طالبان کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کا جو موقف رہا ہے اس کو بہت سے لوگ پسند نہیں کرتے ۔ لیکن مولانا چاہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کامیاب ہوں۔ جب میاں نواز شریف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے پالیسی بیان دے رہے تھے ،مولانا فضل الرحمن طالبان سے مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے جرگہ کو متحرک کرنے کا عندیہ دے رہے تھے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمت اور صلح کی جو بات چیت چند ماہ سے چل رہی ہے اس میں مولانا فضل الرحمن کے کردار پر کسی بڑی طاقت کو اختلاف بھی نہیں۔ مولانا میدان سیاست کے شہسوار ہیں۔ وہ اپنی جماعت کے طویل عرصہ سے امیر ہیں۔ مشرف دور میں اپوزیشن لیڈر رہے۔ کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی میں وہ ہمیشہ کشش محسوس کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے سیاست میں منفرد طرزِ فکر متعارف کرائی۔ جمہوریت کیلئے جیل بھی گئے اور مسندِ اقتدار تک بھی پہنچے۔ خطابت میں بھی یکتا ہیں۔ ملک کی اہم چھ مذہبی جماعتوں کو متحد کرکے متحدہ مجلس عمل بنانا اور پارلیمانی سیاست میں کامیابی ان کا کارنامہ تھا۔ ہمیشہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بہترین سکور مولانا کی سیاسی خواہشوںمیں سے ایک ہے۔ وہ سیاست میں ایک خاص طرزِ عمل رکھتے ہیں۔ انتہا تک نہیں جاتے۔ کہنے کو تو وہ اپنے اصول پر قائم رہتے ہیں لیکن پارٹی کی طاقت کو آگے بڑھانے کو کبھی نہیں بھولے۔ خیبرپختونخوا کے ضمنی انتخاب میں مولانا اور تحریک انصاف کے درمیان لفظوں کی جو جنگ چھڑی تھی، اُس کو سنجیدہ طبقوں نے پسند نہیں کیا۔ سیاست میں اس طرح کی بیان بازی مولانا کی سیاست کا کبھی حصہ نہیں رہی۔ نہ جانے لفظوں کی ’’پراکسی وار‘‘ میں وہ کیوں اور کیسے الجھ گئے! وہ تو حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، مکالمہ اور مفاہمت کے قائل رہے ہیں۔ بحالی جمہوریت کی تحریک میں مخصوص عرصہ کیلئے ایم آر ڈی کے کنونیئر بنے تو ضیاء الحق سے بھی مذاکرات کے حامی تھے۔ پرویز مشرف کی حکومت میں اُن کا طرز عمل لچکداررہا۔ سچ تو یہی ہے جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں اُن کا دلچسپ سیاسی کردار سامنے آیا۔ آپ نے پرویز مشرف سے خوب تعاون کیا کہ وہ جمہوریت کے استحکام کیلئے فوجی حکومت سے تعاون کو غلطی تسلیم نہیں کرتے ۔ خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت اور بلوچستان کی مخلوط حکومت کے بڑے پارٹنر ہونے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے۔ متحدہ مجلس عمل کے یوں تو جنرل سیکرٹری تھے لیکن فیصلوں کو اپنے حق میں موڑنا انہیں خوب آتا تھا۔ مرحوم قاضی حسین احمد متحدہ مجلس عمل کے سربراہ تھے لیکن فیصلوں کی چابی ہمیشہ مولانا کے پاس رہی۔ مولانا فضل الرحمن اپنے والد کے انتقال کے بعد سیاست میں سرگرم ہوئے‘ انہوں نے عہد جوانی میں اپنے والد کو پاکستان قومی اتحاد کا سربراہ بنتے دیکھا تھا۔ پھر وہ تحریک بھی دیکھی جو ان کے والد کی سربراہی میں چلی اور ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار لے ڈوبی ۔ضیاء الحق کے مارشل لاء سے والد کے واسطہ اور تعلقات کی نوعیت نے مولانا فضل الرحمن کو سیکھنے کا موقع کیا۔ جب دائیں اور بائیں نظریات کی جنگ زوروں پر تھی۔ بائیں بازو کے سرخیل ولی خان سے مفاہمت کا بڑھتا ہوا ہاتھ انہوں نے بھی محسوس کیا۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں حکومت قائم کرنے اور چلانے کا تجربہ بھی کیا۔ 1988ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت بنوانے میں ایک دینی سربراہ کی حیثیت سے مذہبی حلقوں نے آپ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا کہ اسلام میں عورت کی سربراہی جائز نہیں۔ آپ کے پاس بھی دلائل تھے۔ جلد ہی بے نظیر بھٹو کے خلاف بننے والے کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز میں شامل ہو گئے۔ 1990ء کے انتخاب میں جمعیت علماء اسلام آئی جے آئی کی اتحادی رہی۔بعد ازاں پھر پیپلزپارٹی سے اتحاد کر لیا اور قومی اسمبلی میں خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں آپ قومی اسمبلی میں تو نہ پہنچ سکے البتہ حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کرتے رہے۔ میاں نواز شریف کے دور میں پاکستان کے ساحلی علاقوں سے امریکہ نے اسامہ بن لادن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تو مولانا نے اس پر شدید احتجاج کیا۔ مولانا اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں‘ کیونکہ اُن پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کی بے پناہ بارش ہوئی جس کا اظہار کرتے ہوئے وہ خود فرماتے ہیں ’’میں اپنے آپ کو خوش قسمت کیوں نہ کہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت بڑے ماں باپ دیئے جو علم و اخلاق، بزرگی اور نام و نمود کے لحاظ سے عظیم الشان تھے۔ علمی و دینی گھر اور ماحول عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے دینی نسبت عطا فرمائی اور علم سے کچھ شدھ بدھ ہوئی‘‘۔ ان کا نظریہ ہے کہ زندگی وہی ہے جس کا اللہ تبارک تعالیٰ نے تعین کر دیا ہے۔ زندگی کو وہ امتحان سمجھتے ہیں جو اللہ کے ضابطے اور انسانی خواہشات کے درمیان ٹکراؤ ہے۔ وہ روحانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ تصوف کے بارے میں ان کا خیال ہے ’’جب تم اپنے رب کی عبادت کرو تو یوں محسوس کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ کہ تم اپنے رب کو دیکھ رہے ہو۔ ایسی کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرنا درحقیقت تصوف کا اصل مقام ہے۔‘‘ مولانا کے نزدیک نیکی کا تصور یہ ہے کہ ’’جس کام سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اس کو نہ کیا جائے۔‘‘ البتہ سیاسی نظریات سے اختلاف کرنے والے ان کی شخصیت کو پسند نہیں کرتے۔ طالبان سے صلح کا آپشن جو دینے جا رہے ہیں اس میں ریاست کی رٹ اور دستور پاکستان کی بالادستی کا طالبان سے اقرار کرانا یقینا ایک چیلنج ہے۔