دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہاررہی ہے… صدر زرداری صدرآصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہاررہی ہے‘‘ اور ہم بھی چونکہ دنیا سے علیحدہ اور مختلف نہیں ہیں، اس لیے آئندہ انتخابات کی جنگ ہم بھی ہارتے نظر آتے ہیں، اور، اپنے پیر کی کرامات کے منتظر ہیں کہ الیکشن ملتوی ہوجائیں یا بیچ میں کوئی اور رولا پڑ جائے جبکہ میں نے اتنے دن پہاڑوں سے دور اور سمندر کے قریب رہ کربھی ان کے حکم کی تعمیل کردی ہے، تاہم کوئی خاص امید نظر نہیں آتی اور اوپر سے مجھے تحفے میں دیئے گئے محل کی قانونی حیثیت کو بھی ایل ڈی اے والوں نے چیلنج کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عالمی برادری کا دہشت گردی سے نمٹنے کا طریقہ درست نہیں‘‘ جس کے لیے اسے بڑے بھائی صاحب کا نسخہ استعمال کرنا چاہیے تھا جس کی وجہ سے پنجاب میں دہشت گردی کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اور مفاہمت کا یہ طریقہ انہوں نے خاکسار ہی سے سیکھا ہے جس کی ایجاد میری اپنی ہی مرہونِ منت ہے ورنہ یہ نسخہ کیمیا کسی کے علم ہی میں نہیں تھا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ امریکہ ایڈ کی بجائے ٹریڈ پر توجہ دے…نواز شریف قائدانقلاب کامریڈ نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’امریکہ ایڈ کی بجائے ٹریڈ پر توجہ دے‘‘ کیونکہ ٹریڈ جتنی برکت کسی چیز میں نہیں ہے بشرطیکہ آپ کے پاس اقتدار بھی ہو جسے کاروبار کے ساتھ ملا کر دنیا کا سب سے بڑا معجزہ برپا کیا جاسکتا ہے اور آن کی آن میں ایک کی بجائے 26کارخانے وجود میں لائے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’امریکہ اعتماد کے ماحول میں کام کرے‘‘ اور خاکسار پر بھی اعتماد کرے جو کامیاب ہوکر اس کے ساتھ اعتماد کے ماحول میں کام کرنے کو تیار ہے اور اس پرانی بات کو بھول جائے کہ میں نے اس کی مخالفت کے باوجود ایٹمی دھماکہ کردیا تھا کیونکہ وہ کام فوج کے مجبور کرنے پر کیا گیا تھا اور اس عاجز کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے کہ میں تو ایک امن پسند آدمی ہوں اور زندگی میں کبھی پٹاخہ بھی نہیں چلایا بلکہ شب برات والے دن بھی کانوں میں انگلیاں دے کر ہی بیٹھا رہتا تھا کہ کہیں کسی پٹاخے کی آواز کان میں نہ پڑ جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’امریکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی خدمات کو تسلیم کرے‘‘ اور ساتھ ساتھ اس عاجز مسکین کو بھی یاد رکھے ، خدا خدا کرکے جس کی باری آنے والی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے نومنتخب چیئرمین سینیٹر رابرٹ مینڈیز سے ملاقات کررہے تھے۔ روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے پر الیکشن لڑیں گے …بشریٰ اعتزاز پیپلزپارٹی کی رہنما بشریٰ اعتزاز نے کہا ہے کہ ’’ہم روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے پر الیکشن لڑیں گے‘‘ اور انشاء اللہ قیامت تک اسی نعرے پر الیکشن لڑتے رہیں گے کیونکہ روٹی، کپڑا اور مکان عوام کی قسمت ہی میں نہیں لکھا ورنہ اس نعرے پر اتنے الیکشن لڑنے کے بعد اب تو عوام کو یہ سہولت میسر آچکی ہوتی، تاہم ’’ٹرائی، ٹرائی اگین‘‘ کے مقولے کے مطابق ہم اپنی سی کوشش کرتے رہیں گے ، اگرچہ اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے زعماء کامیاب ہونے کے بعد اپنے روٹی کپڑے کی فکر میں لگ جاتے ہیں اور مکان مخیر حضرات بناکر بطور تحفہ دے دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور میں ادارے مستحکم ہوئے‘‘ جبکہ عدلیہ کو مستحکم اور مضبوط کرنے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ’’خواتین کے لیے خصوصی منصوبے شروع کیے گئے‘‘ جن میں مجھے پارلیمنٹ میں پہنچانا بطور خاص شامل ہے کیونکہ اعتزاز تو پہلے ہی سینیٹر ہیں اور وہ استعفیٰ دے کر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا رسک نہیں لے سکتے کیونکہ ’’آدھی ملے، ساری کو جائے، ساری ملے نہ آدھی پائے‘‘ کے مقولے پر عمل کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے جبکہ میں نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا ہے کیونکہ ہر کامیاب آدمی کے پیچھے کوئی عورت ہوتی ہے تو ناکام آدمی کے پیچھے بھی عورت کا ہونا ضروری ہے۔ آپ اگلے روز‘ روزنامہ ’’دنیا‘‘ کو انٹرویو دے رہی تھیں۔ میرا خواب قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ سے مختلف نہیں …طاہرالقادری تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ’’میرا خواب قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ سے مختلف نہیں‘‘ بلکہ میں خود بھی ان سے مختلف نہیں ہوں لیکن اس ناقدری قوم کو اس کا احساس ہی نہیں ہے بلکہ میرے خواب تو ان سے بھی مفید اور بہتر ہوتے ہیں جن سے مجھے ہرطرح کی بشارت ہوتی رہتی ہے جبکہ علامہ اقبال سے میں زیادہ مختلف اس لیے بھی نہیں ہوں کہ ان کی طرح میں ڈاکٹر بھی ہوں اور ماشاء اللہ علاّمہ بھی، اور جناح صاحب اگر قائداعظم تھے تو میں اللہ کے فضل سے خطیبِ اعظم ہوں۔ علاوہ ازیں ان کی اگر جناح کیپ مشہور ہوئی تو میری قادری کیپ بھی کچھ کم مشہور نہیں ہے جس میں سے میں خرگوش سمیت ہر چیز نکال سکتا ہوں؛ جبکہ قائداعظمؒ اس مہارت سے سراسر محروم تھے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی جماعت ایسی نہیں جو تیز بارش میں جلسہ کرسکے‘‘ جبکہ میں تیز بارش میں بھی جلسہ کررہا ہوں، اور ، اسی طرح اسلام آباد میں بھی ایسا ہی کیا تھا اور ساری بارش میں نے نہایت دلیری کے ساتھ اپنے کنٹینر پر برسائی تھی، اور لوگوں کو دنگ کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’قائداعظمؒ نے ملک طاقتور لوگوں کے لیے نہیں بنایا تھا‘‘ بلکہ میرے جیسے عاجز ومسکین لوگوں کے لیے بنایا تھا جو اپنی کرامات سے پانچ منٹوں میں صدر کو سابق صدر‘ کابینہ کو سابق کابینہ اور پارلیمنٹ کو سابق پارلیمنٹ بناسکتا ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں جلسے سے خطاب کررہے تھے۔ سمندر …؟ وفاقی وزیر ، صدر پیپلزپارٹی پنجاب اور ہمارے کرم فرما میاں منظور خاں وٹو کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ پیپلزپارٹی ایک سمندر ہے کیونکہ وہ خود اس کے عاجز ومسکین مگرمچھ ہیں جو صرف اپنے حصّے کی مچھلیوں کو شکار کرتے ہیں جبکہ مچھلی اگر پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی تو اسی طرح مگرمچھ مچھلیوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، اور اگلے روز پارٹی کارکنوں کے جس اجلاس میں آپ تقریر کرنے گئے تھے اور وہاں کرسیاں چل گئی تھیں تو اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ کرسی اس دفعہ بھی پیپلزپارٹی کی تقدیر میں لکھ دی گئی ہے، اسی لیے وہ اپنی تقریر مکمل کیے بغیر ہی وہاں اُٹھ کر چلے گئے، بلکہ کارکنوں نے انہیں اپنے حفاظتی حصار میں باہر نکالا جس کی تصویر بھی اخبار میں شائع ہوئی ہے اور جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ کارکن فرطِ عقیدت میں صاحب موصوف کو گلے لگانا چاہتے تھے، اور، اسی مقابلہ بازی میں انہیں گُتھم گتھا بھی ہونا پڑا کہ کارکن اپنے محبوب قائد سے بغلگیر ہونے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کررہے تھے۔ چنانچہ اس کام کو احسن طریقے سے سرانجام دینے کے لیے پارٹی کو ٹکٹ لگادینا چاہیے کہ متوالے اور جیالے قطار باندھ کر اور ایک ایک کرکے اپنی حسرت پوری کرلیا کریں۔ ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔ آج کا مطلع چارسُو پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا اتنا آساں بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا