آج ہم سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کی طرف دیکھیں تو کسی پارٹی کے پاس کارکنوں کی نظریاتی تربیت کے لیے کوئی متحرک فورم دکھائی نہیں دیتا۔ پارٹیاں شخصیات اور مفادات کے گرد گھومتی اور زیادہ سے زیادہ نشستوں کے حصول کے لیے جوڑ توڑ کے عمل میں مصروف دکھاتی دیتی ہیں۔ کسی پارٹی سے وفاداری کا عہد باندھنے والا یہ وعدہ نہیں کرتا کہ وہ پارٹی کے اصول، ضابطے، نظریات اور دستور کا پابند رہے گا بلکہ وہ پہلے سے یہ طے کرتا ہے کہ پارٹی میں آنے کے بعد اُسے کیا ملے گا۔ اُن کو اور اُن کے رشتہ داروں کو کتنی نشستیں دستیاب ہوں گی۔ سیاسی جماعتوں، اس کے کارکنوں اور لیڈروں کی اس سوچ سے جس المیے نے جنم لیا ہے اس سے سیاسی جماعتوں کے نظریات کو واضح شکست دکھائی دے رہی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ نظریاتی شکست کا یہ احساس کسی جگہ نظر بھی نہیں آتا۔ کسی سے اتحاد یا حکومت بناتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اتحاد یا ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں نظریاتی حوالے سے پارٹی کا وقار کتنا بڑھے گا بلکہ یہ اصول غالب رہتا ہے کہ نمبروں کے حوالے سے پارٹی کتنا آگے جا سکتی ہے۔ حال ہی میں فارغ ہونے والی حکومتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ انہوں نے اتفاق رائے، مفاہمت اور برداشت سے پانچ سال پورے کیے۔ یقینا یہ ان کی کامیابی ہے لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ ملک کی گلیوں، محلّوں، قصبوں اور شہروں میں اتفاقِ رائے کی حکومتیں غربت اُگلتی چلی گئیں۔ امن و امان کی طرف دیکھیں تو جرائم کی شرح میں 18 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ عوام کی اقتصادی اور سماجی حالت بدترین سطح پر آ گئی۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 186 ممالک کی فہرست میں پاکستان 146 ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ تعلیم اور صحت میں اس کا نمبر کانگو سے بھی کم ہے۔ صحت پر کانگو نے جی ڈی پی کا 1.2 فیصد خرچ کیا جبکہ پاکستان نے 0.8 فیصد۔ تعلیم جیسا شعبہ حکومت کی ترجیح نہیں رہا۔ کانگو نے جی ڈی پی کا تعلیم پر 6.2 فیصد جبکہ پاکستان نے 1.8 فیصدخرچ کیا۔ پاکستان کی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستان پر 100 خاندانوں کی حکومت ہے۔ رپورٹ کا یہ حصہ کچھ درست نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاست میں سو نہیں بلکہ تین سو سے زائد ایسے سیاسی خاندان ہیں جن کی خاندانی سیاست کی جڑیں 50 سال سے زائد عرصے پر پھیلی نظر آتی ہیں۔ ان خاندانوں کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہمیشہ نہیں ہوتا بلکہ یہ فیصلہ انتخابی میدان سجنے کے بعد ہی کرتے ہیں۔ تحریک انصاف سے ایڈجسٹمنٹ کرنے والے بہاولپور کے شہزادہ صلاح الدین عباسی 1988ء میں اپنے حقیقی چچا سابق رکن قومی اسمبلی کو شکست دے کر کامیاب ہوئے۔ مسلم لیگ سے وابستہ ہوئے۔ عدم اعتماد کی تحریک میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ دکھائی دیئے۔ 1990ء میں آئی جے آئی کے ٹکٹ پر چچازاد بھائی عثمان عباسی کو شکست دی۔ 93ء اور 97ء میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ سے کامیاب ہوئے۔ 