ستر سال کا ہجر اور ’’گلزار‘‘صاحب (آخری حصہ)

میں جانتا تھا کہ وہاں موجود کوئی بھی شخص ان قہقہوں کو نہیں سن سکتا ہو گا۔ نہ ان آنسوئوں کی چاپ محسوس کر سکتا ہو گاجنہیں گلزار صاحب ستر سال سے کانوں میں پہنے ہوئے ہیں۔ مجھے لگا کہ اس گھر میں ستر سال سے انتظار کرتی ہوئی یادیں اور آوازیں گلزار کو خدا حافظ کہہ رہی ہیں۔ گلی کا آخری موڑ مڑتے ہوئے گلزار صاحب نے مڑ کر پیچھے رہ جانے والے اپنے ماضی اور گھر کے ان کواڑوں پر آخری نگاہ ڈالی جنہوں نے آج تک گلزار سے پیٹھ نہیں پھیری تھی اور ان کواڑوں کے بازو ستر سال سے گلزار کی راہ دیکھتے ہوئے یوں پھیلے ہوئے تھے کہ شل ہو گئے۔ صاف لگ رہا تھا کہ نظر نہ آنے والی یادوں اور آوازوں نے ان کا دامن تھام رکھا ہے۔ گلزار کے لیے اپنے گھر سے نظریں چھڑانا مشکل ہو رہا تھا۔ دل کا سارا کرب گلزار صاحب کے چہرے پر سردیوں کی اداس شاموں کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ستر سال کے سفر کے بعد اپنی جنم بھومی پہ پہنچنے والے گلزار کو اچھی طرح خبر تھی کہ وہ شاید زندگی میں دوبارہ کبھی اپنی جنم بھومی سے ملاقات نہیں کر پائیں گے‘ اسی لیے گلزار آخری مرتبہ اپنے گھر‘ اپنی گلی کو جی بھر کر دیکھ لینا چاہتے تھے۔ مگر پل بھر میں، جی بھر کر کچھ کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔ سو بھرے بھرے جی اور بوجھل قدموں کے ساتھ گلزار نے اپنے گھر سے بندھے ہوئے اپنی نظروں کے تار توڑے… ایسی آواز آئی جیسی کسی پھول کے شاخ سے ٹوٹنے پہ آیا کرتی ہے۔ یہ آواز سن کر پاس کہیں بوڑھے برگد پر بیٹھے ہوئے برسوں پرانے پرندے کبھی نہ واپس آنے کے لیے اُڑ گئے۔ پھر میں نے دیکھا کہ اپنی گلی کے آخری موڑ سے لے کر گاڑی تک گلزار صاحب کے قدم انتہائی تیز ہو گئے تھے ۔ گاڑی کے پاس پہنچنے تک انہوں نے دوبارہ پیچھے مڑ کر دیکھا نہ قدموں کی تیزی میں کوئی کمی آئی‘ جیسے گلزار کو ڈر ہو کہ اب اگر مڑ کے دیکھیں گے یا آہستہ چلیں گے تو پتھر کے ہو جائیں گے۔ لوگ انہیں ہاتھ ہلا کر ان کے دامن سے دعائیں باندھ کر انہیں الوادع کہہ رہے تھے۔ لوگ ’’دینے‘‘ سے رخصت ہوتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے ہوئے گلزار کو تو دیکھ سکتے تھے مگر نہیں جانتے تھے کہ گلزار صاحب اپنا وجود تو ’’دینے‘‘ کی اس گلی سے اٹھا کر لے آئے تھے مگر اپنی روح اسی گلی کے ایک چھوٹے سے گھر میں منتظر سمپورن سنگھ کے ساتھ کھیلنے کے لیے چھوڑ آئے تھے تا کہ ستر سال سے اس گھر میں اکیلے زندگی گزارتے ہوئے سمپورن سنگھ کی تنہائی دورہو سکے۔ ’’دینے‘‘ کے اس گھر میں اب شاید سمپورن سنگھ کو تو گلزار میسر آگیا ہو گا مگر واپسی کے سفر میں خاموش بیٹھے ہوئے گلزار کو سمپورن سنگھ کے بغیر ہی ہندوستان جانا تھا۔ یوں لگا کہ ستر سال بعد گلزار ’’دینے‘‘ میں اپنے ’’سمپورن سنگھ‘‘ کو واپس لے جانے آئے تھے مگر جاتے ہوئے ’’گلزار‘‘ کو بھی ’’سمپورن سنگھ‘‘ کے پاس چھوڑ گئے۔ واپسی کے سفر میں میں سوچ رہا تھا کہ میں لاہور میں رہتا ہوں اور میرا شہر سرگودھا مجھ سے صرف ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پر ہے مگر میں ڈھائی دن سے زیادہ اس کی دوری برداشت نہیں کر پاتا‘ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اپنے شہر کی خاک چومنے پہنچ جاتا ہوں تو جو شخص ستر سال بعد اپنی جنم بھومی سے مل رہا ہو‘ وہ بھی انتہائی مختصر وقت کے لیے اور اس مختصر وصل میں بھی اسے وہ تنہائی میسر نہ ہو‘ وہ اپنی دیواروں، گلیوں، چھتوں سے کھل کر باتیں تک نہ کر پائے‘ جن درختوں سے اس کی یادوں کے گھونسلے لٹک رہے ہوں ان درختوں کو گلے تک نہ لگا پائے‘ اس کے دل پر کیا بیت رہی ہو گی۔ ستر سال کے فراق کے بعد گلزار کو اپنے ’’دینے‘‘ کا جو وصل نصیب ہوا‘ وہ سات گھنٹوں سے بھی کم دوراینے کا تھا… کہاں ستر سال کا قدیم فراق … کہاں سات گھنٹے سے بھی کم کا وصل… اور اس میں بھی شاید وہ نہ جی بھر کر اپنے ’’دینے‘‘ کو دیکھ پائے نہ اس سے وہ باتیں کر پائے جو برسوں سے گلزار کے دل میں ناگفتہ رہی ہوں گی۔ وہ خوشیاں شیئر نہ کر پائے جنہوں نے یہاں سے جانے کے بعد سمپورن سنگھ کو گلزار بنایا ۔ درودیوار سے وہ دکھ نہ کہہ پائے جو ’’دینے‘‘ کی جدائی کے بعد ان کے حساس دل کو زخمی کرتے رہے… بملدا، مینا کماری، راکھی، بوسکی… کسی کے بارے میں بھی تو بات نہیں کر سکے اپنے ’’دینے‘‘ سے… نہ ’’دینے ‘‘ سے کچھ پوچھ سکے… نہ ’’دینے‘‘ کے خاموش سوالوں کا جواب دے سکے: یہ جو چہرے سے تمہیں لگتے ہیں بیمار سے ہم خوب روئے ہیں لپٹ کر دَر و دیوار سے ہم افسوس! ستر سال کے ہجر کے بعد ’’دینے‘‘ کا جو وصل گلزار کو نصیب ہوا اس میں وہ دینے سے مل کر نہ کُھل کے ہنس پائے… نہ کُھل کے رو پائے… دینے سے واپس لاہور پہنچنے پر ہوٹل میں بانوآپا کا ناول راجہ گدھ گلزار صاحب کو تھماتے ہوئے جب میں نے انہیں گلے لگایا تو یوں لگاکہ جیسے ان کا اداس دل میرے دل سے سرگوشی میں کہہ رہا ہے کہ ’’دینے‘‘ سے ملاقات کی خواہش تو ضرور پوری ہوئی مگر جو اَن کہی اَن سُنی باتوں کی نئی حسرتوںنے جنم لیا ہے‘ شاید گلزار کی وہ حسرتیں کبھی نہ پوری ہو پائیں۔ ’’دینے‘‘ سے گلزار کی ملاقات تو ہوئی مگر مجھے لگا کہ ایک تشنگی آئندہ ساری عمر حساس دل رکھنے والے گلزار کو تڑپاتی رہے گی۔ اور وہی ہوا’’ دینے‘‘ والے visit کے کچھ عرصے بعد جب پچھلے دنوں گلزار صاحب دوبارہ پاکستان تشریف لائے تو راحت فتح علی خان ، میاں یوسف صلاح الدین اور حسن ضیاکے ہمراہ لاہور اور کراچی میں ان سے ہونے والی کئی ملاقاتوں کے دوران ’’دینے‘‘ کے سفر کی یادیں گفتگو پر چھائی رہیں۔ کالم ختم کر رہا تھا تو حسن نے مجھے اپنے موبائل سے بنائی ہوئی گلزار صاحب کی اس نظم کی ویڈیو بھیجی جو ’’دینے ‘‘کے سفر کے بعد تخلیق ہوئی ہے ۔ غالباً یہ نظم ابھی کہیں چَھپی بھی نہیں۔ نظم نپے قدموں سے چلتے چلتے واہگہ پر میں زیرو لائن پر آکرکھڑا تھا جب میری پرچھائیں پاکستان میں تھی میرے پیچھے تھا سورج میرے آگے میرے ابو کھڑے تھے مجھے دیکھا ،چھڑی ٹیکی زمیں پر ،مسکرائے اور بولے وہاں جب مٹی چھوڑی تھی میں اپنے گھر چلا آیا تھا پُنی میرے ابو مجھے پُنی بلاتے تھے مجھے امید تھی تم آئو گے پُنی کہ میرے انت کی تم کو خبر پہنچی نہیں تھی بس اِک وقفہ ٹھٹھر کے رہ گیا تھا چھڑی کو کھٹکھٹایا پھر زمیں پر بڑھا کر ہاتھ بولے ،چلو دینے چلیںگے میرے احباب جو واہگہ پہ لینے آئے تھے مجھ کو پکڑ کے ہاتھ میرا لے گئے لاہور مجھ کو وہاں کے شور وغل میں پھر کوئی آواز کانوں میں نہیں آئی مگر سناٹے کا ایک راستہ تھا جو دکھائی دے رہا تھا وہ رستہ دینے جا تا تھا بہت چھوٹا سا قصبہ تھا کبھی وہ بہت چھوٹا سا گتے کا بنایا ایک اسٹیشن تھا وہاں سب گاڑیاں رکتی نہیں تھیں مگر وہ لام کے دن تھے وہی رکتی تھیں جن میں فوجیوں کے ڈبے ہوتے تھے دھواں دکھتا تھا گاڑی کا تو دوڑآتا تھا اسٹیشن پر اسی میں ابو ہٹی کے لیے سامان لے کر لوٹا کرتے تھے بس اک بازار تھا ،اک ٹالیوں والی سڑک بھی تھی ،وہ اب بھی ہے مدرسہ تھا جہاں میں ٹاٹ کی پٹی بچھا کر تختی لکھتا تھا گلی بھی تھی ،وہ جس کا اک سرا کھیتوں میں کھلتا تھا وہ دیواریں ٹٹولیں ،کوئلے سے جن پہ اردو لکھا کرتا تھا مجھے امید تھی ،کوئی میری انگلی پکڑ لے گا ،مجھے ہجے سکھائے گا مگر کوئی نہیں آیا میں شاید چھوڑ آیا تھا وہیں واہگہ پہ ان کو میں لوٹ آیا میں زیرو لائن پہ آکر کھڑا ہوں مرے پیچھے میری پرچھائی ہے، آواز دیتی ہے وہاں جب مٹی چھوڑو گے ،چلے آنا تمہارا گھر یہیں پر ہے تمہاری جنم بھومی ہے، وطن ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں