زبان سے نکلے ہوئے لفظ کی قیمت ہوتی ہے۔ بڑے لوگ بولتے ہوئے اپنے الفاظ کو تولتے ہیں۔ ججوں اور سیاستدانوں کی لڑائیوں میں جج بھی عہدے سے ہٹائے گئے اور حکمران بھی۔ برطانیہ کے جسٹس ٹریسلیس کو تاج برطانیہ کی حکم عدولی پر پھانسی دی گئی۔ لیکن آج برطانیہ میں ججوں اور ان کے فیصلوں کو دل سے قبول کیا جاتا ہے۔ اسلام نے بھی زبان کی حفاظت پر زور دیا ہے۔ مبینہ طور پر زبان کی بے احتیاطی پر عمران خان کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے الزام میں طلب کر لیا۔ دو مرتبہ موقع ملنے کے باوجود کپتان اپنے موقف سے پسپائی اختیار کرنے کیلئے تیار نہ ہوئے تو عدالت عظمیٰ نے غوروفکر کیلئے انہیں 28 اگست 2013ء تک کی مہلت دے دی۔ عدالتیں سوچ سمجھ کر فیصلے کرتی ہیں۔ ایک بار کسی معاملے کا نوٹس لے لیں تو پھر اُسے انجام تک پہنچانا اُن کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ عمران خان کی عدلیہ پر مبینہ تنقید ایک سنجیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کے استعفیٰ کی اہم وجہ سیاسی جماعتوں کی ان پر جارحانہ تنقید تھی۔ عمران خان کا موقف ہے کہ ان کے بہت سے تحفظات تھے مگر عدالتیں کسی کے تحفظات کے تحت نہیں بلکہ آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے عمران خان کو یاد دلایا کہ وہ بھی یوسف رضا گیلانی کے خلاف درخواست لے کر آئے تھے اور انہیں پانچ سال کیلئے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ عمران خان کے حق میں بولنے والے بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ کنفیوژ اور لابیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار جسٹس (ر) وجیہ الدین نے عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس ملنے پر مشورہ دیا تھا کہ وہ یوسف رضا گیلانی کی بجائے راجہ پرویز اشرف کا رویہ اپنائیں۔ الیکشن 2013 کی عوامی مقبولیت عمران خان کیلئے عذاب بن رہی ہے۔ ابھی وہ حقیقت کی دنیا میں واپس نہیں آ رہے۔ انہیں اپنی انا سے باہر نکلنا اور ادراک کرنا ہوگا کہ وہ قومی لیڈر ہیں۔ اُن کی جماعت ووٹوں کے اعتبار سے دوسری بڑی جماعت ہے۔ ہر معاملے میں تحمل اور ضبط کا دامن چھوڑ دینا اُن کی سیاست کیلئے بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ انہیں پنجاب میں شکست کی وجہ دھاندلی نظر آتی ہے۔ قومی انتخابات کو چھوڑیے وہ پارٹی انتخابات کے بارے میں بھی یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس میں شرمناک دھاندلی ہوئی۔ مگر دھاندلی سے کامیاب ہونے والوں کے خلاف آپ نے کیا ایکشن لیا؟ کپتان کی قوت فیصلہ کہاں کہاں جھول کھا رہی ہے! عمران خان غصے میں ہیں لیکن انہوں نے اپنے حامیوں کو یہ حقیقت نہیں بتائی کہ وہ پنجاب میں کیوں ہارے؟ انہیں بتانا چاہیے تھا کہ ان کے پاس کامیاب ہونے والے امیدواروں کی مطلوبہ تعداد نہیں تھی۔ حالت یہ تھی کہ صبح کوئی پارٹی چھوڑ کر آتا اور شام کو اُسے تحریک انصاف کا ٹکٹ مل جاتا۔ خود پارٹی کے اندر مافیا کی نشاندہی فوزیہ قصوری کر چکی ہیں۔ سمندر پار مقیم اُن کے حامیوں نے بڑی بڑی رقوم دیں۔ اُن کو شکست کی وجہ صرف ’’دھاندلی‘‘ بتا کر مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں پاکستان کے انتخابی سسٹم کے بارے میں بتانے کی ضرورت تھی کہ کس طرح موروثی سیاست، برادریاں، دھڑے بندیاں، وڈیروں اور سرداروں کا اثر و رسوخ انتخابات پر اثرانداز ہوتا ہے۔ دراصل کپتان پیپلزپارٹی کے ہاتھوں ٹریپ ہوئے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے انہیں اکسا کر میدان میں اتارا۔ اب وہ صدارتی انتخاب کو عنوان بنا کر پیپلزپارٹی کے لیڈروں کی زبان بولنے لگے اور مبینہ طور پرعدلیہ کو رگید ڈالا۔اپوزیشن خاص طور پر عمران خان کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر فخر الدین جی ابراہیم جیسے جوہر قابل، دیانتدار اور قانون و آئین کے ماہر کو استعفیٰ دینا پڑا۔ صدر پاکستان کو لکھے گئے خط میں انہوں نے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔ صدارتی انتخاب میں سپریم کورٹ کی طرف سے شیڈول میں تبدیلی کے فیصلے پر عمران خان‘ اعتزاز احسن اور پیپلزپارٹی کے دوسرے لیڈروں نے چیف الیکشن کمشنر کو تنقید کا نشانہ بنایا جس پر انہوں نے دو صفحات کے خط میں جو آئین کے آرٹیکل (3)215 کے تحت لکھا گیا یہ بات واضح طور پر کہی کہ الیکشن کمیشن نے کسی خوف کے بغیر آئینی اور جمہوری طریقے سے اپنا کام کیا حالانکہ اس دوران ان کے خاندان کو دھمکیاں دی گئیں اور ان پر حملے بھی ہوئے۔ فخر الدین جی ابراہیم کیلئے اہم منصب سے مستعفی ہونا پہلا واقعہ نہیں۔ جب بھی انہیں محسوس ہوا کہ کام آئین و قانون اور ان کے مزاج کے مطابق کام نہیں چلایا جا رہا تو وہ کھل کر بولے اور استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ ضیاء الحق کے دور میں وہ سپریم کورٹ کے جج تھے۔ عدالتوں نے انسانی حقوق کی درخواستوں کو پذیرائی بخشنا شروع کی تو ضیاء الحق پی سی او لے آئے اور ججوں سے تقاضا کیا کہ وہ اُن کی وفاداری کا حلف اٹھائیں۔ جسٹس (ر) دراب پٹیل اور جسٹس انوار الحق نے حلف اٹھانے سے انکار کر دیا۔ فخر الدین جی ابراہیم نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ قانونی ماہر اور اٹارنی جنرل کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت آئی تو انہیں گورنر سندھ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو آئین کے آرٹیکل (2)58 بی کے تحت ہٹایا گیا۔ غلام اسحاق خان نے صوبائی گورنروں کو صوبائی حکومتیں ختم کرنے کا حکم دیا تو فخرو بھائی نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ بعد ازاں وہ نگران حکومت میں وزیر قانون رہے مگر استعفیٰ دے کر واپس آگئے۔ ایک ایسا شخص جو اپنی زندگی کی آخری سانس پاکستان کے نام کرنا چاہتا ہے، سیاستدانوں نے اقتدار کی رسہ کشی میں انہیں نشانہ بنا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے عوام کو الیکشن میں بھرپور انداز میں شریک کیا۔ بلوچستان کی خراب صورتحال کے باوجود وہاں ٹرن آؤٹ 31 فیصد سے بڑھ کر 43 فیصد تک ہو گیا۔ خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ میں ووٹوں کی شرح میں 10 فیصد سے زائد اضافہ ہونا چیف الیکشن کمشنر کا اہم کارنامہ تھا۔ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں ایک کروڑ 48 لاکھ 74 ہزار 104 ووٹ لے کر پہلے، تحریک انصاف 76 لاکھ 79 ہزار 954 ووٹ لے کر دوسرے، پاکستان پیپلزپارٹی 69 لاکھ 11 ہزار 218 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہی۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کیلئے دوسری پوزیشن صدمہ سے کم نہ تھی۔ تحریک انصاف کے ’’فیس بک‘‘ نونہالوں نے تحریک انصاف کے حق میں طوفانی مہم چلائی۔ عمران خان کی امیج سازی کیلئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھرپور مہم چلائی گئی، یہاں تک کہ عمران خان کی عوامی اور انتخابی رابطہ مہم کا موازنہ بھٹو صاحب سے کیا جانے لگا تھا۔ عالمی سطح پر عمران خان کی برتری کے گن گائے جا رہے تھے۔ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں پاکستان کے اینکر پرسنز نے تحریک انصاف کے غبارے میں ایسی ہوا بھری کہ کوئی فرض کرنے کیلئے بھی تیار نہ تھا کہ وہ دوسرے نمبر پر آئے گی۔ لیکن عوام نے مسلم لیگ (ن) کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ پیپلزپارٹی کو سندھ تک محدود کر دیا۔ پیپلزپارٹی کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی شکست اُسی طرح تسلیم کرتے جس طرح اُن کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا گیا تھا۔ چند ہی دنوں بعد پیپلزپارٹی نے چیف الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسروں کو نشانہ بنا کر دھاندلی کا سوال اٹھا دیا۔ جن نگران حکومتوں نے انتخابات کروائے، مرکز سے چاروں صوبوں تک وہ پیپلزپارٹی کی چوائس تھیں‘ حتیٰ کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی پیپلزپارٹی کے نامزد فرد کو دی گئی۔ پیپلزپارٹی نے حکومت اور ایوان صدارت میں رہنے کیلئے جو حکمت عملی بنائی تھی وہ ناکام ہو گئی۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری کیلئے سب سے بڑا صدمہ پنجاب میں تحریک انصاف کا توقع سے کم نشستیں لینا تھا۔ دھاندلی کی مہم سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چلائی گئی۔30 جولائی 2013ء کو ممنون حسین پاکستان کے صدر بن گئے۔ صدارتی انتخاب میں پیپلزپارٹی اپوزیشن کو متحد کرکے مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکنے میں ناکام ہو گئی۔