2002ء میں گریجوایٹ نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے۔ مارچ 2013ء میں پہلے چودھری شجاعت حسین سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی۔ تحریک انصاف کے جلسے سے متاثر ہو کر مسلم لیگ (ق) سے ایڈجسٹمنٹ ختم کرکے تحریک انصاف سے ہاتھ ملا لیا۔ سردار آصف احمد علی کو تحریکِ انصاف کا ٹکٹ نہیں ملا۔ عمران خان کے جھوٹ بولنے سے انہیں گلہ ہے کہ ’’ڈیڑھ سال سے مجھے دھوکے میں رکھا۔ جو امیدوار کے ساتھ جھوٹ بولے وہ عوام سے کیا سچ بولے گا۔‘‘ وہ بھریا میلہ اور قومی اسمبلی کی نشست جس کے ختم ہونے میں ابھی ڈیڑھ سال باقی تھا، چھوڑ کر تحریک انصاف سے وابستہ ہوئے تھے۔ ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ سے پارلیمانی سیاست میں اہم نام کمانے والے سردار صاحب بھی سیاسی جماعتوں سے ایسا ہی سلوک کرتے رہے۔ ضیاء الحق سے عمران خان تک اُن کا سفر قابلِ رشک نہیں۔ یہ صورتحال اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے نظریاتی تربیت کا عمل ترک ہی نہیں کیا بلکہ اپنے بنیادی نظریات کو بھی بھلا دیا ہے۔ 1970ء کے پہلے انتخابات تھے جہاں ہمیں سیاسی جماعتوں کا فکری گراف بلند نظر آتا ہے۔ کسی نظریاتی کارکن کی وفاداری تبدیل کرنے پر صف ماتم بچھ جایا کرتی تھی، آج دہائیوں کی وابستگی ختم ہو رہی ہے اور کسی کو پروا نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کی وجہ یہ نہیں کہ اُس نے تبدیلی کا نعرہ نچلی سطح پر اپنی نظریاتی ٹیم کی تربیت سے لگایا ہے بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے مقبولیت حاصل کی ہے۔ پھر بااثر سیاستدانوں کو بڑے بڑے جلسوں سے متاثر کیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جب پیپلزپارٹی کے شاہ محمود قریشی اور مسلم لیگ (ن) کے جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف میں شامل کیا گیا تو ان کیلئے مرکزی عہدے پہلے سے تیار تھے۔ ماروی میمن سے عمران خان نے جو عہدہ دینے کا وعدہ کیا وہ پورا نہ کیا تو وہ الٹے پاؤں واپس پلٹ گئیں۔ آگے چل کر ہجوم کو فکری، تنظیمی اور نظریاتی سانچے میں ڈھالنا تحریکِ انصاف کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی بھٹو کے فلسفے اور نعروں کی گونج سے پھوٹی تھی۔ بھٹو کی پارٹی سے جُڑنے والے لاکھوں لوگ آج تک پیچھے نہیں ہٹے۔ پیپلزپارٹی ہر صورت میں 2013ء کا انتخابی کھیل جیتنا چاہتی ہے۔ اس وجہ سے اختلاف کی لہریں پارٹی کے اندر نظر آتی ہیں۔ ایسی ہی صورتحال سے اے این پی دوچار ہے۔ جماعت اسلامی سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں کبھی ایم ایم اے بحال، کبھی تحریک انصاف اور کبھی مسلم لیگ ن کے پیچھے بھاگتی نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا بحران بھی دوسری جماعتوں سے مختلف نہیں ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے ووٹ کی حکمرانی کی جو امید دلائی ہے‘ اسے کامیاب بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں کو اپناکردار بدلنے کی ضرورت ہے۔ کارکنوں اور لیڈروں کی تربیت بہت ضروری ہے۔ آئین پاکستان کی دفعہ 62 اہلیت اور 63 نااہلیت کا فارمولا بھی ان پر لاگو کریں۔ یہ عمل انتخاب تک نہیں ہر موسم میں جاری رہنا چاہیے۔