"WAC" (space) message & send to 7575

سیاست میں سب جائز ہے

پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر ایک دہائی تک برسر اقتدار رہنے والے پرویز مشرف اسلام آباد میں اپنے فارم ہاؤس میں ایک کے بعد ایک شروع ہونے والے مقدمات کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ مشرف کے بارے میں یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ وہ اپنی یادداشتوں پر مشتمل ایک اور کتاب لکھ چکے ہیں۔ جب وہ صدر پاکستان تھے اُس وقت بھی ’’دی لائن آف فائر‘‘ لکھی تھی جس میں کچھ سچ تھا، کچھ مبالغہ۔ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کی وجہ بننے والے جو حقائق بتائے وہ بھی سچ سے دور تھے۔ اب مشرف صاحب کو اپنی آپ بیتی میں سچ لکھنے کا جو موقع میسر آیا ہے امید ہے وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ اپنی کتاب ’’دی لائن آف فائر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ق) کی تشکیل ان کے ایماء پر ہوئی تھی۔ نوازشریف کی جلاوطنی کے بعد انہوں نے سوچا کہ اس ملک میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو ان دو جماعتوں (پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ) کا مقابلہ کر سکے اور اس موقع پر ان کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز نے چودھری شجاعت کی جنرل مشرف سے ملاقات کا اہتمام کیا جس کے بعد یہ جماعت وجود میں آئی۔ یہ سب مناظر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں جب مسلم لیگ (ن) کے بڑے بڑے لیڈروں کے حوصلے پست کیے گئے۔ انہیں نفسیاتی طور پر اتنا مجبور کر دیا گیا کہ وہ وفاداریاں تبدیل کرکے مسلم لیگ (ق) کا حصہ بن گئے۔ کئی ریاستی اداروں نے بھی مسلم لیگ (ن) کو تہہ و بالا کرنے میں بھرپور حصہ لیا اور ڈرانے دھمکانے کے عملی مظاہروں سے بھی دریغ نہ کیا۔ ایسے ایسے لوگ وفاداریاں بدل گئے جو کہا کرتے تھے کہ نواز شریف سے بے وفائی کی لگائی جانے والی اس قیمت میں تو وہ ان کی تصویر بھی نہیں دے سکتے۔ جہاں تک چودھری شجاعت کے سیاسی عروج کا تعلق ہے تو وہ پرویز مشرف کے فوجی انقلاب سے ہی وزارت عظمیٰ تک پہنچے۔ 12 اکتوبر 99ء کے فوجی انقلاب کے بعد مسلم لیگ (ن) کو تقسیم کرنے اور توڑنے لیے کے جو دھڑے کام کر رہے تھے وہ اُس وقت تک کامیاب نہ ہوئے جب تک چودھری برادران کھل کر میدان میں نہیں آئے۔ چنانچہ وہ دھڑے انہی کی بدولت سیاسی خاندانوں کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہوئے۔ مسلم لیگ (ق) میں شامل ہونے والے فیوڈلز اور اقتدار کے بھوکے سیاستدان حقیقت میں اس خاص کلچر کے نمائندے تھے‘ جن کا پہلا نعرہ حکومت میں رہنا ہوتا ہے۔ حکومت بدل جائے تو ان سے گلہ بے معنی ہے۔ چودھری برادران وردی والے صدر کی طاقت کو سمجھتے تھے۔ ان کے مشورے سے ہی مشرف نے وردی اتارنے کا وعدہ بھی نظر انداز کر دیا جو سترہویں ترمیم منظور کرواتے وقت متحدہ مجلس عمل سے کیا تھا۔ ظفر اللہ جمالی کی وزارت عظمیٰ کی ناکامی کا تاثر ابھارنے میں بھی مسلم لیگ کا طاقتور گروپ سرگرم تھا۔ جمالی کو ہٹائے جانے کے بعد قرعہ فال شوکت عزیز کے نام نکلا کیونکہ وہ قومی اسمبلی کے رکن نہیں تھے۔ ’’حلالہ‘‘ وزیراعظم کے لیے ہمایوں اختر کا نام سامنے آیا تو راستہ روکنے والوں میں کوئی اور نہیں مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت تھی۔ مشرف نے شوکت عزیز کو معاشی دیدہ ور کی حیثیت سے تلاش کیا۔ وہ مشیر کی حیثیت سے مشرف عہد میں داخل ہوئے۔ پھر وزیر خزانہ بنے۔ شوکت عزیز کے آنے سے یہ تاثر عام ہوا کہ خزانہ بھر گیا ہے، خوشحالی عام ہو گئی ہے۔ وہ فیض احمد فیض کی بادِ نو بہار کی طرح ایسے چلے کہ پرویز مشرف نے وزارت عظمیٰ کا کاروبار ان کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا۔ شوکت عزیز کا پورے پاکستان میں کوئی حلقہ نہیں تھا۔ شجاعت حسین نے اپنی بھانجی ایمان وسیم سے اور ارباب غلام رحیم نے اپنے بھتیجے ارباب ذکاء سے قومی اسمبلی کی نشستیں شوکت عزیز کے لیے خالی کرادیں۔ دونوں پر شوکت عزیز نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ شوکت عزیز چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر جلوہ افروز ہوئے۔ اُن کا انتخاب مشرف نے اس لیے کیا تھا کہ وہ سیاستدان نہیں ہیں اور ان کو دھوکہ نہیں دیں گے۔ اپوزیشن نے جب متحد ہو کر اگست 2006ء میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو اُس کو ناکام بنانے کی حکمت عملی خود مشرف نے تیار کی۔ مارچ 2007ء سے حالات جب مشرف کی مخالف سمت چلنے لگے اور ان کے اقتدار کی مدت تمام ہوئی، خاموشی سے بیگ اٹھایا، گارڈ آف آنر لیا اور ملک سے ایسے نکلے کہ پلٹ کر نہ آئے جبکہ چودھری برادران ڈٹے رہے۔ انہوں نے تو پرویز مشرف کو وردی میں صدارتی انتخاب لڑنے کا مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ اُن کی کامیابی کے راستے بھی ہموار کیے۔ متحدہ مجلس عمل اور مسلم لیگ (ن) مستعفی ہوئی تو پیپلزپارٹی جو پرویز مشرف سے این آر او لے چکی تھی، غیر جانبدار رہی۔ تین صوبوں میں مشرف بھاری اکثریت سے صدارتی انتخاب جیت گئے۔ محمد علی درانی کو سیلف میڈ سیاستدان کی حیثیت سے وزارت اطلاعات کا قلمدان سونپا۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ سے پاسبان پھر ملت پارٹی سے ہوتے ہوئے مسلم لیگ (ق) میں آئے تھے۔ وہ مشرف کے مخالفین کا خوب حساب کتاب کرکے وفاداروں کی فہرست میں شامل رہے۔ میاں خورشید محمود قصوری بھی مشرف کی مہربانیوں سے وزارت خارجہ جیسی اہم وزارت پر فائز ہوئے۔ پھر مسلم لیگ ہم خیال سے ہوتے ہوئے عمران خان کے پاس جا پہنچے۔ پرویز مشرف کو امریکہ سے بھی گلہ کرنا چاہیے تھا کہ انہوں نے جمہوری طریقے سے پہلی بار اُن کے صدر بن جانے کے ایک سال کے اندر ہی اقتدار چھوڑنے کی حمایت کر دی۔ مشرف کے اقدامات سے پاکستان جس مشکل سے دوچار ہوا تھا، دس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود مشکلات کم نہ ہو سکیں۔ مشرف ستمبر 2006ء میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے گئے تو انہوں نے ایک ٹی وی شو میں تسلیم کیا کہ رچرڈ آرمٹیج نے کہا کہ پتھر کے دور میں واپس جانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اس انکشاف پر سب سے دلچسپ تبصرہ صدر بش کا تھا جنہوں نے ایسی دھمکی سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس سے بھی حیرت انگیز بیان جناب آرمٹیج کا تھا جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس قسم کی کوئی بات نہیں کی تھی۔ مشرف امریکہ کے ڈو مور کے مطالبے کو مانتے چلے گئے اور مشرف کے رخصت ہونے کا لمحہ آن پہنچا۔ نپولین کے ’’واٹرلو‘‘ کی طرح مشرف کے لیے بھی 18 اگست 2008ء کا دن آن کھڑا ہوا جس میں مشرف کے لیے پسپائی‘ شرمندگی‘ شکست اور جلاوطنی تھی۔ رخصتی کا عالم بڑا دل دہلا دینے والا ہوتا ہے۔ اگر 120 اضلاع کے ناظمین اور صدارتی انتخاب میں ان کو 671 ووٹ دینے والے اراکین اسمبلی مشرف کے حق میں ڈٹ جاتے تو مشرف کا یوں جلاوطن ہونا مشکل ہوتا۔ جو لوگ عوام پر جبر کرکے رخصت ہوتے ہیں وہ تاریخ میں ایسے ہی مثال بنے رہتے ہیں اور جو لوگ دلوں میں زندہ رہتے ہیں اُن کی رخصتی کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں