پیارے مُردو! بیشک آپ اخبار نہیں پڑھ سکتے لیکن آپ کی رُوحیں یقینا یہ شوق کرتی ہوں گی تاکہ وہ اس دنیا سے بے خبر نہ رہیں جسے وہ چھوڑ کر آئی ہیں اور ظاہر ہے کہ مرحومین کی کسی بھی طرح خدمت کرنا کس قدر مناسب اور نیکی کا کام ہے؛ چنانچہ اخبار میں اور پڑھے لکھے مُردہ خواتین و حضرات کی رُوحوں کے تسکینِ ذوق کے لیے یہ سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے کیونکہ زودیا بدیر ایک دن ہم نے بھی اس دنیائے دُنی کو داغِ مفارقت دے جانا ہے؛ چنانچہ ہم اپنی روح کے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے بھی اس صفحے کا آغاز کر رہے ہیں نیز یہ ان افراد کے لیے بھی کارآمد ہے جو بظاہر تو زندہ لیکن موت سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں یا مرنے سے پہلے بھی کئی بار مرتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ صفحہ امید ہے کہ ان عُشّاقِ کرام کو بھی پسند آئے گا جو اپنے محبوب پر سو سو جان سے مرتے ہیں نیز زندہ درگور ہستیوں کے لیے بھی ہماری یہ کاوش مقبول و منظور ہو سکتی ہے یعنی مر مر کے جینے والوں کے لیے یہ صفحہ ایک تحفے کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے، حتیٰ کہ نیم مردہ افراد بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ (ادارہ ہذا) سبق آموز واقعات ٭ مرنے کے بعد دو انگریز جب عالم بالا میں پہنچے تو ایک نے دوسرے سے پوچھا، تمہاری موت کس طرح واقع ہوئی تو اس نے جواب دیا کہ میں تو سردی لگنے سے مرا ہوں اور تم؟ اس پر دوسرے نے جواب دیا کہ میں حیرت سے مر گیا تھا۔ پہلے نے تفصیل چاہی تو دوسرے نے بتایا کہ میں ایک دن دفتر سے خلاف معمول جلدی فارغ ہو کر جب گھر کے قریب آیا تو میں نے ایک غیر شخص کو گھر میں داخل ہوتے دیکھا۔ میں جلدی جلدی گھر پہنچا اور گھنٹی دی تو میری بیوی نے دروازہ کھولا۔ میں نے اس سے پوچھا وہ آدمی کون تھا جو تھوڑی دیر پہلے اندر آیا تھا تو بیوی نے کہا کہ اندر تو کوئی آدمی نہیں آیا جس پر میں نے سارے گھر کی تلاشی لی اور چھت پر بھی گیا لیکن وہ آدمی دستیاب نہ ہوا حالانکہ میں نے خود اسے گھر میں داخل ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا چنانچہ اس حیرت سے ہی میری موت واقع ہو گئی جس پر دوسرے نے کہا، کم بخت، اگر فریج کھول کر دیکھ لیتے تو ہم دونوں کی جان بچ سکتی تھی! ٭ ایک بہت گنہگار شخص جب مر کر عالمِ بالا میں پہنچا تو وہ چونکہ سخت ترین سزا کا حق دار تھا، اس لیے فرشتے نے کہا کہ اسے دوزخ کے اس حصے کے عقب میں پھینک دیا جائے جہاں فلاں ڈکٹیٹر، جرنیل اور الزبتھ ٹیلر کو رکھا گیا ہے جس پر شخص مذکور نے کہا کہ مجھے بھی وہیں پھینک دیا جائے کیونکہ میں جنرل صاحب جتنی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں جس پر اسے بتایا گیا کہ وہ سزا جنرل صاحب کے لیے نہیں بلکہ الزبتھ ٹیلر کے لیے ہے! ٭ مرنے کے بعد ایک شخص کا نامۂ اعمال دیکھا جا رہا تھا تو یہ معلوم ہوا کہ اس کی موت کا کہیں اندراج ہی نہیں ہے؛ چنانچہ جب سارے رجسٹروں کی جانچ پڑتال کی گئی تو یہ مسئلہ حل ہوا، لیکن فرشتے نے اسے کہا کہ ہمارے ریکارڈ کے مطابق تم نے پانچ سال بعد مرنا تھا، تمہارا ڈاکٹر کون تھا؟ ٭ مرنے کے بعد جب ایک شخص کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم ہوا تو اس نے کہا کہ میں نے تو کئی نیکیاں بھی کی ہوئی ہیں، اس لیے مجھے دوزخ میں نہ ڈالا جائے، جس پر اس سے ان نیکیوں کی تفصیل پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ میں نے ایک بار ایک یتیم بچے کو دو روپے کا ایک قاعدہ خرید کر دیا تھا۔ دوسری نیکی اس نے یہ بتائی کہ ایک بار ایک بڑھیا سردی سے ٹھٹھر رہی تھی تو میں نے دو روپے کے پرانے اخبار خرید کر اسے جسم ڈھانپنے کے لیے دیے تھے۔ فرشتے نے پوچھا، بس؟ جس پر اس شخص نے کہا، ہاں یاد آ گیا، میں نے ایک فقیر کو ایک روپیہ خیرات میں بھی دیا تھا۔ اس پر حکُم دیا گیا کہ اسے پانچ روپے دے کر دوزخ میں پھینک دیا جائے! ٭ ایک بہت موٹا آدمی بالکونی میں بیٹھا نیچے بازار کا نظارہ کر رہا تھا کہ توازن بگڑنے پر نیچے آ رہا۔ تیسرے دن ہسپتال میں جب اسے ہوش آیا تو اس نے سرہانے کھڑی نرس سے پوچھا، کیا میں زندہ ہوں؟ جس پر نرس بولی کہ تم تو زندہ ہو لیکن جن تین آدمیوں پر تم گرے، وہ اُسی وقت انتقال کر گئے تھے! ٭ ایک صاحب بہت بیمار پڑ گئے اور جب قریب المرگ ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ موت کا فرشتہ ان کے سرہانے کھڑا ہے۔ وہ خوفزدہ ہو کر پائنتی کی طرف سر کرکے لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے دیکھا کہ فرشتہ اس طرف بھی سر پر آ کھڑا ہوا ہے۔ وہ جھٹ سرہانے کی طرف ہو کر لیٹ گئے۔ انہوں نے آٹھ دس مرتبہ اسی طرح کیا تو اہل خانہ نے سمجھا کہ موصوف پاگل ہو گئے ہیں جو اس طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں؛ چنانچہ انہوں نے رسّی سے جکڑ کر انہیں چارپائی کے ساتھ باندھ دیا جس پر وہ فرشتے سے مخاطب ہو کر بولے، میں مرتا تو نہیں تھا لیکن گھر والوں نے مجھے باندھ کر مار دیا ہے!