"WAC" (space) message & send to 7575

اتفاقِ رائے سے فیصلہ کیا جائے

پارلیمنٹ نے 18 ویں ترمیم منظور کر کے وزیراعظم کو بے پناہ اختیارات دے کر جمہوریت کی بالادستی کا علم بلند تو کردیا لیکن ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا کوئی راستہ تجویز نہیں کیا۔ 11 مئی 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی نے صدر اور وزیراعظم کے علاوہ سپیکر قومی اسمبلی کے مناصب کھو دیے۔ چیئرمین سینٹ کی تبدیلی بھی زیادہ دور کی بات نہیں لگتی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی طرح بے بس اور مجبور وزیراعظم نہیں ہیں۔ ممنون حسین ستمبر میں صدر پاکستان بن جائیں گے۔ وہ وفاق پاکستان کی علامت اور فوج کے سپریم کمانڈر ضرور ہوں گے لیکن آرمی چیف کی تقرری وزیراعظم پاکستان ہی کریں گے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نومبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ وہ 29 نومبر 2007ء کو اس عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی جنگ میں اُن کے کردار کی وجہ سے ایک امریکی جریدے نے انہیں دنیا کی طاقتور ترین شخصیات کی فہرست میں شامل کیا۔ میاں نواز شریف نے وزیراعظم کے ساتھ وزیر دفاع کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا ہے، وہ اشارہ دے چکے ہیں کہ آرمی چیف کا تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر ہوگا۔ پانچ سینئر جرنیلوں میں سے کسی ایک کے نام قرعہ نکلے گا۔ وزیراعظم‘ آرمی چیف کے تقرر حوالے سے محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ تمام معاملات اعلیٰ عسکری قیادت سے مل کر ہی طے کرنا چاہتے ہیں۔ ماضی کی سیاسی حکومتیں اپنے پسند کا آرمی چیف لانے میں گہری دلچسپی لیتی رہی ہیں۔ 1970ء کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے جی اے رحیم سے استعفیٰ لے کر ٹکا خان کو آرمی چیف بنایا تھا۔ ٹکا خان کی مدت ختم ہونے کے بعد ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا کیونکہ وہ انہیں نرم مزاج ہونے کی بنا پر خطرناک نہیں سمجھتے تھے۔ لیکن ان کا اندازہ درست ثابت نہ ہوا۔ 1977ء کے بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا اور 17 اگست 88ء کو فضائی حادثے میں اپنی موت تک اقتدار میں رہے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ آرمی چیف بنے اور ملک میں جمہوری عمل جاری رکھنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت کو حمایت دی جس پر ان کی حکومت نے مرزا اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت دیا۔ جلد ہی بے نظیر بھٹو کی پالیسیاں ٹکراؤ کی طرف بڑھنے لگیں تو انہیں صدارتی فرمان کے ذریعے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ مرزا اسلم بیگ نے 1990ء کے انتخاب میں جو کردار ادا کیا اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے۔ بے نظیر کی جگہ میاں نواز شریف کے وزیراعظم بنتے ہی کچھ عرصہ تو آرمی چیف کے حوالے سے تعلقات اچھے رہے، خلیجی جنگ میں خارجہ پالیسی میں میاں نواز شریف اور مرزا اسلم بیگ کی رائے میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے۔ بھارت کی جانب سے حملے کا خطرہ تھا۔ مارشل لاء لگانے کی افواہیں پورے زوروں پر تھی۔ غلام اسحاق خان اس وقت وزیراعظم کی پشت پر تھے۔ انہوں نے آرمی چیف اور بے نظیر بھٹو کو پیغام بھیجا ’’غیر آئینی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘میاں نواز شریف نے مرزا اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ آنے سے پہلے ہی آصف نواز جنجوعہ کو آرمی چیف بنا کر سکھ کا سانس لیا۔ آصف نواز جنجوعہ سے میاں نوازشریف کے تعلقات کی خرابی 1992ء میں کراچی میں شروع کیے گئے آپریشن سے شروع ہوئی۔ صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کی جو ٹرائیکا قائم ہوئی تھی، اس میں مرزا اسلم بیگ کی طرح آصف نواز بھی زبردست طاقتور شخصیت تھے۔ ان پر میاں نواز شریف کی مخالف سیاسی قوتوں کی طرف سے زبردست دباؤ تھا کہ وہ سویلین قیادت کی جگہ خود سنبھالیں مگر فوج کو اس کام سے دور رکھنا ان کا اہم کارنامہ تھا۔ جنوری 93ء میں آصف نواز کا اچانک انتقال ہوا۔ غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف کے تعلقات نئے آرمی چیف کی تقرری پر ہوئے۔ غلام اسحاق خان جنرل فرخ کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے۔ میاں نواز شریف کا خیال تھا کہ جنرل آصف نواز سے تعلقات میں توازن جنرل فرخ کی وجہ سے ہی قائم نہ رہا تھا۔ یہ تلخی اتنی بڑھی کہ سپہ سالار کی نماز جنازہ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے کے باوجود دونوں نے ایک دوسرے سے گفتگو نہ کی۔بے نظیر بھٹو نے آرمی چیف کا انتخاب غلام اسحاق خان کا حق قرار دے کر ریاست کے دونوں ستونوں کے درمیان دوریاں پیدا کر دیں۔ بالآخر قرعہ عبدالوحید کاکڑ کے نام نکلا۔ عبدالوحید کاکڑ کے آرمی چیف بنتے ہی میاں نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کی خواہشات دم توڑ گئیں۔ خود بے نظیر بھٹو نے قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی کی چیئرپرسن بننا قبول کر لیا۔ صدر اور وزیراعظم کے درمیان اپنی اپنی طاقت دکھانے کی جو جنگ شروع ہوئی وہ جولائی 1993ء تک جاری رہی۔ ایوان صدر سے وزیراعظم کو کمزور کیا گیا۔ آخر قومی اسمبلی اور وزیراعظم کو برخاست کردیا گیا۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو بحال کیا۔ صدر اور وزیراعظم نے ٹیلی ویژن پر آکر ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگائے۔ اس بحران کا حل آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ نے یہ نکالا کہ صدر اور وزیراعظم کو گھر بھیج دیا جائے۔ 1996ء میں وحید کاکڑ کے ریٹائر ہوئے تو جہانگیر کرامت آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بے نظیر بھٹو 1993ء کے انتخاب کے بعد وزیراعظم بن گئیں۔ صدر اور وزیراعظم کے اختلافات شدت کی جانب بڑھے جو بالآخر بے نظیر بھٹو کی رخصتی کا سبب بنے تو آرمی چیف اپنے سپریم کمانڈر فاروق لغاری کے ساتھ تھے۔ میاں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے آئینی ترمیم کے ذریعے اسمبلی توڑنے کا اختیار صدر سے واپس لے لیا۔ آرمی چیف کی تقرری کا اختیار بھی وزیراعظم کے پاس آ گیا۔ میاں نواز شریف نے پہلے صدر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا پھر چیف جسٹس گھر گئے۔ اکتوبر 98ء میں سول حکومت چلانے کیلئے نیشنل سکیورٹی کونسل اور افواج پاکستان کا کوئی سیاسی کردار کی تجویز دینے کی پاداش میں جہانگیر کرامت نے استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ کور کمانڈر منگلا پرویز مشرف کو نیا آرمی چیف بنایا گیا۔ ان سے سینئر جنرل علی قلی خان اور لیفٹیننٹ جنرل خالد نواز تھے۔ میاں نواز شریف نے پرویز مشرف سے وزیراعظم ہاؤس کے بڑے ڈرائنگ روم میں ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ آرمی چیف کا منصب ان کے شاندار کیریئر کی وجہ سے سونپا گیا ہے۔ مرزا اسلم بیگ نے اُس وقت دلچسپ تبصرہ کیا تھا: ’’دوسرا جرنیل بھی پہلے والے کی بات کرے گا‘‘۔ چنانچہ میاں نواز شریف کیلئے 12 اکتوبر 99ء کا وہ دن آن پہنچا جب لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کو پرویز مشرف کی برطرفی کے بعد آرمی چیف بنایا گیا۔ فوج کی قیادت جہانگیر کرامت کے استعفیٰ کو نہیں بھولی تھی‘ جنرل پرویز مشرف نے جو کیا وہ تاریخ ہے۔ اب میاں نوازشریف کو ذرا سنبھل کر چلنا چاہیے۔ فوج جو دہشت گردی کی جنگ میں بے پناہ قربانیاں دے چکی ہے، جمہوریت قائم کرنے میں بے مثال کردار ادا کیا اور مستقبل میں جمہوریت کا سفر بھی فوج کے بغیر طے نہیں ہوگا۔ اتفاق رائے سے فیصلہ کیاجائے اور ماضی کی محاذ آرائی کا دور واپس نہ آنے دیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں