یہاں اس کونے میں ’’بگل‘‘ والے کھڑے ہو کر بادشاہ کی آمد کا اعلان کیا کرتے تھے چوبدار بادشاہ کے آگے آگے چلا کرتے تھے… یہاں دربار لگتا تھا… لوگوں کی قسمتوں کے فیصلے ہوا کرتے تھے۔ کبھی کھال اُدھڑوا دی جاتی تھی کبھی گردنیں اُتار دی جاتی تھیں… یہ، یہ اس طرف دیکھیے یہ دیوار پر کتنا باریک ’’کام‘‘ ہوا ہے پہلے کلیاں ہیں اور پھر پھول کھلتے نظر آرہے ہیں مصوروں نے دیواروں پر بہاروں کے ایسے مناظر نقش کیے تھے کہ قلعہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے مگر ان کلیوں پر ابھی تک بہار ہے… یہ جس کمرے میں آپ اب داخل ہوئے ہیں جس کی اب چھت باقی نہیں ہے اور پلستر جگہ جگہ سے اُکھڑ چکا ہے اس میں سوائے بادشاہ کے کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوا کرتی تھی… یہ بادشاہ کا کمرئہ ِ خاص ہوا کرتا تھا۔ میں اور میرے دو دوستوں نے مسکرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اس فخر کو محسوس کیا جس کا احساس ہمیں گائیڈ دلانا چاہ رہا تھا… اسی تفاخر کے ساتھ میں نے کمرۂ خاص کی اُڑی ہوئی چھت کے بقیہ حصے پرنگاہ ڈالی تو ایک چمگادڑ چلاتی ہوئی اپنے بڑے بڑے سیاہ وبدنما پَر پھیلائے اس کمرۂ خاص سے رخصت ہو رہی تھی جس میں کبھی صرف حسین ترین کنیزوں کو طلب کیا جاتا تھا۔ میں دیدۂ عبرت نگاہ لیے کبھی اکیلے کبھی احباب یا اہلِ خانہ کے ساتھ شاہی قلعہ لاہور چلا جایا کرتا ہوں۔ قلعے کی ٹوٹی پھوٹی دیواروں کے ساتھ ساتھ نور محمد گائیڈ سے بھی خاصی دوستی ہو چکی ہے ۔ اس شام بھی ہمیشہ کی طرح نور محمد گائیڈ بھرپور طریقے سے اپنی چرب زبانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قلعے میں بکھرتی ہوئی یادوں اور ٹوٹی ہوئی اینٹوں سے تاریخ میں دفن ہو جانے والی تصویروں پہ اٹی گرد جھاڑ رہا تھا ۔نور محمد گائیڈ نے ہمیشہ کی طرح فخریہ انداز میں دعویٰ کیا کہ اس قلعے کے بارے میں وہ ایسے ایسے راز جانتا ہے جس سے نور محمد کے علاوہ شاید ہی کوئی آشنا ہو… ’’یہاں سے بادشاہ کی سواری ہاتھی پر آیا کرتی تھی… یہاں خدام بادشاہ کے پیروں تلے ہاتھ رکھا کرتے تھے اس کے لیے جھک جاتے تھے تا کہ بادشاہ آرام اور سہولت کے ساتھ غلاموں کے ہاتھوں اور کمر پر پائوں رکھ کر نیچے زمین پر اُتر سکے۔ ’’یہ اس طرف بادشاہ سلامت غسل فرمایا کرتے تھے‘‘ میں نے جھانک کر دیکھا تو اس گہری سی حوض نما جگہ میں جانے کہاں سے اسی وقت ایک چھوٹا سا سانپ بے شمار بکھری ہوئی چیونٹیوں سے بچتا ہوا ایک سوراخ سے نکل کر دوسرے میں جا گھسا… میں گائیڈ کی توجہ اس جانب دلانا چاہتا ہی تھا کہ وہ میرے دوستوں سمیت آگے بڑھ گیا۔ ’’یہ… یہ دیکھیے ملکہ عالیہ کے سونے کے کمرے…‘‘ یہاں یہ جو پیلے زرد رنگ کا سنگ مرمر آپ کو نظر آرہا ہے ناں جس پر ’’پان کی پیکوں‘‘ کے نشان ہیں… یہ خاص کابل سے منگوایا گیا تھا… اور یہ پورا پورا پیس تھا… اب تو اُکھڑ گیا ہے مگر جب یہ مکمل تھاتو کہتے ہیں آئینے کی طرح یوں ’’شفاف‘‘ تھا کہ کنیزیں اس میں اپنا چہرہ دیکھ کر بال سنوار لیا کرتی تھیں…‘‘ میرے دوست سے رہا نہ گیا اس نے پوچھ ہی لیا ’’مگر یہ تو بہت زرد رنگ کا انتہائی بدنما سا پتھر ہے…‘‘ ’’صاحب یہ ہمیشہ ایسا تھوڑی تھا سفید ’’بُراق‘‘ کی طرح ہوا کرتا تھا یہ سفید ’’براق‘‘ کی طرح‘‘ گائیڈ نے وضاحت کی… اور پھر مسکراتے ہوئے بولا… آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ملکہ عالیہ کے سونے کے دو کمرے کیوں ہوا کرتے تھے… یہ جھروکے دیکھ رہے ہیں آپ جب مشرق سے ہوا چلتی تھی تو ملکہ عالیہ اس کمرے میں ’’استراحت‘‘ فرماتی تھیں اور جب ہوائوں کا رُخ جنوب کی جانب سے ہوا کرتا تھا تو ملکہ عالیہ دوسرے کمرے میں چلی جایا کرتی تھیں… یہ، یہ جو ٹوٹی ہوئی دیوار سی نظر آرہی ہے یہ قید خانے ہوا کرتے تھے… یہاں قیدیوں کے کپڑوں میں چوہے چھوڑ دیے جاتے تھے اور منہ پر غلاظت باندھ دی جاتی تھی تا کہ وہ آئندہ بادشاہ کے خلاف کبھی ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکیں…اور پتہ ہے صاحب بادشاہ سلامت جس سے خوش ہو جایا کرتے تھے اس کو سونے چاندی کی اشرفیوں میں تول دیا کرتے تھے… میرے دوست نے سرگوشی کی ’’ایسے ہی جیسے آج دوست احباب کو پرمٹوں اور بڑی کارپوریشنوں کے اعلیٰ عہدوں سے نوازا جاتا ہے ۔‘‘گائیڈ کی گفتگو نے ہمیں دوبارہ اپنی طرف متوجہ کر لیا ’’بادشاہ اور ملکہ کے شبستانوں میں غلاموں کو آنے کی اجازت نہیں ہوا کرتی تھی صرف کنیزیں یا خواجہ سرا آ،جا سکتے تھے… ‘‘ یہ جو سنگ مرمر کی سلیں آپ کو نظر آرہی ہیں ناں جس پر کھڑاہو کر بچہ پیشاب کر رہا ہے یہ ’’بادشاہ سلامت‘‘ کا ’’تخت‘‘ ہوا کرتا تھا… شہنشاہِ معظم… عالم پناہ… عالیجاہ… صاحبِ عالم اسی تخت پر بیٹھا کرتے تھے… اوریہ ’’شیش محل‘‘ اس کے بارے میں تو آپ نے سُن ہی رکھا ہو گا۔ میرے دوست گائیڈ کی باتوں میں گم تھے جو انہیں بتا رہا تھا کہ ’’سینکڑوں کنال‘‘ پر واقع ’’شاہی قلعے‘‘ میں اور کیا کیا تھا، ’’رنجیت سنگھ‘‘ سے پہلے کیا تھا اور بعد میں کیا ہوا… اور میں قلعے کے ’’کھنڈرات‘‘ کو دیکھ کر اندر سے کانپ رہا تھا کہ اسے آباد کرنے والوں کا غرور،تکبر، شان وشوکت، حسب نسب ہر شے کھنڈرات میں بدل چکی تھی بہار کا روپ دکھاتی گلاب کی پتیوں پر جگہ جگہ سے کُھر چن کے باعث خزاں آچکی تھی… شام گہری ہو چکی تھی کہ ایسے میں ایک ’’اُلو‘‘ پھڑپھڑاتا ہوا بادشاہ سلامت کے ’’شبستانِ خاص‘‘ کو چھوڑ کر کہیں اور نکل گیا… وہ جگہ جہاں کبھی انسانوں کو بھی جانے کی اجازت نہ تھی ایسی ویران ہوئی ہے کہ اُلو اب بڑے شوق سے وہاں بسیرا کرتے ہیں ۔ الٰہی کوئی ویرانی سی ویرانی ہے یہ تو تھا مغلوں کے قلعے کا حال… رہ گیا مغلوں کا جاہ وجلال تو وہ اب ’’ مغل حلیم‘‘ اور ’’مغل بریانی‘‘ میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ واپسی کے سفر میں ہمیشہ کی طرح قلعے سے نکلتے ہوئے ایک اداسی ماحول پہ تھی ایک ہم پہ… میں سوچ رہا تھا کہ کیا بلاول ہائوس، رائے ونڈ فارمز، لیڈروں کے تین تین سو کنال کے گھر، ایفی ڈرین تاای او بی آئی کی کرپشن سے بنائی ہوئی جائیدادیں … جاگیرداروں، سرمایہ داروں، صنعتکاروں، گیلانیوں، قریشیوں، مزاریوں، لغاریوں کے ایکڑوں پر پھیلے ہوئے غریب کی غربت کا مذاق اُڑاتے ’’محل‘‘اور ’’قلعے‘‘، مغلوں کی بنائی ہوئی عمارتوں سے زیادہ مضبوط ہیں؟؟؟؟ یہ کب تک قائم رہ پائیں گے…؟؟؟؟کب کھنڈر میں بدل جائیں گے کوئی نہیں جانتا…اور کیا ان کے کھنڈرات میں بھی کھڑے ہو کر یونہی آئندہ نسل کا کوئی بچہ…؟؟؟؟ یا ان کھنڈرات کو ’’اس قابل‘‘ بھی نہیں سمجھے گا…؟؟؟؟؟