپیکر کی قائم کمیٹی میں بھی حل نہیں ہو سکے گا اور فخرو بھائی اپنی پسند کا ایسا امیدوار لے کر آئیں گے جو شفاف انتخاب میں ان کی مدد کرسکے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے امیدوار کی اہلیت کے لیے جو فارم تیار کرکے منظوری کے لیے وزارت قانون کو بھجوائے گئے اُن پر وزیر قانون نے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے کیونکہ کمیشن آئین کی دفعہ 63,62 کا استعمال ہر صورت میں چاہے گا۔ مختلف بینکوں سے قرضہ لے کر معاف کرانے والے‘ جعلی ڈگری ہولڈرز، سزا یافتہ، پلی بار گینگ کرنے والے‘ الیکشن کمیشن کی مجوزہ ترامیم کی زد میں آتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن بھی جعلی ڈگری رکھنے والے ارکان کو بے نقاب کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ یہ دلچسپ امر بھی سامنے آیا ہے وزیراعظم نے چیف جسٹس سے تحریری استدعا کی ہے کہ رینٹل پاور کیس کی تحقیقات شعیب سڈل کی سربراہی میں قائم کمیشن سے کرائی جائے۔ وزیراعظم کو یاد ہو گا کہ اُن کے خلاف یہ مقدمہ غالباً تین سالوں سے چل رہا ہے۔ جس دن وزیراعظم‘ چیف جسٹس کو خط لکھ رہے تھے عین انہی لمحوں میں سینٹ کے فلو رپر وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر عاصم یہ اعلان کر رہے تھے ’’5 سالوں میں 90 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی۔‘‘ پرامن اور شفاف انتخاب کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو غیر سنجیدگی کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔ حکمران اتفاق رائے پیدا کرکے اقتدار نگرانوں کے حوالے کر دیں اور خود عوام کی عدالت میں پیش ہو جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں