جب وقفے وقفے سے عام انتخابات کا شور اُبھرتا ہے تو سیاسی جماعتیں اور سیاستدان اپنے منشور کے ذریعے ایسے ایسے پُرفریب اور مسحور کن وعدوں کی پٹاری عوام کے سامنے کھولتے ہیں جس میں غربت، بیروزگاری، صحت، پانی، تعلیم، ترقیاتی منصوبے اور خوشحالی کے دلربا نعرے عوام کو للچانے لگتے ہیں۔ یہ وعدے آج کل صوبہ بلوچستان میں عوام سے خوب کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے سب سے ناراض صوبے کے عوام کی زندگی میں مسائل ہی مسائل ہیں‘ غربت ہے، جہالت ہے، خوراک کی کمی ہے، تعلیم نہیں ملتی، ہسپتالوں میں جائیں تو علاج نہیں ہوتا، روزگار کے مواقع محدود ہیں۔ بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے امیدوں کے کچھ دیے جلانے کی کوشش کی ہے اورپہلی مرتبہ کسی وزیراعلیٰ نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے ۔ بلوچستان حکومت صوبے کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010ء کے سیکشن 25 کے مطابق سیاسی بنیادوں پر انتخابات کرا رہی ہے جس کے تحت بلوچستان کے 32 اضلاع کی 634 یونین کونسلوں کے انتخابات ہوں گے جبکہ کوئٹہ کو میٹروپولیٹن کارپوریشن کا درجہ مل گیا ہے۔ اس کے علاوہ قلعہ عبداللہ، خضدار، پشین اور کیچ بھی میونسپل کارپوریشن کے درجہ تک پہنچ گئے ہیں جبکہ بلوچستان کے شہری علاقوں میں 53 میونسپل کارپوریشنیں بھی بنائی گئی ہیں۔
7 دسمبر 2013ء کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات اس لیے منفرد ہیں کہ ماضی میں ان پر سیاسی جماعتوں کی نسبت سرداروں کا غلبہ ہوتا تھا۔ اس مرتبہ سیاسی جماعتوں کی شمولیت نے عوام میں زبردست جوش و جذبہ پیدا کیا ہے۔ دلچسپ سیاسی اتحاد بھی وجود
میں آئے ہیں۔ ضلع موسیٰ خیل میں 17 نشستوں پر 51 آزاد اور 39 امیدواروں کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہے۔ ہرنائی میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ن)، ملک اسرار پینل اور حاجی رضا پینل میں اتحاد ہو گیا ہے۔ میونسپل کمیٹی قلات کی سطح پر بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان اتحاد سامنے آیا ہے۔ قلعہ عبداللہ میں کسی جماعت نے آپس میں اتحاد نہیں کیا۔ ہر جماعت کی اپنی اپنی دوڑ ہے۔ ضلع مستونگ میں سیاسی جماعتوں کی نسبت قبائل نے اپنے امیدواروں کو آگے بڑھایا ہے۔ نصیر آباد میں جمالی اور کھوسہ گروپ میں ٹکر نظر آتی ہے۔ وہاں ڈیرہ بگٹی کا محاذ ابھی زیادہ سرگرم دکھائی نہیں دیتا۔ زہری، جمالی، بگٹی، عمرانی، رند، مری، مینگل، ترین، کاکڑ، ڈومکی اور دیگر سردار بھی مقامی سطح پر حکمرانی کیلئے بے چین ہیں۔ البتہ بلدیاتی عمل کا ایک مثبت پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ انتخابی ہلچل سے سیاسی نظام متحرک ہوا ہے جو بلوچستان کے ناراض لوگوں کو قومی دھارے میں سمونے کا سبب بن سکتا ہے۔ ماضی کی طرف دیکھیں تو سرداروں کی بالادستی کے باوجود بلدیاتی اداروں کا کردار بڑا مثبت رہا ہے۔ 29 جون 1947ء کو ریفرنڈم کے ذریعے کوئٹہ میونسپلٹی کے کردار کی وجہ سے برٹش بلوچستان کو پاکستان میں شامل ہونا پڑا تھا۔
1958ء تک بلوچستان میں لوکل سطح پر ہونے والے انتخابات کبھی منظم انداز میں نہیں ہوئے۔ بلوچ سرداروں کے ساتھ ایوب خان کے تعلقات مثالی نہ رہے بلکہ وہ پہلے حکمران تھے جن کے دور میں نواب اکبر بگٹی، سردار خیر بخش مری اور سردار عطا اللہ مینگل کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلزپارٹی کا دور حکومت بھی بلوچستان اور ان کے سرداروں کیلئے نیک شگون ثابت نہ ہوا۔ بلوچستان کے سرداروں کو ملک دشمنی کے الزام لگا کر حیدر آباد جیل میں بند کر دیا گیا۔ ضیاء الحق کے اقتدار میں آتے ہی بلوچستان کا سیاسی محاذ ٹھنڈا ہو گیا۔ البتہ ضیاء الحق کے دور میں بلدیاتی انتخاب میں سرداروں کے رشتہ داروں نے بھرپور حصہ لیا۔ 1979ء اور 1983ء کے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے سیاسی پیش قدمی جاری رہی۔ اس کے بعد سیاسی جماعتوں کی مداخلت پھر شروع ہوئی۔ 1987ء کے بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے میں محمد خان جونیجو خود کوئٹہ گئے۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ جام غلام قادر آف لسبیلہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مسلم لیگیوں کا کومیاب کرانے کی حکمت عملی طے کی لیکن سرداروں کے بلدیاتی سیاست پر مضبوط قبضے کی وجہ سے ان کی ایک نہ چل سکی۔ ضلع نصیر آباد جمالی اور کھوسہ گروپ کے درمیان مقابلہ ہوا۔ ضلع کونسل کی 25 میں سے 12 نشستوں پر جمالی گروپ بلامقابلہ ہی کامیاب ہوا اور فائق جمالی ضلع کونسل کے چیئرمین بن گئے۔ ضلع ڈیرہ بگٹی میں 10 میں سے 8 کونسلر بلامقابلہ کامیاب ہوئے۔ اکبر بگٹی کے صاحبزادے ریحان بگٹی بلامقابلہ کامیاب ہوئے۔ ضلع کونسل کوہلو کی 9 نشستوں میں سے 8 بلامقابلہ کامیاب ہو گئے اور چیئرمین کے انتخاب میں سردار خیر بخش مری کے بھتیجے ایاز مری بلامقابلہ چیئرمین بھی بن گئے۔ ضلع کونسل کوئٹہ 12 نشستوں پر مشتمل تھی۔ 8 ارکان کا انتخاب اور 4 نامزدگی کے ذریعے کامیاب ہوئے۔ ذوالفقار مگسی کے بھائی نواب طارق مگسی بھی بلامقابلہ ضلع جھل مگسی کے ناظم بن گئے۔ حاجی عبد محمد نوتیزئی کے بھتیجے میر علی خان ضلع چاغی، زہری فیملی کے اکبر زہری ضلع کونسل قلات، اختر محمد کاکڑ ضلع کونسل پشین، سابق وزیراعلیٰ مرحوم جام یوسف ضلع لسبیلہ، طاہر لونی ضلع لورالائی، عبدالغفور بلوچ ضلع گوادر، میر اللہ داد عمرانی ضلع تمبو، غلام نبی گچکی ضلع کونسل ژوب کے چیئرمین بن گئے۔ مئی 1992ء کے انتخابات سیاسی جماعتوں کی مخاصمت کی وجہ سے اس حد تک خطرناک ہو گئے کہ کوئٹہ میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ مشرف کے دورِ اقتدار میں بلوچستان اہم ٹارگٹ رہا تھا، اُن کی ضلعی حکومتوں میں کچھ نہیں بدلا۔ سرداروں کے ہی بیٹے اور بھتیجے ضلعی حکومتوں کے حقدار ٹھہرے۔ دوسرے صوبوں کی طرح پرویز مشرف کا حمایت یافتہ گروپ بلوچستان میں بھی 2001ء میں نئی صف بندی کے ساتھ وجود میں آیا۔ بلوچستان سے رحیم کاکڑ، چاغی سے میر محمد اکرم مینگل، کھچی سے سردار یار محمد رند، لورالائی سے سردار مسعود علی خان لونی، پشین سے ڈاکٹر گوہر اعجاز کاکڑ، نصیر آباد سے خان محمد خان جمالی، گوادر سے بابو غلام اور لسبیلہ سے اس وقت کے وزیراعلیٰ جام یوسف کے بیٹے جام کمال خان کامیاب ہو گئے۔ مسلم لیگ قائداعظم بننے کے بعد ضلع ناظمین کی اکثریت مسلم لیگ (ق) سے وابستہ ہو گئی۔ 2005ء میں بھی یہی لوگ اور باقی بچ جانے والے سردار مشرف کے ضلعی نظام میں کامیاب ٹھہرے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ قائداعظم نے ضلعی نظامت کے امیدواروں کی کھل کر حمایت کی اور بڑی تعداد میں ناظم کامیاب کرا لیے۔ سردار یار محمد رند کے صاحبزادے سردار خان بولان کے ضلع ناظم بنے۔ واشک کے ضلعی ناظم میر مجیب الرحمن محمد حسنی بھی سرکار کے حمایت یافتہ تھے۔ سرکاری مسلم لیگ کی حمایت نے بارکھان کے حبیب اللہ خان، لورالائی کے جہانزیب لونی، سبی کے علی مردان خان ڈومکی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا جبکہ وزیراعلیٰ کے بیٹے جام کمال بلامقابلہ لسبیلہ کے ضلع ناظم بن گئے۔ قلات کی نظامت زہری قبیلے کے حصہ میں آئی۔ پرویز مشرف کا ضلعی حکمرانی کا خواب کیوں پورا نہیں ہوا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جن سیاسی خاندانوں کا انتخاب انہوں نے کیا تھا وہ سیاست بدلتے ہی رخ زیبا دوسری طرف موڑ لیتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک نے بلدیاتی سطح پر جو حکمت عملی تیار کی ہے وہ عام آدمی کو اقتدار کے پنجرے میں داخل کر سکتی ہے یا نہیں۔ 7 دسمبر کو ڈاکٹر مالک کی فکر اور طاقتور سرداروں کے درمیان یہ فیصلہ ہونا ہے۔یقینا ہم بھی دیکھیں گے۔