"WAC" (space) message & send to 7575

طرزِ حکمرانی کا مقابلہ

عوام نے حالیہ انتخاب میں عقل و دانش کا زبردست مظاہرہ کیا ہے۔ تاریخ ساز انتخابات میں عوام کا فیصلہ بھی اتناہی تاریخی ہے اور یہ یقین مزید پختہ ہو گیا ہے کہ جو لوگ حکمرانی کے نشے میں عوام کو نظر انداز کریں گے عوام اُن کو اُس سے بڑی طاقت یعنی ’’ووٹ کی پرچی‘‘ سے رد کردیں گے۔ حکمرانوں کو مسترد ہونے کے بعد بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ عوام میں مقبول نہیں ہیں۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف بار بار کہتے تھے کہ ’’اگر انہیں یقین ہو گیا کہ وہ عوام میں مقبول نہیںہیں تو اقتدار چھوڑ دیں گے۔‘‘ اس سے بڑا فیصلہ کیاہوگا کہ چاروں صوبوں اور مرکز میں اُن کا بنایا ہوا سیٹ اپ بری طرح ناکام ہو گیا۔ عوام کی بڑی اکثریت نے ان کے سیاسی اور معاشی نظام کو مسترد کر دیا۔ سابق حکمران جماعت بھی مشرف کی طرح مقبولیت کے وہم کے دائرے سے باہر نہیں نکل رہی۔ الزام کبھی بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ پراور کبھی ریٹرننگ افسروں پرعائد کیا جاتا ہے، کوئی آگے بڑھ کر یہ نہیں کہتا کہ ہاں ہم ناکام ہوئے ہیں۔ آج پاکستان پرامن ممالک میں 149 ویں نمبر پر ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60 فیصد پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے افراد یومیہ دو ڈالر ہی کما پاتے ہیں۔ کرپشن کی کہانیاں پورے پانچ سال دل دہلاتی رہیں۔ گڈ گورننس ناپید تھی، قومی خزانے کو گدھیں نوچتی رہیں۔ سابق حکمرانوں نے ہارنے کے بعد دھاندلی کا شور مچایا۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے بھی دھاندلی کے اس جوش میں اپنی شکست کا جواز تلاش کرنے لگے۔ مسلم لیگ (ق) کو انتخابات میں تاریخی شکست ہوئی۔ پرویز مشرف کی طاقت سے ابھرنے والی یہ جماعت اپنے سرپرست کے کمزور ہوتے ہی گوشۂ گمنامی میں جانے پر مجبور ہوئی۔ 25 مئی 2013ء کو چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں شکست کے اسباب کا جائزہ لینے کیلئے جو اجلاس ہوا اس میں ہر شکست خوردہ لیڈر کہتا رہا کہ انہیں سرکاری اداروں نے ہرایا ہے۔ سابق وزیر قانون ایس ایم ظفرنے سب کو سمجھایا‘ ہمیں مان لینا چاہیے کہ ہم ناکام ہو چکے ہیں۔ انتخابات میں کسی جگہ خرابی نہیں تھی‘ خراب ہماری پالیسیاں تھیں۔ ہم نے پیپلزپارٹی سے اتحاد کیا‘ اب اس جماعت سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ اسی طرح کے جذبات کا اظہار پیپلزپارٹی کے لیڈروں کی طرف سے بھی مسلم لیگ (ق) کے بارے میں ہوا۔ پوری دنیا انتخابات کو شفاف قرار دے رہی ہے۔ یورپی یونین کے چیف آبزرور مشن مسٹر مائیکل گیلر نے یورپی یونین کی امور خارجہ کمیٹی میں چند دن پہلے جو رپورٹ پیش کی ہے اس میںپاکستانی قوم کوزبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ رپورٹ اعتراف کرتی ہے کہ ’’پاکستان اب جمہوریت کی پٹری پر گامزن ہو چکا ہے اور یہ انتخابات ایسے وقت میں ہوئے جب دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا تھا۔‘‘ دوسرے اہم ممالک سے بھی ایسی سند آ جانے کے بعد اب کچھ سیاسی قوتوں نے دھاندلی کا الزام عدالتوں پر لگانا شروع کر دیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پانچ سال تک سپریم کورٹ حکومت کے غیر آئینی اقدامات اور کرپشن سے روکتی رہی۔ اگر سپریم کورٹ سابق حکمرانوں کو نہ روکتی تو پاکستان کے قومی اداروں کا کیا حشر ہوتا‘ عوام کی کیا حالت ہوتی؟ جمہوریت کے نام پر ایسی قانونی اور پارلیمانی آمریت سوار کر دی جاتی کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ ماضی کا بار بار ذکر کرنے سے کیا حاصل‘ صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ جن لوگوں نے عوام کی یہ حالت کی ہے اُنہیںاپنے کیے کی سزا ملنی چاہیے۔ میاں نواز شریف 14 سال کے بعد ایوان زیریں میں قدم رکھ چکے ہیں۔ انہوں نے زبردست استقبال اور تالیوں کی گونج میں حلف اٹھایا۔ حلف اٹھانے سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں انہوں نے اپنے ان ارادوں کا خوب اظہار کیا کہ ان کی پارٹی کو عہدوں کا لالچ نہیںبلکہ وہ قوم میں اتفاق رائے کے ذریعے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ میاں صاحب نے معیشت کو ایک بار پھر مضبوط بنانے کا عزم کیا۔ میاں صاحب نہ صرف پاکستان بلکہ وہ بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بھی بن رہے ہیں۔ امریکی جریدے نیوز ویک نے گزشتہ شمارے میں میاں نواز شریف کے بدلتے انداز سیاست پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ میاں نواز شریف نہ صرف اپنے منشور بلکہ عمران خان کی طرف سے عوام سے کیے گئے تمام وعدے پورے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے معیشت اور انرجی بحران کا روڈ میپ دے دیا ہے۔ کابینہ کے چھوٹے سائز اور بڑے محلوں میں نہ رہنے کے اعلان سے لگتا ہے کہ وہ پاور پالیٹکس کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ ایک تباہ حال پاکستان سے نئے پاکستان کی بنیادیں اٹھانے والے ہیں جس کے خدوخال انہوں نے قوم کو بتا دیے ہیں۔ میاں صاحب ان تمام باتوں کے باوجود چارپانچ افراد کی کچن کیبنٹ ضرور رکھتے ہیں۔ اس مرتبہ اسحاق ڈار جو سینٹ کے رکن ہیں، اہم عہدے پر فائز ہو رہے ہیں۔ چودھری نثار جو میاں صاحب کے ہر دور کے قریبی دوست اور ساتھی رہے، انہیں میاں صاحب نے مرکز میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُن کی پسندیدہ وزارت پانی و بجلی رہی ہے لیکن اس مرتبہ وزارت داخلہ کی دیوی ان کی منڈیر پر بیٹھی دکھائی دیتی ہے۔ میاں شہباز شریف 1985ء سے ہی میاں نواز شریف کی طاقت کا اصل مرکز رہے ہیں۔ بلوچستان میں قوم پرستوں سے معاملات طے کرنے ہوں، ارباب رحیم سے ملنا ہو، پیر پگاڑا سے سیاسی امور پر فیصلے کرنے ہوں، مولانا فضل الرحمن کو مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں شامل کرنا ہو، ان تمام معاملات میں میاں شہباز شریف پیش پیش رہے ہیں۔ میاں نوازشریف خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال کی مشاورت سے بھی خوب فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن میاں صاحب اس بار پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں۔ اب نیا پاکستان، نیا جمہوری کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ عالمی سطح پر دوستوں کی نئی جہتیں مرتب ہو رہی ہیں۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان ایک مقابلہ ہونے لگا ہے… کارکردگی کا، اچھی حکمرانی کا، خوشحال پاکستان اور حقیقی جمہوریت کا… جو اس میں کامیاب ہوگا وہی 2018ء کا فاتح ٹھہرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں