افغانستان میں امریکی اور اتحادی جنگ جو سات اکتوبر 2001ء سے شروع ہوئی تھی، آج اس کو 11 سال 10 ماہ 3 ہفتے اور 3 دن ہو چکے ہیں۔ اس جنگ میں امریکہ نے جو کچھ حاصل کیا اس کا مکمل حساب تو 2014ء کے اختتام کے بعد ہوگا جب امریکہ مکمل طور پر یہاں سے نکل کر اقتدار افغان عوام کی نمائندہ حکومت کے حوالے کرے گا۔ امریکہ نے افغانستان سے جنگ ختم کرنے کیلئے طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کرکے بہترین آپشن چنا ہے۔ یہ تقریباً وہی طریقہ ہے جو ’’جنیوا کانفرنس‘‘ میں اپنایا گیا تھا۔ اس وقت اہم فریقوں میں امریکہ، افغانستان، طالبان، پاکستان اور بھارت ہیں۔ فریق تو سب ہیں مگر ثالث کوئی نہیں ہے۔ بھارت کی انٹری بھی دلچسپ ہے۔ پھر بھی امریکہ ایسے راستے کا انتخاب چاہتا ہے تاکہ اس کی بالا دستی قائم رہے۔ وہ اس غلطی کو نہیں دُہرانا چاہتا جو روس اور امریکہ نے افغانستان سے نکلنے وقت 1989ء میں کی تھی۔ وہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں اس کی پالیسیاں چلتی رہیں اور ایسی حکومت قائم ہو جو افغانستان کے آئین کو تسلیم کرے۔ اس کے قائم کردہ اداروں کے ساتھ کام کرے۔ اس لیے 2014ء میں فیئر اینڈ فری انتخاب کا عمل بڑا اہم ہوگا۔ افغانستان سے نکلنا امریکہ کی شدید خواہش ضرور ہے لیکن اگر اس کی پسند کی حکومت نہ آئی تو پھر کیا ہوگا۔ اس سلسلے میں امریکہ کی خواہش کے مطابق سیاسی جوڑ توڑ کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ اس کیلئے امریکہ نے افغان نژاد زلمے خلیل زاد کو عین اس وقت خصوصی طیارے کے ذریعے افغانستان بھیجا‘ جب افغان صدر حامد کرزئی پاکستان میں اپنے اہم دورے پر موجود تھے اور حکومت پاکستان سے مذاکرات کر رہے تھے۔ زلمے خلیل زاد نے وادی پنج شیر کے اہم رہنما احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ضیا مسعود، ازبک ملائیشیا کے سربراہ جنرل دوستم، سابق افغان انٹیلی جنس امر اللہ صالح، سابق وزیر داخلہ علی احمد جلالی اور کچھ پرانے کمیونسٹوں کو ساتھ ملایا ہے۔ انتخاب کیلئے ایسے تمام افغان لیڈروں کا اتحاد قائم ہو رہا ہے جو پاکستان کے سخت مخالفوں میں شمار ہوتے رہے ہیں اور ایک پڑوسی ملک کے زیر اثر ہیں۔ زلمے خلیل زاد کا انتخاب اس لیے بھی کیا گیا ہے کیونکہ وہ پشتون ہیں اور پشتونوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرکے افغانستان کے صدارتی انتخاب میں کامیابی چاہتے ہیں۔ انتخاب کے بعد قائم ہونے والی حکومت کے سربراہ کوئی بھی ہوں، اُن کیلئے طالبان کا مقابلہ کرنا ممکن ہے‘ لیکن یہ یقینا بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ روس نے افغانستان سے نکلتے ہوئے ڈاکٹر نجیب کی حکومت کو مضبوط بنانے کی جو کوشش کی، اُس کی پہلی جھلک 16 اپریل 1989ء کو ہمارے سامنے آئی جب کابل پر راکٹوں سے حملہ ہو گیا اور تین دن کے بعد ہی کابل کرفیو کی زد میں آگیا۔ پھر ڈاکٹر نجیب کی لاش کو طالبان نے سڑکوں پر گھسیٹا۔ ایسی صورتحال سے بچنا امریکہ کیلئے بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں گیارہ مئی کے انتخاب کے بعد امریکہ نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے رابطے بڑھائے اور طالبان سے مذاکرات کیلئے مدد مانگی۔ ماضی میں میاں نواز شریف کا افغانستان کی جنگ اور معاملات سے گہرا تعلق رہا ہے۔ 1990ء میں جب وہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے ڈاکٹر نجیب کی حکومت کو مجاہدین کے ہاتھوں زیر ہوتے دیکھا تھا۔ امریکہ اور روس کے نکلنے کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس کو روکنے اور مجاہدین میں صلح کرانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ پشاور میں ان لیڈروں کو جمع کرکے ’’اعلان پشاور‘‘ کے ذریعے افغان عبوری حکومت قائم ہی نہیں کرائی بلکہ خود کابل گئے اور حلف وفاداری کی تقریب میں شریک ہوئے۔ مجاہدین لیڈروں کے درمیان اقتدار کی سلگتی چنگاریوں نے پھر شعلوں کا روپ دھارا تو انہیں 1993ء میں ایک بار پھر ’’اعلان اسلام آباد‘‘ اتحاد میں اکٹھا کر دیا۔ یہ سلسلہ نہ رک سکا تو طالبان نے امن قائم کرنے کا نعرہ بلند کیا اور چھا گئے اور چند سالوں میں ہی افغانستان کی اصل طاقت بن گئے۔ طاقت کی لڑائی کو کچلنے کیلئے امریکہ آج افغانستان میں موجود ہے۔ پاکستان کو ایک بار پھر اہم کردار دیا جا رہا ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت سنبھل سنبھل کر قدم اٹھا رہی ہے۔ طالبان سے امن معاہدے میں دلچسپی پاکستان کے مفاد میں بھی ہے۔ پاکستان نے امن قائم رکھنے کیلئے ’’صلح اور جنگ‘‘ کا جو آپشن پسند کیا ہے، وہ درست ہے۔ پاکستان میں امن اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے جب طالبان امن کی طرف آئیں تاکہ پاکستان میں معیشت کا پہیہ رواں دواں رہے۔ لوگوں کو روزگار ملے۔ دوحہ میں طالبان کا دفتر قائم کرکے امریکہ نے طالبان کی حیثیت کو تسلیم تو کر لیا ہے لیکن مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکے۔ افغان حکومت کے سربراہ حامد کرزئی اور انتظامیہ نے طالبان سے ایسے مذاکرات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس میں وہ شامل نہ ہوں۔ حامد کرزئی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جس نے بھی مذاکرات کرنے ہیں ہمارے ذریعے کرے۔ ایسا ہی جواب کرزئی نے اوباما کو دیا تو وہ ناراض ہو گئے۔ اب پاکستان نے امریکہ کی حمایت سے حامد کرزئی سے مذاکرات کیلئے وزیراعظم کے مشیر خارجہ امور سرتاج عزیز کو افغانستان بھیجا جس میں حامد کرزئی کے موقف کی پاکستان نے حمایت کی۔ حامد کرزئی نے سرتاج عزیز سے 2010ء میں گرفتار کیے گئے طالبان لیڈر ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کا مطالبہ کیا جسے پاکستان نے منظور نہ کیا۔ حامد کرزئی نے 25 اور 26 اگست 2013ء کو پاکستان کا دو روزہ ناکام دورہ کیا ہے۔ پاکستان سے جو کچھ حاصل کرنا چاہا وہ اُسے نہ مل سکا اور خالی ہاتھ لوٹ گئے۔ حامد کرزئی افغانستان کے آئین کے مطابق تیسری مدت کیلئے صدر بننے کے اہل نہیں ہیں۔ امریکہ اُن کی حکمت عملی کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہا ہے۔ میاں نواز شریف اور حامد کرزئی کی مشترکہ پریس کانفرنس میں الگ الگ موقف دیکھنے کو ملے۔ میاں نواز شریف وسطی ایشیائی ممالک اور کابل کے باہمی تعلقات پر زور دیتے رہے جبکہ حامد کرزئی طالبان کے ساتھ مفاہمتی عمل پر زور دیتے رہے۔ میاں نواز شریف مستقبل کی افغان حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے عسکری قیادت اور انٹیلی جنس اداروں کو حامد کرزئی کے ساتھ مذاکرات میں شامل کرکے مثبت اشارے دیے ہیںکہ ہم سب ایک ہیں۔ 30 اگست کی اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کیلئے رابطوں کی تصدیق ہو گئی ہے۔ پاکستان حکومت جونیجو کے نقش قدم پر نہیں چلنا چاہتی جب جنیوا معاہدے کے حوالے سے ضیاء الحق اور محمد خان جونیجو کے موقف میں ہم آہنگی نہیں تھی۔ محمد خان جونیجو نے جنیوا مذاکرات میں افغان مہاجرین کے پاکستان سے انخلا کو یقینی بنانے اور افغان جنگ کے اہم کرداروں ’’مجاہدین‘‘ کے مستقبل کی ضمانتوں کے بغیر جنیوا معاہدے پر دستخط کیے۔ محمد خان جونیجو کی افغان ایشو پر صدر ضیاء الحق سے محاذ آرائی انہیں لے ڈوبی۔ جنگ تباہی ہوتی ہے‘ اس میں سب ہارتے ہیں۔ جون 1989ء میں روسی وزیراعظم مسٹر نکولائی ریزکوف نے اعتراف کیا کہ افغانستان کی جنگ میں ان کے ملک کو 70 بلین امریکی ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ روس کے اس جنگ میں روسی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 13 ہزار سے زائد فوجی مارے گئے۔ افغان کٹھ پتلی حکومتوں کے 195000 فوجی اور حمایتی مارے گئے۔ ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق امریکی ایجنڈے کے تحت دہشت گردی کی جنگ لڑتے لڑتے پاکستان کی معیشت کو 101 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ افغانستان کے امن سے بہت سے ممالک کا مستقبل جڑا ہے۔ اس لیے مذاکرات ہی بہترین آپشن ہے۔