وہ 30نومبر کی ایک رومانوی شام تھی ۔ دو دن بعد مجھے پاکستان واپس آنا تھا۔ لندن کی معروف آکسفورڈ سٹریٹ میں ایک شاپنگ مال سے میں نے فیملی اور دوست احباب کے لیے کچھ شاپنگ کی۔ بِل ادا کرتے ہوئے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے سیلز مین کی طرف‘ جو شاید وہاں کا مالک بھی تھا‘ایک لائٹ سا فقرہ اُچھال دیا ’’پچھلی مرتبہ سے اس مرتبہ ہر چیز تقریباً 25 فیصد زیادہ مہنگی ہے‘ آکسفورڈ سٹریٹ کے تاجر تو لندن کے سب سے امیر لوگ ہوں گے!‘‘ میرا سامان مجھے تھماتے ہوئے گورا مسکراتے ہوئے بولا: ’’آج 30 نومبر کی شام ہے‘ کل سے تقریباً پورے لندن میں اور میرے شاپنگ مال میں بھی سیلز لگ جائیں گی‘ جو چیزیں تم نے آج 100پائونڈ میں خریدی ہیں یہی کل آئو تو 25 یا 30 پائونڈ میں مل جائیں گی‘ تم آرام سے ستر پائونڈ بچا سکتے ہو۔ ‘‘ اس نے مزید خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: ’’تم چاہو تو میں تمہیں پیسے واپس کر دیتا ہوں‘ چیزیں کل لے لینا بہت فائدہ ہو گا۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا ’’کل آنا ممکن نہیں ہو گا اور پرسوں میری فلائٹ ہے۔ کوئی بات نہیں میں پاکستانی ہوں‘ نقصان خوشی سے برداشت کر لیتا ہوں، نقصان اٹھا کر خوش ہونے والوں میںسے ہوں۔ تمہاری محبت کا شکریہ‘‘ پاکستانیوں کے حوالے سے جون ایلیا کا شعر مجھے لندن کی اس شام بھی بہت یاد آیا: میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں اتفاق سے اس ٹور (Tour) میں مجھے مزید کچھ دن لندن میں رکنا پڑ گیا۔ ایک شام دوبارہ آکسفورڈ اور Bond سٹریٹ جانا ہواتو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تقریباً ہر شاپنگ مال اور دکان پر سیلوں کا آغاز ہو چکا تھا، وہی شے جو 30 نومبر کو 100 پائونڈ کی تھی‘ حیرت انگیز طور پر پانچ دسمبر کو 25یا 30 پائونڈ میں دستیاب تھی۔ تقریباً 60سے 70 فیصد تک ہر دکان کی ہر شے سیل پر لگی ہوئی تھی۔ میں اسی گورے کے پاس دوبارہ چلا گیا‘ اس سے پوچھا کہ قیمتوں میں اتنی کمی کیسے ممکن ہوتی ہے؟ اس نے یہ کہہ کر مجھے مزید حیران کر دیا: ’’کچھ چیزیں تو میں نے اپنی قیمت خرید کے برابر بھی سیل پر لگا رکھی ہیں‘‘ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو مجھے یاد ہے وہ ’کافر گورا‘ مسکراتے ہوئے بولا تھا: ’’پورا سال میرا ہے مگر دسمبر میرے عیسیٰؑ کا ہے…‘‘ مجھے لگا کہ باہر ہونے والی بارش ہلکی ہلکی میرے دل پر گر رہی ہے ۔ حضرت عیٰسی ؑ سے اس کی محبت نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میرے اس سوال پر کہ اس معاشرے میں تو گناہ ثواب اورسزا وجزا پر لوگ نسبتاً کم یقین رکھتے ہیں۔ اس کا جواب مجھے اندر سے ہلا دینے کیلئے کافی تھا ’کافر گورے‘ نے کہا: ’’یہ سچ ہے کہ گناہ وثواب پر کم ازکم میرا یقین نہیں ہے لیکن میرا ’’انسانیت‘‘ پر یقین ضرور ہے‘ میں جب چیزوں کی قیمتیں کم کرتا ہوں یا کرسمس پہ سارا لندن ہر شے کی قیمت کم کر دیتا ہے تو اس سے عام آدمی کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ سارا سال جس شے کو عام آدمی صرف حسرت سے شو کیسوں میں لگا دیکھ سکتا ہے کرسمس کی برکت سے اسے استعمال بھی کر لیتا ہے۔‘‘ یہی صورتحال یورپ اور امریکہ میں بھی ہے۔ امریکہ میں ’’بلیک فرائیڈے‘‘ نامی ایک تہوار آتا ہے۔ اس دن علی الصبح دکانوں اور شوروموں کے باہر لمبی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں اور آپ یقین کریں کہ وہی شے جو سارا سال 500 ڈالر کی مل رہی ہوتی ہے عوام الناس کو کبھی کبھی 100 ڈالر سے بھی کم میں مل جاتی ہے۔ یہ ان ممالک کا چہرہ ہے جن کو کافر اور اللہ تعالیٰ کا نافرمان معاشرہ کہتے ہماری زبانیں نہیں تھکتیں‘ جن کے اخلاقی کردار پر ہم اور ہمارے دانشور سارا سال کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں‘ جن کی فحاشی اور عریانی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ان تہواروں کے موقعوں پر ان کی سخاوت کے رجحان کے علاوہ اگر ان کی تاجرانہ اقدار سے بھی موازنہ کریں تو ان قوموں کا اور ہمارا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ ہم ملاوٹ‘ چور بازاری‘ دو نمبری میں ایک نمبر ہیں اور وہ مال بنانے کے بعد بیچنے سے پہلے اس کے سارے عیب پیکنگ پر درج کر دیتے ہیں۔ کنزیومر پاور اور کنزیومر رائٹس کا جو تصور ان معاشروں میں ہے ہم جیسے نام نہاد اسلامی معاشرے والے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ وہ ایمانداری ہی ایمانداری ہیں اور ہم بے ایمانی کی غلاظتوں میں لتھڑے ہوئے لوگ… یورپ اور لندن کے کرسمس اور امریکہ کے بلیک فرائیڈے میں تاجروںکی اپنے عوام اور قوم کیلئے کی جانی والی پرخلوص محبت اور سخاوت کے بعد اب آپ پاکستان آجائیں۔ یہاں رمضان کا مہینہ‘ برکتوں والا مہینہ سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی تصور یہ ہے کہ اس مہینے میں شیاطین جکڑے جاتے ہیں اور مسلمانوں کو دل کھول کر نیکیاں کرنی چاہئیں۔ ’’صوم‘‘ یعنی روزے کا مطلب ہی رُک جانے کے ہیں۔ یعنی ہر وہ کام جو خدا اورخلق خدا کونا پسند ہو‘ یا خلق خدا کے لیے تکلیف کا باعث ہو‘ اس سے رُک جانا چاہیے مگر رمضان میں کم ازکم پاکستان میں حیرت انگیز طور پر اس کے اُلٹ مظاہرے دیکھنے کوملتے ہیں۔ ہم حکمرانوں کو بُرا کہتے نہیں تھکتے مگر یہاں عام پاکستانی‘ عام تاجر ہی اپنے بھائی کو لوٹنے پر لگا ہوتا ہے۔ رمضان سے پہلے ہی ذخیرہ اندوزی کر کے مختلف اشیاء خصوصاً اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دی جاتی ہیں ۔ مرغی سے لے کر پھلوں تک کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں کو آگ لگ چکی ہے اور رمضان کے پورے دنوں میں یہ آگ بھڑکی رہے گی۔ تمام اشیاء کی قیمتوں کا اندازہ پندرہ دن پہلے کی قیمتوں سے کر لیں‘ آپ کو ہمارے معاشرے اور نام نہاد مسلمانوں کا اصل چہرہ نظر آجائے گا۔ رنج کا مقام ہے کہ ایسے نبیﷺ کے ماننے والے جن کا دین بھوکے سو جانے والے پڑوسی کی ذمہ داری بھی ساتھ والے پر ڈالتا ہے‘ ایسے نبیﷺ کے ماننے والے رمضان میں اشیاء کا ذخیرہ کر کے مصنوعی طلب بڑھا کر اپنے ہی لوگوں کا خون چوس کر ’’عمرے‘‘ پر چلے جاتے ہیں تا کہ غریبوں کی جیب سے ایک ایک دمڑی چھین کر عجوہ اور آبِ زم زم سے لطف اندوز ہو سکیں۔ افسوس صد افسوس کہ جس ماہِ مبارک میں مسلمانوں کو انتہائی کم منافع رکھنا چاہیے تھا‘ اس میں ہم لوٹ کا بازار گرم کر دیتے ہیں۔ چاہے بڑے بڑے مل اونرز ہوں یا چھوٹی سی دکان والا عام سا تاجر‘ اس لوٹ مار میں سب اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور یہی کچھ عید کے دنوں میں کپڑوں اور جوتوں کے تاجر بھی کرتے ہیں‘ جس کی ابھی سے تیاری جاری ہے۔ کہاں کرسمس پر کافر کہلانے والے پورا مہینہ منافع کئی گنا گھٹا دیتے ہیں تا کہ ان کے وطن کا عام شہری نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکے‘ کہاں ہم رمضان کے مہینے میں اور عیدین کے قریب ہر شے پر کئی سو گنا منافع بڑھا کر لوٹ مار شروع کر دیتے ہیں تا کہ عام شہری اپنی آنکھوں میں حسرت لیے ہی اس دنیا سے چلا جائے۔ دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ’’کافر‘‘ بھی مر جائیں گے جو کرسمس میں لوٹ سیل لگا دیتے ہیں اور ہمارا وہ عام پاکستانی بھی جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتا ہے اورآج کے دور میں انگور کا ایک دانہ تک غربت کے باعث جس کی دسترس میں نہیں ہے‘ محاورتاً نہیں حقیقتاًاس کی قوت خرید سے باہر ہے‘ اسے بھی اپنی تمام حسرتوں اور خواہشوں سمیت منوں مٹی تلے دفن ہو جاناہے اور وہ پاکستانی جو اس ماہ مبارک میں لوٹ مار اور ذخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی طلب بڑھا کر کئی سو گنا منافع بنانے میں مصروف ہیں‘ چاہے وہ اربوں پتی شوگر، فلور، یا کلاتھ مل اونر ہوں یا عام تاجر‘ سب کو چلے جانا ہے‘ ختم ہو جانا ہے‘ سب کچھ چھوڑ کر دو گز کفن میں لپٹ کر دفن ہو جانا ہے۔میںایسے میں سوچتا ہوں کہ وہ ’’کافر گورا‘‘ جو کرسمس کوحضرت عیسیٰؑ کا مہینہ مانتے ہوئے دل سے سخاوت کرتا ہے‘ شاید اپنے پیغمبر کے سامنے سرخرو ہو جائے مگر جب کسی بھی سطح کا ناجائز منافع خور یا ذخیرہ اندوز مسلمان اوپر جائے گا تو اپنے آقاؐ سرورکائنات کا سامنا کیسے کرے گا…؟ انہیں کیا منہ دکھائے گا …؟؟ انہیں کیا جواب دے گا…؟؟؟ آکسفورڈ سٹریٹ کے گورے نے مسکراتے ہوئے اعتماد اور فخر کیساتھ مجھ سے کہا تھا: ’’پورا سال میرا ہے مگر دسمبر میرے عیٰسی ؑکا ہے‘‘۔ کیا ہم مسلمان جو دن رات اپنے لفظوں کے ذریعے حضرت محمدﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے‘ پورے سال کمائی کے بعد چند دنوں کے لیے اپنا منافع کم کر کے اپنے آقاﷺ کی امت کو آسانی فراہم کر کے یہ ایک مہینہ بھی محمدﷺ کے نام نہیں کر سکتے…؟؟؟ خود سوچ لیں کہ سخی کافر بہتر ہے یامسلمانوں کو ناجائز منافع سے لوٹنے والا مسلمان؟