"WAC" (space) message & send to 7575

آئین کی بالادستی

سر ونسٹن چرچل کا قول ہے کہ ’’کسی شخص پر تاریخ کے فیصلے کا انحصار اس کی فتح و شکست پر نہیں اس کے نتائج پر ہوتا ہے۔‘‘ یہ قول ہماری سیاست پر بھی کافی حد تک صادق آتا ہے۔ پرویز مشرف جیسے طاقتور حکمران کو 9 سالہ اقتدار اور ساڑھے چار سالہ جلاوطنی کے بعد آئین کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ وہ اس وقت قید میں ہیں۔ اپنے اوپر الزامات کا جواب دے رہے ہیں۔ آنے والا وقت اور حالات ان کی مخالف سمت پر چلتے نظر آ رہے ہیں اور مقدمات کی فہرست بھی دراز ہو رہی ہے۔ آئین توڑنے کا مقدمہ ہی نہیں بلکہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں بھی وہ بڑے ملزم کی حیثیت سے قانونی مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ان کے دور کے سیکرٹری دفاع سید کمال شاہ اور ترجمان بریگیڈیئر (ر) جاوید اقبال کے حوالے سے جو خبریں چھن چھن کر آ رہی ہیں‘ ان سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ مقدمہ بھی مشرف کے خلاف سنگین بن سکتا ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کا منحوس دن تھا جب پرویز مشرف نے پہلی مرتبہ آئین کو پامال کیا تو اُن کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کرنے والوں میں اپوزیشن پر مشتمل ’’عوامی اتحاد‘‘ موجود تھا جو میاں نواز شریف کے اقتدار کے آخری تین مہینوں سے نواز شریف ہٹاؤ مہم شروع کر چکا تھا۔ 38 دن تک میاں نواز شریف کو جو 1997ء میں دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے، تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں رکھا۔ پھر عدالتوں پر شب خون مارا گیا۔ پی سی او کے ذریعے ایسے ججوں کو فارغ کر دیا گیا جو آئین پاکستان کے تحفظ کی قسم کھائے بیٹھے تھے۔ اُس وقت کے چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کر دیا۔ انہیں اُس وقت تک گھروں سے نہ نکلنے دیا جب تک پی سی او ججز نے حلف نہ اٹھا لیا۔ میاں نواز شریف کو ہٹانے اور جلاوطن کرنے کے بعد ریفرنڈم تماشا بھی کیا خوب تھا۔ پاکستان کے روایتی تین سو سیاسی خاندان اور ایک سو سے زائد ضلع ناظم بھی ریفرنڈم کو کامیاب بنانے کیلئے سرگرم دکھائی دیئے۔ پھر بھی سنسنان اور ویران پولنگ سٹیشنوں سے تاریخ ساز نتائج برآمد ہوئے۔ سرکاری نگرانی میں وننگ امیدواروں کو جمع کرکے مسلم لیگ (ق) کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کی کامیابی کی راہ ہموار نہ ہوئی تو پیپلزپارٹی کے سینئر رہنماؤں فیصل صالح حیات اور راؤ سکندر کی قیادت میں بغاوت کرائی گئی۔ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے تین سال مانگنے کے باوجود وہ اپنے وعدے پورا نہ کر سکے۔ نیب زدہ، کرپشن کی زد میں دھنسے ہوئے اور بار بار پارٹیاں تبدیل کرنے والے عہد مشرف میں معتبر ٹھہرے۔ ایم ایم اے سمیت پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت نے مشرف کے اقدامات کو آئینی قرار دے دیا۔ ہمارے سیاستدان چھوٹی چھوٹی باتوں پر طیش میں آ جاتے ہیں۔ جب میاں نواز شریف پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر مشرف کے خلاف آئین سے بغاوت کا مقدمہ چلانے کا اعلان کر رہے تھے تو وہ کسی انتقامی کارروائی کا اعلان نہیں کر رہے تھے بلکہ 31 جولائی 2009ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی تائید کر رہے تھے جس کی رو سے پرویز مشرف نے آئین کو معطل کرکے ایمرجنسی لگائی تھی۔ شیخ رشید صاحب کا فرمانا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی مدت اب چھ ماہ رہ گئی ہے۔ شیخ رشید محاذ آرائی کی سیاست سے اُبھرے‘ مخالفین کے بارے میں عامیانہ جملوں سے شہرت پائی‘ پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ نے مطالبہ کیا کہ ڈکٹیٹروں کی تصاویر تمام سرکاری اداروں سے ہٹائی جائیں۔ اس وقت پاکستان پر گیارہ سال تک فوجی حکومت کرنے والے ضیاء الحق کے بیٹے اعجاز الحق بھی موجود تھے۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پہلا سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر قرار دیا تو پیپلزپارٹی کے ایم این اے خوب چمکے۔ اس میں شک بھی نہیں تھا۔ بھٹو ایوب خان کی مارشل لاء حکومت میں وزیر رہے۔ سرکاری سرپرستی میں قائم کنونشن لیگ کے سیکرٹری رہے۔ امین فہیم کا کہنا ہے کہ فوجی آمروں کے خلاف کارروائی 1954ء سے کی جائے۔ مولانا فضل الرحمن نے غداری کے مقدمے کے نتائج سے آگاہ رہنے کا بھی مشورہ دیا‘ لیکن وہ آئین توڑنے والوں کے خلاف کارروائی کے بھی حمایتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر میاں صاحب کو کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ کیا غضب ڈھا رہے ہیں‘ کیوں اتنے محاذ کھولے جا رہے ہیں؟ وہ لوگ اس تاثر کو عام کر رہے ہیں کہ سول اور فوج کے درمیان محاذ آرائی کا خدشہ ہے۔ میاں صاحب نے مشرف کے ٹرائل کا مطالبہ کرکے اعلیٰ اخلاقی معیار کا مظاہرہ کیاجس کی ملک کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔ میاں نواز شریف کا عدلیہ اور عدالتی فیصلوں کے بارے میں دوٹوک موقف رہا ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں ججوں کی بحالی کے ایشو سے ہی کامیابی ملی۔ ججوں کی بحالی کیلئے انہوں نے ایک نہیں دو لانگ مارچ کیے۔ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی سے پہلے ہی میاں صاحب نے اپنے وزیر قانون زاہد حامد کی وزارت اپنے پاس رکھ کر انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کا وزیر بنا دیا۔ زاہد حامد 2002ء سے مسلم لیگ (ق) سے وابستہ رہے اور ایمرجنسی کے نفاذ کے وقت وزیر قانون تھے۔ اشفاق پرویز کیانی اور عسکری قیادت کے مثبت سگنل سے حکومت نے پیش قدمی کی۔ گھمبیر سیاسی صورتحال کے بارے میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے‘ عمران خان نے اُن سے مکمل اتفاق بھی کیا ہے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سیاست میں دوستی اور دشمنی نہیں ہوتی بلکہ کپتان نے ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے اُن خدشات سے بھی اتفاق کیا جو انہوں نے مینار پاکستان اور لانگ مارچ کے وقت ظاہر کیے تھے۔ جہاں تک طاہر القادری کے خیالات کا تعلق ہے وہ ایک ایجنڈا اور خاص نکتہ نظر لے کر پاکستان آئے تھے۔ وہ کچھ لوگوں کی خواہشوں کی تکمیل چاہتے تھے تاکہ پاکستان کی اقتصادی، سیاسی اور سماجی ابتری کے پیچھے چھپ کر ایک طویل المدتی حکومت کے خاکے کو بڑھاوا دیا جائے جس کے بارے میں خیال ہے کہ مارچ 2013ء تک حقیقی رنگ بھرے جانے تھے۔ آئین پاکستان کو متحرک دیکھ کر ان لوگوں کی دال نہ گل سکی ۔ سول سوسائٹی اور میڈیا کی زبردست مزاحمت سے یہ عناصر پسپا ہوئے۔ امید افزاء بات یہ تھی کہ پاکستان ایٹمی قوت تھا۔ تمام تر خرابیوں کے باوجود یہ ’’بنانا ری پبلکن‘‘ نہیں تھا۔ یہ اصطلاح لاطینی امریکہ کی اُن ریاستوں کیلئے استعمال کی جاتی ہے جہاں پر ڈکٹیٹروں اور فوجی آمر طویل عرصہ سے قانون کی عملداری کا مذاق اڑا رہے تھے۔ جہاں امریکہ اور کینیڈا کے بڑے بڑے ڈرگ ڈیلر مافیا اور جرائم پیشہ لوگ پناہ لیتے اور جرائم کی ایمپائر کو چلاتے تھے۔ میاں نواز شریف 5 جون کو وزیراعظم بنے۔ اُن کی تقریر میں اُن خرابیوں کو دور کرنے کا عزم تھا۔ انہوں نے جہاں ڈرون حملوں کے خلاف سٹینڈ لیا، وہاں کرپٹ لوگوں کا محاسبہ کرنے کی بات بھی کی۔ انصاف اور قانون کی حکمرانی کا تذکرہ بھی کیا۔ معاشی بدحالی کو درست ٹریک پر چلنے کی امید دلائی۔ بہرحال مسلم لیگ (ن) اگر پیپلزپارٹی کے انجام سے بچنا چاہتی ہے اُسے اب وہی کرنا ہوگا جو قانون اور قاعدے میں لکھا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں