انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے نام پر پنجاب میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکم سے انتظامی مشینری کے تبادلوں کا جو ہلاّ بولا گیا اس پر شدید اعتراض اٹھنا شروع ہوئے۔ آخر ایسا پنجاب میں ہی کیوں ؟چیف سیکرٹری سے کلرکوں تک اور آئی جی سے تھانوں کے محرروں تک تبدیل ہو گئے۔ تحصیل دار اور پٹواری بھی نہ بچے۔ سابق حکمران جماعت کو یہ اعتراض شدت سے ہوا کہ نچلی سطح کے سرکاری ملازموں کے تبادلے بھی ایسے کیے گئے جیسے وہ مسلم لیگ کے کارکن ہوں۔ یہ تاثر اس لیے عام ہوا کہ ایسے تبادلوں کا مطالبہ پیپلزپارٹی اور اُن کی اتحادی جماعت نے چند دن پہلے ہی کیا تھا۔ وسیع پیمانے پر تبادلوں سے اندازہ ہونے لگا کہ کھلاڑیوں نے کہیں اپنا کھیل (انتخاب) تو تبدیل نہیں کر لیا۔ شفاف انتخاب کے لیے دوسرے صوبوں میں اسی انداز سے تبادلوں کا عمل شروع نہ ہونا جانبداری کے تاثر کو ہوا دینے لگا تو الیکشن کمیشن حرکت میں آیا اور پھر سندھ میں بھی تبادلے ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) کو اعتراض ہے کہ وفاقی حکومت میں ابھی تک سابق حکومت کے وفادار اپنی پوزیشنیں سنبھالے بیٹھے ہیں۔ یہ درست ہے کہ الیکشن کی شفافیت پر حملہ بیورو کریٹ اور پولیس افسر ہی کرتے رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی اکھاڑ پچھاڑ کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اب ہر طرح کے دھاندلی کے سوراخ بند ہو جائیں گے۔ اس کا آغاز نئی ووٹر لسٹوں سے پہلے ہی سامنے آچکا ہے جس میں بوگس ووٹوں کی بہت بڑی تعداد جو ہزاروں اور لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں تھی، خارج ہو چکی ہے۔ کچھ سیاسی جماعتیں ناراض ہیں کہ اُن کی پسند کے افسر تبدیل ہو رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین کے ذریعے انتخابی عمل کو غیر شفاف بنانے کا آغاز مغربی پاکستان کے گورنر مرحوم نواب امیر محمد آف کالا باغ کے دور سے شروع ہوا تھا۔ اگر اُن کی ذاتی زندگی کے گوشوں کو دیکھا جائے تو ان کا نظم و نسق اور ایمانداری تو کمال کی تھی لیکن سیاست میں یہ اوصاف باقی نہ رہ پاتے۔ جب اُن کی سیاست محض میانوالی تک محدود تھی تو وہ ’’کالا باغ اسٹیٹ‘‘ کو طاقت کا مرکز دیکھنا چاہتے تھے‘ اس لیے انہیں اپنے علاقے میں آنے والے ڈپٹی کمشنروں، کمشنروں اور پولیس کے اعلیٰ افسروں کے ساتھ بنا کر رکھنا پڑتی تھی۔ سکندر مرزا سے بھی ان کا تعارف ان کی میانوالی میں تعیناتی کے زمانے سے ہوا تھا۔ سکندر مرزا کی وساطت سے ایوب خان تک رسائی ہوئی تو وہ گورنر کے عہدے تک جا پہنچے۔ اس سے پہلے انتظامیہ کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفوں کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ گورنر بننے کے باوجود سیاست میں روایتی جاگیردارانہ کردار کے حامی تھے۔ انہوں نے اپنی گورنری کے دور میں مغربی پنجاب میں نچلی سطح کے ملازموں تک راہ و رسم بڑھا رکھی تھی۔ انہیں گاہے بگاہے سیاسی دھڑوں کی سیاست سے آگاہی کے لیے خط لکھتے رہتے تھے۔ جس علاقے کے بارے میں انہیں دلچسپی ہوتی، رپورٹ منگواتے وقت اپنی ذاتی رہائش کا حوالہ دیتے اور اس رپورٹ کو وہ خود کھولتے۔ ایوب خان کے سیاسی مخالفوں نے جب زور پکڑنا شروع کیا اور ان کے خلاف صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں تبدیلی کے نعرے لگنے شروع ہوئے‘ بنیادی جمہورتیوں کے ارکان سرکاری بندھنوں سے آزاد ہو کر مادرِ ملت کی طرف جانے لگے تو اُس وقت بھی نواب آف کالاباغ کے مشورے پر ڈپٹی کمشنروں اور ضلعی پولیس افسروں کو شکنجے میں کس کر اپنی مرضی کا انتخابی نتیجہ حاصل کیا گیا۔ 1965ء کے قومی انتخاب میں اس عمل کو دہرایا گیا۔ میاں افتخار الدین جن کا شمار انگریز کے زمانے سے چیفس آف پنجاب میں نمایاں تھا اُن کی نواب آف کالا باغ سے پرانی دوستی تھی۔ ان کی اچانک موت کے بعد اُن کے بیٹے میاں عارف افتخار سیاسی وارث تھے۔ 1965ء میں قومی نشست پر وہ سرکاری امیدوار چوہدری محمد حسین کے مقابلے میں امیدوار تھے۔ میاں افتخار الدین کی بیوہ نے گورنر امیر محمد خان سے ملاقات کی اور اپنے بیٹے کے لیے مدد طلب کی۔ چنانچہ ان کا بیٹا انتخابات میں کامیاب ٹھہرا حالانکہ چوہدری محمد حسین اُس وقت لاہور کارپوریشن کے وائس چیئرمین اور صدر پاکستان کے ’’لاہوری یار‘‘ شمار ہوتے تھے۔ ایسا ہی پیغام بلخ شیر مزاری تک پہنچا تو نواب آف کالا باغ کے رشتہ دار محمود لغاری بلامقابلہ کامیاب ہو گئے۔ صوبے کے اعلیٰ انتظامی افسروں کے ذریعے ایسی مثالیں ایک نظیر کا درجہ پاتی رہیں۔ نواب آف کالا باغ کے انتظامی طریقہ کار پر اعتراض کرنے والے حکومت میں بھی شامل تھے۔ اعلیٰ بیورو کریسی سے وہ کافی فاصلے پر رہتے جس کی وجہ سے نواب صاحب کو ایک فائدہ یہ ہوتا کہ مرکزی بیورو کریسی کو صوبے میں مداخلت کا موقع نہ ملتا۔ یہ تو ساٹھ کی دہائی کا قصہ ہے‘ پچاس برسوں کے سفر میں انتظامیہ نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ اس میں بھی شک کی گنجائش کم ہی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے سیاسی نظام کو نظریاتی اور فکری طور پر مضبوط نہیں کیا۔ حکمران سیاسی جماعتیں اقتدار سے نکلنے کے بعد کمزور اس لیے ہو جاتی ہیں کہ اقتدار کے دوران اُس کے نظریاتی اور فکری فورم غیر متحرک ہو جاتے ہیں اور سارا بوجھ اس کے وزیروں اور مشیروں پر پڑ جاتا ہے۔ مسائل کی تشخیص کا عمل خودبخود وزیروں، مشیروں کے ساتھ کام کرنے والے سرکاری افسروں کو منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر ہم الیکشن کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ اور نگران حکومتوں کے طرز عمل کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے شفاف انتخابات کا عمل اب رکنے والا نہیں۔ پاکستان کی سیاست ہی نہیں بلکہ سماج میں بھی وسیع پیمانے پر تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ کون قرضہ کھانے والا ہے، یوٹیلیٹی بل ادا نہیں کرتا‘ ٹیکس نہیں دیتا اوراس طرح کے درجنوں سوالات انتخابی عمل میں پہلی بار اٹھے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان بھی پہلے سے زیادہ فعال ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی توہین عدالت میں نااہل ہو چکے‘ راجہ پرویز اشرف اختیارات کے ناجائز استعمال پر اب تک نااہل ہیں اور رینٹل پاور کیس کا فیصلہ آ جانے کے باوجود چیف جسٹس کو وزیراعظم کی حیثیت سے براہ راست خط لکھنے پر توہین عدالت کا سامنا کررہے ہیں۔ چیئرمین نیب بھی توہین عدالت کی کارروائی سے گزر رہے ہیں۔ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک بھی ایسی ہی کارروائی کا سامنا کرنے والے ہیں۔ کرپشن کی کہانیاں قطار اندر قطار آ رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کی بدولت سیکرٹ فنڈز کے حوالے سے بہت سے انکشاف ہوئے ہیں۔ سی این جی سٹیشن کے لائسنس جاری کرنے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔ ملکی تاریخ کے بڑے کرنسی ایکسچینج سکینڈل سے بھی پردہ اٹھا ہے۔ سپریم کورٹ کے چند پرانے فیصلے عملدرآمد کے منتظر ہیں۔ اس سارے منظرنامے سے اب یہ سوال اُبھرنے لگا ہے کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں۔ پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ پھر لگنے لگا ہے۔ موجودہ انتخابی عمل پر ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جن کا خیال ہے کہ انتخابات نہیں ہوں گے۔ اس کا اشارا سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے ایک انگریزی روزنامہ میں اپنے انٹرویو میں دیا ہے۔ انہوں نے اپنا نام نگران وزیراعظم کی دوڑ سے خارج ہونے کی وجوہات کے حوالے سے بتایا تھا کہ کچھ اعلیٰ حکومتی شخصیات انہیں نگران وزیراعظم بنائے جانے کی اس لیے مخالف تھیں کہ نگران حکومت کا عرصہ دراز ہونے کی صورت میں وہ ان کے ساتھ آسانی محسوس نہ کرتیں۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے، ان کی طرف سے بھی مطالبہ دبے لفظوں میں آیا ہے۔ اس کے باوجود 11 مئی 2013ء کا انتخابی عمل ٹلنے والا نہیں کیونکہ التوا کے عمل کے اہم فریق شفاف اور بروقت انتخاب کے لیے تیار ہیں۔ فوج سیاسی عمل میں کسی قسم کا حصہ دار بننے کے لیے تیار نہیں۔ سپریم کورٹ ایسے اقدامات کو بار بار رد کر چکی ہے۔ عوام کا فیصلہ آنے دیں۔ ایسے دوچار انتخابات قوم کو درست سمت دکھا دیں گے۔ اب صرف 11 مئی ہی فیصلے کا دن ہے۔