"WAC" (space) message & send to 7575

پیپلزپارٹی نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیوں کیا؟

اقتدار کا کھیل اعداد و شمار سے ہی جڑا ہوا ہے۔ یہ جمہوریت کا حسن بھی ہے اور انتقام بھی۔ اس کھیل میں عوام نفرت سے کسی کو اقتدار تک لے جاتے ہیں اور کسی کو عبرت بنا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ 11 مئی 2013 ء کو پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہی ہوا، جو خلق خدا کو مسترد کرکے اپنے کھیل میں اتنی مصروف رہی کہ اب نیب، ایف آئی اے اور عدالتیں اس کا حساب کتاب لگا رہی ہیں۔ صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران جس انداز سے مہم جوئی کی گئی وہ بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے۔ محض صدارتی انتخاب کی تاریخ تبدیل کرنے سے پیپلزپارٹی اس قدر خفا ہوئی کہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن پر چڑھ دوڑی کہ انہیں شکست دینے کیلئے یہ تاریخ تبدیل کی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس اس وقت الیکٹورل ووٹ 119 ہیں۔ ان کے اتحادیوں کو بھی ملا لیا جائے تو یہ تعداد دو سو سے آگے کسی صورت نہیں جا سکتی تھی۔ اس لیے سینیٹر رضا ربانی کیلئے صدارت کی منزل تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ انتخاب کی تاریخ کے ردوبدل پر پیپلزپارٹی کا صدارتی دوڑ سے احتجاجاً واک آؤٹ کر جانا درست فیصلہ نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو شکست دینے کیلئے پیپلزپارٹی نے جو بھی امکانی منصوبے بنائے تھے وہ درست ثابت نہیں ہوئے۔ پیپلزپارٹی کے صدارتی امیدوار جو قانون و آئین کے ماہر ہیں، ن لیگ کے ممنون حسین اور تحریک انصاف کے امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین سے بھی بہتر تھے تو اس کا فیصلہ عوام نے نہیں بلکہ 706 ووٹوں نے کرنا ہے جو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل الیکٹورل کالج ہے۔ پیپلزپارٹی نے بائیکاٹ سے پہلے اپنے اندازوں کے برعکس انتخابی ماحول کو دیکھ کر بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ ہلچل مچانے کی جو کوشش بھی کی وہ ’’فائر بیک‘‘ ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے جوابی حکمت عملی اپناتے ہوئے پیپلزپارٹی کے گھر میں نقب لگائی اور ایک ہی جست میں ایم کیو ایم کے 48 ووٹوں کی حمایت حاصل کرکے نمبروں کے کھیل میں 400 کا ہندسہ عبور کر لیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے بائیکاٹ کا حتمی اعلان متحدہ قومی موومنٹ کے مسلم لیگ کی جانب سرکنے کے بعد ہی کیا۔اگر ہم 2007ء کے صدارتی انتخاب کی طرف دیکھیں تو پیپلزپارٹی نے 2007 ء کے صدارتی انتخاب میں بھی دلچسپ کھیل کھیلا اور فرینڈلی اپوزیشن کا مظاہرہ سامنے آیا۔ پرویز مشرف کی صدارتی عہدے کی مدت 15 نومبر 2007 ء کو ختم ہو رہی تھی۔ آئین کے آرٹیکل 41(4) کے تحت لازم تھا کہ 15 ستمبر سے 15 اکتوبر کے درمیانی عرصہ میں صدارتی انتخاب لازم ہونا چاہیے۔ صدارتی انتخاب کیلئے 6 اکتوبر 2007 کا دن مقرر تھا۔ ضروری تھا کہ مشرف کے مقابلے میں ایک ایسا امیدوار لایا جاتا جو اُن کے صدر بننے کا راستہ روکنا اور ان کی نااہلیت کا سوال سپریم کورٹ میں اٹھاتا۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد وکلاء کے امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئے۔ پیپلزپارٹی نے امین فہیم کو صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد اے پی ڈی ایم نے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ متحدہ مجلس عمل نے ، جس کی خیبر پختونخوا میں حکومت تھی، مولانا فضل الرحمن کی مخالفت کے باوجود فیصلہ کیا کہ وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی توڑ کر انتخابی کالج کو نامکمل کرکے مشرف کے صدر بننے سے روکیں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے وعدہ کیا کہ کے پی 2 اکتوبر2007 ء کو اسمبلی توڑ دی جائے گی۔ اس طرح مشرف حکومت کو موقع مل گیا کہ وہ وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دیں اور ایسا ہو گیا۔ اس طرح خیبر پختونخوا اسمبلی ٹوٹنے سے بچ گئی۔ پیپلزپارٹی کی قیادت پرویز مشرف سے ڈیل کرکے این آر او لے چکی تھی۔ اس ڈیل کے تحت پرویز مشرف صدر اور بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم پاکستان بننا تھا۔ یہ آرڈیننس عین اس روز آیا جب 6 اکتوبر کو صدارتی انتخاب ہونیوالا تھا ۔ 6 اکتوبر کے صدارتی انتخاب میں بائیکاٹ کے نعرے سے ہلچل تو مچی تھی لیکن پرویز مشرف کی کامیابی کا راستہ نہ روکا جا سکا اور مسلم لیگ (ق) نے وردی میں پرویز مشرف کو صدر بنانے کا وعدہ پورا کر دیا۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے 257، پنجاب اسمبلی کے 253، سندھ اسمبلی کے 102، بلوچستان اسمبلی کے 33 ، خیبرپختونخوا سے 31 ووٹ پرویز مشرف کو ملے۔ صرف خیبرپختونخوا ایسا حلقہ تھا جہاں سے پرویز مشرف کو کم ووٹ ملے۔ یہ صدارت ایک سال کے کم عرصہ پر محیط رہی اور 6 ستمبر 2008 ء کو دوبارہ صدارتی انتخاب ہوئے۔ مسلم لیگ پیپلزپارٹی کی سب سے بڑی حریف جماعت تھی، اس کو معلوم تھا کہ اس کے پاس عددی اکثریت نہیں ہے اور پنجاب سے ہی اسے زیادہ ووٹ ملنے کی توقع تھی۔ اس وقت پیپلزپارٹی کے پاس قومی اسمبلی کے 124، سینٹ میں 9 ارکان تھے۔ صوبائی اسمبلیوں میں بھی اس کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ پنجاب میں اس کے پاس 107، سندھ میں 93، بلوچستان میں 12، خیبرپختونخوامیں 30 ارکان تھے۔ حکومتی سطح پر وفاداریاں تبدیل ہوئیں اور ووٹنگ سے پہلے ہی بہت سے ارکان کو اپنا ہمنوا بنالیا گیا۔ 702 کے الیکٹورل ووٹوں میں سے آصف علی زرداری 481 ووٹ لے کر 12 ویں صدر بنے تھے۔ ان کی یہ کامیابی دو تہائی سے بھی زیادہ تھی۔ سعید الزمان صدیقی 153 ووٹ لے سکے۔ مشاہد حسین سید صرف 44 ووٹ لے سکے۔ 30 جولائی 2013 ء کے صدارتی انتخاب میں پیپلزپارٹی نے سب سے پہلے اپنے امیدوار رضا ربانی کا اعلان کرکے دعویٰ کر دیا کہ اس کے امیدوار کے پاس اکثریت ہے۔ اعداد و شمار کے جس کھیل کا ذکر کرکے اعتزاز احسن اور رضا ربانی صاحب کامیابی کا دعویٰ کر رہے تھے وہ جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعداد 42 ہے جبکہ 2008 ء میں یہ تعداد 124 تھی۔ اب سینٹ میں اس کے پاس 39 ارکان ہیں۔ 2008 ء میں یہ تعداد 9 تھی۔ 2013 ء میں بلوچستان میں اس کا کوئی رکن کامیاب نہیں ہوا۔ گزشتہ انتخاب میں اس کے 12 ارکان تھے۔ سندھ میں اس کے پاس 35 ووٹ ہیں۔ 2008 ء میں اس کو 65 ووٹ ملے تھے۔ پنجاب میں اس کا اب ایک ووٹ ہے۔ 2008 ء میں آصف علی زرداری نے 21 ووٹ لیے تھے۔ خیبرپختونخوا میں پیپلزپارٹی کے پاس 2 ووٹ ہیں۔ 2008 ء میں آصف علی زرداری نے 56 ووٹ لیے تھے۔ مجموعی طور پر پیپلزپارٹی کے پاس 119 ووٹ ہیں۔ اس کو کامیابی کیلئے 353 ارکان کی حمایت درکار تھی جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ عوام کی طرف سے مسترد کیے جانے کے تاثر کو زائل کرکے عوام میں پھر اپنی جگہ بنانے کیلئے سرگرم ہے۔ اعتزاز احسن نے بائیکاٹ سے پہلے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اور تحریک انصاف ایک ’’پیج پر‘‘ رہیں ۔ایسا ہونا ممکن نہیں تھا۔ اگر پیپلزپارٹی جسٹس (ر) وجیہہ الدین کو مشترکہ امیدوار بناتی تو متحدہ قومی موومنٹ اور مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کو کسی صورت میں ووٹ دینے کیلئے تیار نہ ہوتے۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کو تنقید کا نشانہ تو بنایا لیکن بائیکاٹ کا راستہ اختیار نہ کیا۔ بائیکاٹ سے پیپلزپارٹی کی مایوسی سامنے آئی ہے جیسے وہ تنہا رہ گئی ہو۔پیپلزپارٹی اور خاص طور پر میاں نواز شریف کی مہربانی کا رخ اختلافات کے باوجود پیپلزپارٹی کی طرف رہا ہے۔ پیپلزپارٹی ایسی رواداری ایک مہینہ بھی نہ دکھا سکی اور آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں