تربیت…

اُسے سیکھنا ہو گا میں جانتا ہوں کہ ہر شخص کھرا نہیں ہوتا لیکن اُسے یہ بھی بتائو کہ ہر غنڈے کے مقابلے میں ایک ہیرو ہوا کرتا ہے ہر خود غرض سیاستدان کے مقابلے میں ایک مخلص رہنما بھی ہوا کرتا ہے اُسے بتائو کہ ہر دشمن کے مقابلے میں ایک دوست بھی ہوا کرتا ہے اُسے حسد سے دور کر دو اگر تم کر سکو تو اُسے خاموش قہقہوں کے راز کے بارے میں بتائو اس کو یہ جلد سیکھ لینا چاہیے کہ بدمعاشوں کا مقابلہ کرنا سب سے آسان کام ہوا کرتا ہے اُسے بتائو اگر تم بتا سکو تو کتابوں کے سحر کے بارے میں لیکن اُسے اتنا وقت ضرور دینا کہ وہ آسمانوں پر اُڑنے والے پرندوں کے دائمی راز، شہد کی مکھیوں کے سورج سے تعلق اور پہاڑوں سے پھوٹنے والے پھولوں پر بھی غور کر سکے سکول میں اسے بتائو کہ نقل کر کے پاس ہونے سے فیل ہو جانا زیادہ باعزت ہے اُسے بتائو کہ اپنے خیالات پہ پختہ یقین رکھے چاہے اُسے سب کہتے بھی رہیں کہ وہ غلط ہیں اسے سکھائو کہ شریفوں کے ساتھ شریف رہے لیکن ہٹ دھرموں کے ساتھ سختی سے پیش آئے میرے بیٹے کو وہ طاقت عطا کرنے کی کوشش کرو کہ جب ہر شخص بھیڑ چال کا شکار ہو رہا ہوتو وہ اس سے دور رہ سکے اسے بتائو کہ ہر شخص کی بات سنے لیکن یہ بھی بتائو کہ جو کچھ سُنے اسے سچ کی کسوٹی پر پرکھے اور جو اس میں سے صحیح اور درست ہو وہ رکھ لے اگر تم بتا سکو تو اسے بتائو کہ اداسی میں کیسے مسکرایا جاتا ہے اسے بتائو کہ آنسوئوں میں کوئی شرم نہیں اسے بتائو کہ منفی سوچ رکھنے والوں کو خاطر میں مت لائے اور خوشامد اور بہت زیادہ مٹھاس سے ہوشیار رہے اسے بتائو کہ اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا بہترین معاوضہ وصول کرے لیکن کبھی بھی اپنی روح اور دل کو بیچنے کے لیے نہ لگائے اسے بتائو کہ شور مچاتے ہوئے ہجوم کی باتوں پر کان نہ دھرے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ وہ صحیح ہے تو اپنی جگہ پر قائم رہے، ڈٹا رہے اس سے شفقت سے پیش آئو مگر پیار اور دلار مت کرو کیونکہ یاد رکھو کہ خام لوہے کی بھڑکتی ہوئی آگ ہی فولاد بنایا کرتی ہے اس میں اتنا حوصلہ بھردو کہ وہ وقت پڑنے پر عجلت میں فیصلہ کر سکے اور خود میں اتنی ہمت بھی پیدا کرے کہ صبر کر سکے اسے ہمیشہ سکھائو کہ خود پر انتہائی درجہ کا اعتماد رکھے کیونکہ تبھی وہ انسانیت پر انتہا درجہ کا اعتماد رکھ سکے گا یہ ایک مشکل کام ہے لیکن دیکھتے ہیں کہ تم کیا کر سکتے ہو میرا معصوم بیٹا بہت ہی پیارا ہے ………… اوپر درج کیا گیا خط تاریخ میں معروف امریکی صدر ابراہم لنکن کے نام سے منسوب ہے۔ میں نے پہلے بھی کہیں انگریزی میں لکھے گئے اس خط کا بامحاورہ ترجمہ اپنے قارئین کے لیے پیش کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابراہم لنکن کے اس خط کو کچھ لوگ ابراہم لنکن کا خط تسلیم کرنے کے بجائے اس کا origin ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بھارت میں تلاش کرتے ہیں مگر اس وقت ہمارا موضوع اس خط کے مندرجات اور اس کی روح ہے اس کی تاریخ نہیں… حضرت علیؓ کا فرمان یاد آیا ’’کہ یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔‘‘ سو یہ خط اوریجنلی ابراہم لنکن کا ہو یا ساٹھ ستر کی دہائی میں بھارت میں رہائش پذیر کسی استاد کے قلم کا شاہکار مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ یہ تحریراور اس کا متن ماسٹر پیس آف لٹریچر ہے۔ حکیم محمد سعید مرحوم اکثر کہا کرتے تھے کہ ہم بچوں کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں مگر ان کی تربیت پر نہیں… کہ تربیت ہوتی تو شاید حکیم سعید جیسی ہستیاں اس ملک میں قتل نہ ہوا کرتیں۔ تکلیف کی بات ہے لیکن اگر ہماری قوم کی مائوں نے ہمارے بچوں کی اچھی تربیت کی ہوتی تو معاشرے میں ایسے سیاستدان، بیوروکریٹ، جج، جرنیل، صنعت کار، جاگیر دار، بزنس مین نہ پیدا ہوئے ہوتے جو ہمیں آج بھی خاک میں ملا کر ہمیں اور اس ملک کو باقاعدہ ناک سے لکیریں نکلوا رہے ہیں۔ آنکھوں پہ صرف معاشیات کی عینک لگا کر زندگی کو صرف مالی مفادات کی تکڑی پہ تولنے والی ہم جیسی بیس کروڑ نفوس کی قوم کو یہ خط ایک آدھ بار یا ہزاروں بار نہیں بلکہ لاکھوں بار پڑھنے کی اور خود پر اور اپنے بچوں پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اس خط میں ہر عہد کا نوحہ اور المیہ بھی ہے اور اس سے بچ نکل آنے کی صورت بھی۔ اس خط میں ریاضت و محنت سے لے کردیانت و حکمت اور مال ودولت سے لے کر ایثار ومحبت تک زندگی کے ہر اس رُخ پہ روشنی ڈالی گئی ہے جو بشر کو انسان اور انسان کو خوبصورت انسانوں میں بدل دیتی ہے۔ کاش ہم‘ ہماری قوم کی مائیں‘ ہمارے رہنما‘ ہمارے دانشور‘ ہمارے اساتذہ ایسا معاشرہ تشکیل دے سکیں جس میں ہماری نسلوں میں وہ اوصاف پائے جا سکیں جن کی نشاندہی اس خط میں کی گئی ہے مگر یہ تبھی ہو گا جب ہم تعلیم کے ساتھ ساتھ من حیث القوم ’’تربیت‘‘ پر بھی توجہ دیں گے ورنہ جو ڈرامے اور ڈرامہ گیریاں اس مملکتِ پاکستان میں پچھلے 65 برسوں سے چل رہی ہیں مزید 65سو سال تک ایسے ہی چلتی رہیں گی۔ تربیت کے بغیر تعلیم ایسے ہی ہے جیسے روشنی کے بغیر بلب‘ جیسے چاندنی کے بغیر چاند‘ جیسے تپش سے خالی کوئی سورج‘ جیسے سُر کے بغیر ساز‘ جیسے سوز اور لوچ سے محروم آواز‘ جیسے پانی کے بغیر راوی۔ بقول شکیب… ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں