پیارے اندھو! بیشک آپ اخبار نہیں پڑھ سکتے تاہم کسی سے پڑھوا کر سن ضرور سکتے ہیں اور چونکہ آپ کے طبقے کی اکثریت نے گداگری کا معزز پیشہ اختیار کر رکھا ہے اس لیے اس مافیا کے گاڈ فادر حضرات جو آپ سے یہ دھندا کرواتے ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ اخبار پڑھ کر سنانے کی سہولت بھی آپ کو مہیا کریں کیونکہ اس سے نہ صرف معلومات عامہ سے واقفیت حاصل ہوتی ہے بلکہ اس کے ذریعے اندھے حضرات کو اندھیرے میں بہت دُور کی اور زیادہ سوجھ سکتی ہے۔ ہماری اس کاوش سے عقل کے اندھے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جبکہ اندھوں میں اگر کوئی کانا راجہ ہو تو وہ بھی اس سے مستفید ہو سکتا ہے حتیٰ کہ اندھی محبت میں مبتلا خواتین و حضرات بھی اس سلسلے کو انتہائی مفید پائیں گے جبکہ یہ پیش رفت اندھی عقیدت کے حامل افراد کے لیے بھی رہنمائی مہیا کر سکتی ہے جو محض عقیدت و ارادت کی بنا پر بغیر سوچے سمجھے اپنے پیر یا جاگیردار کے ایک اشارۂ ابرو پر اپنا ووٹ بھی ضائع کر بیٹھتے ہیں لہٰذا امید ہے کہ آپ کو یہ سلسلہ پسند آئے گا اور ہمارے لیے نہایت درجہ ٔاطمینان کا باعث ہوگا۔ سبق آموز واقعات ٭ کسی نے ایک اندھے سے پوچھا: حافظ جی حلوہ کھائو گے؟ تو اس نے جواب دیا کہ اندھے کیا جھک مارنے کے لیے ہوتے ہیں؟ ٭ میاں بیوی عبادت گاہ سے نکلے تو ایک گداگر بھی تاک میں کھڑا تھا۔ بیوی سے بولا: شہزادی! اندھا ہوں، کھانا کھانے کے لیے پانچ روپے دے دو، جس پر میاں نے کہا: اسے پانچ روپے دے دو، یہ واقعی اندھا ہے جو تمہیں شہزادی کہہ رہا ہے! ٭ اشارے پر گاڑی رکی تو ایک گداگر نے آگے بڑھ کر خاتون سے سوال کیا کہ اندھے کی مدد کریں۔ خاتون نے اس کی طرف بغور دیکھتے ہوئے کہا کہ تم کب اندھے ہو، تمہاری آنکھیں تو ٹھیک ٹھاک ہیں، جس پر گداگر بولا کہ دراصل میں ایک اندھے کی جگہ پر کھڑا ہوں۔ خاتون نے پوچھا، وہ اندھا کدھر ہے تو گداگر نے بتایا کہ وہ فلم دیکھنے گیا ہوا ہے۔ ٭ ایک شخص کسی اندھے کے ساتھ کہیں جا رہا تھا کہ دونوں کو بھوک لگ گئی۔ اتفاق سے وہاں ایک چھابڑی والا بیر لیے بیٹھا تھا جس سے انہوں نے بیر خرید لیے اور ایک درخت کی چھائوں میں بیٹھ کر کھانے لگے تو اندھے نے کہا، دیکھو، میں اندھا ہوں، میرے ساتھ بے ایمانی نہ کرنا اور ایک وقت میں ایک ہی بیر منہ میں ڈالنا ہے۔ وہ بیر کھا رہے تھے کہ اندھا بولا، تم بے ایمانی کر رہے ہو اور ایک سے زیادہ بیر منہ میں ڈال رہے ہو جس پر اس آدمی نے کہا، تم تو اندھے ہو، تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں زیادہ بیر منہ میں ڈال رہا ہوں، تو اندھے نے جواب دیا کہ میں جو ایک وقت میں دو بیر منہ میں ڈال رہا ہوں تو تم یقینا چار ڈال رہے ہوگے! پسندیدہ اشعار اُس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی جب سے دل اندھا ہوا، آنکھیں کھلی رکھتا ہوں میں اس پہ مرتا بھی ہوں، غافل بھی نہیں گھر بار سے میں جا رہا تھا کہیں اور پھوڑ کر آنکھیں کسی کے وعدۂ دیدار پر رکا ہوا ہوں جو چہرہ کھول دیا اس نے بزم میں آ کر وہ روشنی تھی کہ کچھ بھی نظر نہ آتا تھا نہ تکیا اساں دنیا نوں، نہ درشن یار کرائے چانن اکھیاں دا اسیں رب نوں موڑن آئے تاریخی واقعہ قیوم نظرؔ گورنمنٹ کالج اور انجم رومانی دیال سنگھ کالج میں پڑھاتے تھے اور دونوں میں بے تکلفی بھی تھی۔ انجم رومانی ہومیوپیتھک علاج بھی کرتے تھے۔ ایک دفعہ قیوم نظرؔ کی آنکھیں خراب ہو گئیں تو انہوں نے انجمؔ رومانی سے علاج کرایا جس کا بالکل الٹا اثر ہوا۔ ایک شاگرد کو معلوم ہوا تو اس نے انجمؔ رومانی سے کہا: سر آپ نے قیوم نظر صاحب کا کتنا غلط علاج کیا۔ ان کی آنکھیں تو اور بھی خراب ہو گئی ہیں جس پر انجم صاحب بولے: میرا علاج صحیح تھا، بندہ غلط ہے! مفید مشورے ٭ اندھے کی لاٹھی بہت مشہور ہے لیکن وہ خدا کی لاٹھی کی طرح بے آواز نہیں ہوتی بلکہ ضرب لگانے کے علاوہ کھڑاک بھی بہت کرتی ہے۔ اس لیے دونوں سے ڈرنا چاہیے۔ ٭ اندھے حضرات لاٹھی کو اندھا دھند گھمانے سے پرہیز کریں کیونکہ یہ اپنی حد کے اندر صفایا کرتی جائے گی اور معاملہ پولیس تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ ٭ لاٹھی کی مدد کے باوجود تیز چلنے سے گریز کریں کیونکہ اس سے آپ کسی سے ٹکرا بھی سکتے ہیں، اور جس شخص یا چیز سے ٹکرائیں، اس کا نقصان بھی ہو سکتا ہے! ٭ اندھی گلی کو پار کرنے کی کوشش نہ کریں! آج کا مطلع اگر اتنی بھی رعایت نہیں کی جا سکتی صاف کہہ دو کہ محبّت نہیں کی جا سکتی