بربادی سے بچنے کے بہت سے راستوں میں سے بہترین راستہ حکمت و دانش کے ساتھ صلح کا ہے ۔جو لوگ ضد پر اڑے رہتے ہیں اُن کے حصے میں فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے درست نشاندہی کی ہے کہ کچھ قوتیں مذاکرات کے بجائے طالبان سے محاذ آرائی کی طرف دھکیلنا چاہتی ہیں۔ کچھ لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایسے لوگوں سے صلح کیوں؟ میاں نواز شریف کی خصوصی دلچسپی سے 9 ستمبر کو اسلام آباد میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی بلائی گئی کانفرنس میں سب سے اہم کامیابی طالبان سے مذاکرات کیلئے مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہونا ہے جس سے پاکستان کو دہشت گردی اور بدامنی کے اُس دور سے نجات مل سکتی ہے جس کا آغاز دسمبر 1979ء سے افغانستان میں روسی فوجوں کے داخلے سے شروع ہوا تھا۔ میاں نواز شریف کی سربراہی میں ہونے والی کانفرنس کی کامیابی کا اندازہ خود لیڈروں کے جذبات سے بھی لگایا جا سکتا تھا کہ کس طرح حکومت کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے امڈ امڈ کر آ رہے تھے۔ افغانستان اور خاص طور پر طالبان کے مسئلہ کے ہر پہلو پر قومی لیڈروں نے سیر حاصل گفتگو کی۔ اس حوالے سے یہ کامیاب کوشش ٹھہری کہ عسکری قیادت اور حکومت ایک ’’پیج‘‘ پر نظر آئے اور سب کے سب ملکی مفاد میں پرعزم تھے ۔ طالبان سے صلح پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ان کوششوں میں امریکہ اور افغانستان کی حکومت بھی شامل ہے۔ روس اور امریکہ کے خلاف لڑنے والے مجاہدین ،جو تاریخ کے جبر سے کبھی مجاہد اور کبھی شدت پسند اور دہشت گرد کہلائے ، بھی اس صلح کے بڑے فریق ہیں۔ امریکہ بھی اس حقیقت کو کسی حد تک تسلیم کرتا ہے۔ دوحہ میں طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت سے بھی بدلتے ہوئے امریکی رویے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ جس طرح روس جنیوا معاہدے کی وجہ سے افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوا اسی طرح امریکہ بھی 2014 ء تک افغانستان سے نکلنے کا ارادہ پہلے ہی ظاہر کر چکا ہے اور کوئی باوقار تصفیہ چاہتا ہے۔ جب روس نے افغانستان کو چھوڑا تھا اُس کے سامنے یہ سوال نہیں تھا کہ افغانستان کس آگ میں جلے گا، بعد میں کیا ہوتا ہے ،اسے اس سے کوئی غرض نہیں تھی ، اسے نکلنا تھا اور وہ نکل گیا۔ جنگ کے سارے نتائج 1989ء کے بعد پاکستان نے بھُگتے ۔امریکہ افغانستان سے نکلنے سے پہلے چاہتا ہے کہ اس نے افغان معاشرے کو جو آئینی، قانونی اور معاشرتی اصلاحات دی ہیں انہیں افغان مل کر خود آگے بڑھائیں ۔ اس کیلئے افغانستان کی خود مختاری ضروری ہے اور یہاں سے غیرملکی ایجنسیوں کے دروازے بھی بند کرنا ہوں گے۔ پاکستان کی سول حکومت اب بھی چاہتی ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ سیاستدانوں کی موجودہ کانفرنس سے پہلے ایسا ہی اکٹھ محمد خان جونیجو کے دور حکومت میں بھی ہوا تھا جس نے جنیوا معاہدے سے پہلے محمد خان جونیجو کی بلائی گئی کانفرنس میں شریک ہو کر حکومت کو مینڈیٹ دیا تھا جس کی وجہ سے 14 اپریل 1988 ء کو جنیوا میں تاریخ ساز معاہدہ ہوا جس کے مطابق روس کو اپنی فوجیں افغانستان سے نکالنا پڑیں۔ یوں 15 فروری 1989ء کا تاریخ ساز دن تھا جب دنیا کی سپر پاور روس کے عسکری سربراہ لیفٹیننٹ جنرل بورس گراخوف ، آخری سوویت فوجی کی حیثیت سے افغانستان سے رخصت ہونے سے پہلے افغانستان کے بلند و بالا پہاڑوں اور ان کی فضاؤں میں پھیلی ہوئی بارود کی بو کو محسوس کرتے ہوئے بکتربند گاڑی میں بیٹھ کر روس کی افغانستان میں شکست کا زخم سمیٹے عالمی وقت کے مطابق چھ بجکر 55 منٹ پر دریائے آمو کا پل تنہا عبور کرکے افغانستان سے چلے گئے۔ دریا کا یہ پل افغانستان اور روس کے درمیان حد فاصل تھا۔ سوویت افواج نے 9 برس تک افغانستان میں رہا مگر کامیابی سے زیادہ ناکامیاں اس کے حصہ میں آئیں ۔جب پل عبور کرکے جنرل گراخوف ازبکستان میں داخل ہوئے تو ازبکستان اور افغانستان کو ملانے والے اس پل کو سرخ پرچموں اور وطن واپس آنے والے فوجیوں کیلئے خیرمقدمی بینروں سے سجایا گیا تھا۔ یہ استقبال دنیا کو حیران کر دینے والا تھا۔ جنرل گراخوف نے اخبار نویسوں سے صرف اتنا کہا ’’افغانستان میں سوویت فوج نے کافی سیکھا ہے۔ یہ ایسا سبق ہے جو بامقصد رہا‘‘۔ جہاں تک جنیوا معاہدے کا تعلق ہے، روس کا افغانستان سے انخلا تو ہونا ہی تھا۔ حقیقت یہ تھی اس جنگ نے روس کی معیشت کو چاٹ لیا تھا۔ سماجی زندگی کا شیرازہ بکھر رہا تھا اور سب سے اہم یہ تھا کہ ناکامی کا تاثر عام ہو رہا تھا۔ کوئی فوج شکست کیلئے میدان میں نہیں اترتی۔ حقیقت یہی ہے کہ جنگوں میں کوئی نہیں جیتتا۔ آخرکار مذاکرات کی میز پر ہی سب کو بامقصد حل ملتا ہے۔ افغانستان میں روسی مداخلت سے پاکستان میں ضیاء الحق کی آمریت بھی مضبوط ہوئی۔ 1979ء میں روس نے افغانستان میں فوجی مداخلت کا فیصلہ کیا تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ضیاء الحق کے مارشل لاء کی وجہ سے انتہائی نچلی سطح پر تھے۔ ضیاء الحق عالمی تنہائی کے ماحول کو ختم کرنے کیلئے غیر وابستہ تحریک کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا کو جگانے کی لگن میں مصروف تھے۔ پاکستان میں جمہوریت کا مطالبہ ضیاء الحق نے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے پورا تو کر دیا تھا لیکن یہ حقیقی جمہوریت نہیں تھی۔ افغانستان میں روسی مداخلت کو جنرل ضیاء کیلئے برژنیف کی طرف سے کرسمس کا تحفہ مغربی میڈیا نے قرار دیا۔اس کے بعد ہی ضیاء الحق کی فوجی حکومت کیلئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے حمایت کی بارش ہونے لگی تھی۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کی دعوت پر ملک کی 19 سیاسی جماعتوں نے اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ 5 جولائی 1977ء کے مارشل لاء کے بعد ’’جنیوا کانفرنس‘‘ میں دستخط کرنے کے حوالے سے بلائی گئی سیاستدانوں کی کانفرنس میں شرکت ایک نئی تبدیلی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے اور اُن کی پھانسی کے بعد یہ نئی صورتحال اور سیاسی جماعتوں کے درمیان براہِ راست پہلا رابطہ تھا۔ کانفرنس میں کچھ سیاسی جماعتیں ایسی بھی تھیں جو ضیاء الحق کے مارشل لاء کا حصہ رہی تھیں۔ البتہ تحریک بحالی جمہوریت میں شامل جماعتوں کا شریک ہونا ایک نئی تبدیلی کا اشارہ تھا۔ محمد خان جونیجو جن کی حیثیت ضیاء الحق کے مہمل تابع سمجھی جاتی تھی، 1988ء کا سال شروع ہوتے ہی بڑی طاقتوں کے رابطے میں آ چکے تھے۔ البتہ یہ صورتحال ضیاء الحق کیلئے خاصی پریشان کن تھی کیونکہ ضیاء الحق نے اپنے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان جو لائن کھینچی تھی وہ اس کانفرنس میں تہہ تیغ ہو گئی تھی۔ 5 اور 6 مارچ 1988 ء کو راولپنڈی کے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں سیاسی رہنماؤں کے درمیان ہونے والے مذاکرات نے دو انتہاؤں پر کھڑے لیڈروں میں فاصلہ ختم کردیا۔ کانفرنس کے پہلے اجلاس میں محمد خان جونیجو بے نظیر کو اپنے ساتھ قریبی نشست پر لے گئے۔ باقی رہنماؤں کو کہا جہاں جگہ ملتی ہے بیٹھ جائیں کیونکہ کسی کیلئے مخصوص نشست نہیں تھی۔ کانفرنس میں غلام مصطفی جتوئی، مولانا شاہ احمد نورانی، نوابزادہ نصراللہ خان، غوث بخش بزنجو، قاضی حسین احمد، ملک قاسم، خواجہ خیر الدین، معراج محمد خان، مولانا سمیع الحق، رسول بخش پلیجو، ایئر مارشل اصغر خان، سردار شیرباز مزاری، فتح یاب علی خان، فاضل موسوی، عبدالرحیم مندوخیل، مولانا معین الدین لکھوی اور ساجد میر شریک ہوئے۔ اتنے سیاستدانوں کا اکٹھ جونیجو کا کارنامہ تھا۔ کانفرنس میں قومی سیاسی جماعتوں کے ان لیڈروں نے کھل کر ضیاء الحق کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ایم آر ڈی کے رہنما وزیراعظم ہاؤس سے منسلک سٹیٹ گیسٹ ہاؤس سے ضیاء الحق کو للکار رہے تھے۔ ملک قاسم کی تقریر جذبات میں اس قدر ڈوبی ہوئی تھی کہ وہ ضیاء الحق کے ظالمانہ دور کا تذکرہ کرتے ہوئے دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ ماضی کے اس سبق کی روشنی میں سیاستدانوں کی موجودہ کانفرنس میں حکومت پر جو اعتماد کیا ہے وہ ایک تاریخ ساز لمحہ ہے اور امید ہے کہ اس فیصلے سے افغانستان اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کا باب بند ہو جائے گا۔