"ZIC" (space) message & send to 7575

تنقید اور ادب میں سرقے کا مسئلہ

محبی ڈاکٹر ناصرعباس نیر ہمارے ان قابلِ ذکر نقادوں میں شامل ہیں جن کا شمار ایک ہاتھ کی انگلیوں پر کیا جاسکتا ہے۔ میرے کلیات غزل ’’اب تک‘‘ کی چوتھی جلد جب پریس میں جانے کے لیے تیار ہوئی تو میرے پبلشر نے اس کا دیباچہ لکھوانے کے لیے ڈاکٹر صاحب کا نام تجویز کیا تو میں نے نہ صرف فوراً ہاں کردی بلکہ فون کرکے انہیں درخواست بھی کی ،جسے انہوں نے منظور کرلیا اور ایک مبسوط دیباچہ قلمبند کیا جو حال ہی میں شائع ہونے والی اس کتاب میں شامل ہے۔ ان کا انٹرویو روزنامہ ’’دنیا‘‘ مورخہ 26فروری میں’’ اردو نقادوں پر سرقوں کا الزام ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے‘‘ کی شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے نقاد کا دفاع اور ادب میں تنقید کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ میری معروضات کا تعلق اسی شہ سرخی کے حوالے سے ہے۔ اس سوال پر کہ عمران شاہد بھنڈر نے ہمارے بعض نامور ناقدین پر ادبی سرقے کا جو الزام لگایا ہے، اس میں کہاں تک صداقت ہے، ناصر عباس نیر کا کہنا تھا کہ ’’بھنڈر صاحب نے پہلے گوپی چند نارنگ اور بعد میں وزیر آغا پر سرقوں کا الزام لگایا۔ آگے چل کر نہ جانے وہ کس کس کی پگڑی اُچھالیں گے۔ بھنڈر صاحب دراصل کلاسیکی مارکیٹ کا ایک ایسا سادہ فہم رکھتے ہیں جس سے کٹھ ملائیت پیدا ہوتی ہے۔ یہی کٹھ ملائیت غیر مارکسی اردو نقادوں کی تذلیل کرنے کی صورت میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ اگر ادبی سرقے سے مراد دوسروں کے خیالات کو بغیر حوالوں کے اپنی تحریروں میں پیش کرنا ہے تو یہ صورت ہمیں صرف اردو تنقید ہی میں نہیں، اردو افسانے، ناول، نظم، غزل میں کہاں کہاں نظر نہیں آتی۔ خود بھنڈر صاحب کی تحریروں میں مختلف اصطلاحات ، خیالات ، طریقِ استدلال لیننی ومارکسی فکر سے براہ راست ماخوذ ہیں‘‘ بھنڈر صاحب کے اس مضمون کے حوالے سے میں نے بھی گوپی چند نارنگ کے دفاع میں ’’آخر گناہگار ہوں، کافر نہیں ہوں میں‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا تھا لیکن اس میں بھی نارنگ کو کلین چٹ دینے کی کوشش نہیں کی گئی تھی کیونکہ بھنڈر نے نارنگ کی ایک کتاب کے حوالے سے ان تحریروں کا مفصل حوالہ دیا تھا جو مغربی مصنفین سے براہ راست ترجمہ شدہ تھیں اور اصل مصنفین کے حوالے کے بغیر تھیں۔ اور اگر نارنگ نے اپنی کتاب کے آخر میں ان مصنفین کا حوالہ دیا بھی تھا تو یہ بھی ایک گول مول بات ہے کیونکہ متنازعہ تحریریں باقاعدہ واوین میں ہونا چاہئیں تھیں اور حاشیے پر ہر ترجمہ شدہ پیراگراف کا نمبر اور کتاب کے آخر پر اس نمبرشمار کے حوالے سے مصنف کا نام ہونا چاہیے تاکہ غتربودکا کوئی امکان یا شک شبہ باقی نہ رہے۔ جبکہ ایسا نہیں تھا اور ان سے یہی تاثر پیدا ہوتا تھا کہ وہ تحریریں نارنگ کی اپنی ہیں۔ وزیر آغا کی زندگی ہی میں ممتاز بھارتی نقاد وارث علوی نے کراچی کے ایک ماہنامے میں ایک مفصل مضمون، حوالوں کے ساتھ، تحریر کیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیر آغا کہاں کہاں اپنی تحریروں میں سرقہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس کے حوالے سے میں نے لکھا تھا کہ وزیر آغا کو خود یا ان کے دستر خوان کی مکھیوں کو اس کا جواب دینا چاہیے، لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ ہمارے عہد میں اردو کے سب سے بڑے فکشن رائٹر عبداللہ حسین کے حوالے سے عطاالحق قاسمی کے رسالے ’’معاصر ‘‘ میں ایک خاتون نے مضمون لکھا تھا کہ انہوں نے اپنے ایک ناول کا مسودہ صاحبِ موصوف کو پڑھنے کے لیے دیا جسے انہوں نے اپنے نام سے چھاپ لیا۔ ایک اطلاع کے مطابق جب عبداللہ حسین سے اس بارے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بڑے چھوٹے ادیبوں کا ایک دوسرے کی تحریروں پر ہاتھ صاف کرنے پر اس لیے درگزر نہیں کیا جاسکتا کہ اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں یا شروع ہی سے ایسا ہوتا آیا ہے۔ اور، اگر بھنڈر صاحب نے سرقوں کی باقاعدہ نشاندہی کرکے ثبوت پیش کیا ہے تو اسے نظریاتی تعصب قرار نہیں دیا جاسکتا، اور مجھے اس سے اختلاف ہے، میں ذاتی طورپر ڈاکٹر نیر کی تحریروں اور ان کے اسلوب کا قائل ہوں اور وہ بھی مجھے محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایک دوسرے سے اختلاف نہیں کرسکتے۔ اختلاف رائے تو ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر ہم جم کر برف ہوجائیں۔ البتہ میں ڈاکٹر صاحب کی اس رائے سے سو فیصد متفق ہوں کہ ایسااعتراض لگاتے وقت کسی مصنف کی وقیع اور صحیح معنوں میں قابل قدر تحریروں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب نے نظم اور غزل کا بھی حوالہ اس سلسلے میں دیا ہے تو اس عنصر کی بھی تین قسمیں ہیں یعنی سیدھا سادہ سرقہ ، تو ارد اور عطا۔ اگرچہ توارد کی تھیوری کچھ زیادہ قابل قبول نہیں ہوسکتی، البتہ کسی کا کوئی مصرعہ اگر آپ کے شعور میں رہ جائے اور آپ اسے باندھ بھی لیں تو یہ ممکن ہے، لیکن اس کا اظہار اور اعلان اس وقت ضرور کردینا چاہیے جب آپ کو اس کا احساس ہوجائے کہ یہ مصرعہ کسی اور کا ہے۔ مجھے اپنے ایک شعر میں یہ مصرعہ ’’یہ شہر چھوڑ دے کہ شرافت اسی میں ہے‘‘باندھنے کے کافی عرصہ بعد ’’اوراق ‘‘ کے ایک پرانے پرچے میں شائع ہونے والی ایک غزل سے معلوم ہوا کہ یہ شہزاد احمد کا ہے۔ اسی طرح ایک مصرعہ باندھنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ ایوب خاور کا ہے۔ چنانچہ میں یہ بات نہ صرف ان دونوں حضرات کے نوٹس میں لایا بلکہ اپنے ایک مضمون میں اس کا ذکر بھی کیا۔ جہاں تک عطا ، کا تعلق ہے تو اس کی دومثالیں پیش کررہا ہوں۔ منٹگمری میں منیر نیازی نے غزل سناتے ہوئے جب یہ شعر پڑھا ؎ گئے دنوں کی روشنی کہاں ہے تو، کہاں ہے تو تو اس پر مجید امجد نے ارتجالاً کہا: یہ اک فضائے دم بخود یہ اک جہان آرزو چنانچہ یہ شعر مجید امجد کے حوالے کے بغیر منیر نیازی کے کلام میں شامل ہے۔ میں ایک دن سویرا کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ محمد سلیم الرحمن نے شرارتاً یہ شعر لکھ کر میری طرف بڑھادیا شاعر وہی شاعروں میں اچھا کھا جائے جو شاعری کو کچا یہ شعر چونکہ میرے مزاج کے عین مطابق تھا اور سلیم نے شاید اس کا مذاق ہی اڑایا تھا، چنانچہ میں نے اس مطلع پر پوری غزل بنائی جو میرے مجموعہ ’’گلافتاب ‘‘ میں شامل ہے، اور میں اس واقعہ کا ذکر لکھ کر بھی کرچکا ہوں۔ کسی سے متاثر ہوکر اس کے رنگ یا لہجے میں شعر کہنا بالکل اور بات ہے، اگرچہ یہ رویہ آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ مثلاً امین حزیں سیالکوٹی نے اقبال کے تتبع میں شعر کہہ کہہ کر کشتوں کے پشتے لگادیئے لیکن آج کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اس شاعر کا نام ہی سن رکھا ہو، تاہم پلیجیئری باقاعدہ ایک فن ہے جس کا ارتکاب نہایت فیاضی سے کیا جاتا ہے جو امتحان کے دوران بعض طلبہ کے نقل مارنے سے تعلق رکھتا ہے بلکہ مختلف مضامین میں ڈاکٹریٹ کرنے والوں کی ڈگریاں بھی اسی بناء پر منسوخ ہوتی رہتی ہیں۔ اس لیے ادبی سرقے کو کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا ، بیشک ایسے مصنف کا مرتبہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو، بلکہ سرقہ حقیقت میں اس کے مرتبے کو گھٹانے کا باعث بنتا ہے اور اس کی دیگرتحریریں بھی مشکوک ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اور اگر سرقے کی نشاندہی ٹھوس شواہد کے ساتھ کی جائے تو اسے پگڑی اچھالنے کا نام نہیں دینا چاہیے کیونکہ پگڑی والے کو خود اس پگڑی کا خیال رکھنا چاہیے ۔ کسی کی تحریر (محنت ) کو اٹھا کر من وعن اپنے نام سے چھاپ لینا سرقہ ہی نہیں بلکہ دیدہ دلیری کی ذیل میں بھی آتا ہے ، اور اس کا دفاع کرنا بجائے خود بڑے دل گردے کا کام ہے، وما علینا الاالبلاغ آج کا مقطع دیواں ہی اپنے نام سے چھپوا دیا، ظفرؔ اے سینہ زور، کیا کوئی ایسا بھی چور ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں