ہمارے عہد کے اقوالِ زریں میں سے ایک یہ ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا، وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ تاہم اس میں ایک مزید قول زرّیں کا اضافہ یہ کیا جاسکتا ہے کہ جس نے( لاہور میں رہتے ہوئے بھی ) پروفیسر عبداللہ بھٹی صاحب کی زیارت نہیں کی، اس کا بھی ابھی تک پیدا ہونا مشکوک ہی ہے، اور، جن میں ،خود میں بھی شامل ہوں، لہٰذا ہم سب لوگوں کو اپنے صحیح معنوں میں پیدا ہونے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کہتے ہیں کہ ولی را ولی می شنا سد، اس لیے کہ ولی حتیٰ الامکان پردۂ اخفا میں رہتا ہے، اور کسی پر ظاہر نہیں ہوتا اور اس سے روشناس ہونے کے لیے خود ولی ہونا ضروری ہے۔ لیکن ہمارا پروفیسر ایک وکھری ٹائپ کا ولی ہے جو دوسروں کو علی الاعلان دعوتِ فیض دیتا ہے ورنہ جن ’’اولیائے کرام‘‘ سے اب تک ہمیں رسائی حاصل رہی ہے،ان میں شاعر ولی دکنی، اور اسفندیارولی ہی ہمیں دستیاب ہوسکے ہیں۔ ولی دکنی نے اردوشاعری کی بنیاد رکھی اور اسفندیارولی اپنے علاقہ کے لوگوں کو سیاسی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ کچھ مثالیں اور بھی ہیں، مثلاً جولاہوں کے ایک گائوں میں (جولاہے حضرات سے معذرت کے ساتھ کہ آج کل ٹیکسٹائل مل مالکان کو بھی ماڈرن جولاہے ہی قرار دیا جاتا ہے ) ایک شخص نے صبح سویرے چوک میں ساری آبادی کو جمع کیا اور کہا کہ میں ولی ہوگیا ہوں، اس لیے مجھ پر ’’ایمان‘‘ لائو؟ لوگوں نے کہا کہ تم اپنی کوئی کرامات دکھائو تاکہ تمہیں ولی مانا جاسکے۔ اس پر موصوف نے کہا کہ یہ جو سامنے دیوار ہے ، اگر میں اسے کہوں کہ چل کر میرے پاس آئے اور اگر وہ واقعی چل کر میرے پاس آجائے تو کیا تم مجھے ولی مان لوگے ؟ جس پر لوگوں نے کہا کہ یقینا مان لیں گے۔ چنانچہ اس نے دیوار کو حکم دیا کہ وہ چل کر اس کے پاس آئے، لیکن دیوار ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اس نے دوسری بار حکم دیا تو پھر بھی دیوار پر کوئی اثر نہ ہوا۔ جب تیسری بار حکم دینے پر بھی دیوار چل کر اس کے پاس نہ آئی تو وہ بولا کہ جو سچا ولی ہوتا ہے، اس میں غصہ نہیں ہوتا۔ اگر دیوار چل کر میرے پاس نہیں آئی تو کوئی بات نہیں، میں خود اس کے پاس چل کر چلا جاتا ہوں۔ چنانچہ وہ چل کر دیوار کے پاس گیا اور اہل دیہہ نے اسے ولی مان لیا ! لیکن پروفیسر صاحب کا کہنا نہ صرف دیوار یں مانتی ہیں بلکہ ظالم اور جابر قسم کے جنّات بھی ان کے سامنے توبہ تائب ہوکر بھاگ اٹھتے ہیں جنہوں نے خلقِ خدا کا جینا حرام کررکھا ہوتا ہے۔ نابینے دیکھنے اور گونگے باتیں کرنے لگتے ہیں اور یہ صرف ان کی روحانی قوت کا کرشمہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی اور ان کے مرشد کی دعا کے ذریعے انہیں ارزانی کی گئی ہے۔ وہ بیماروں کو شفا دیتے اور وہ تھوڑے ہی عرصے میں بھلے چنگے ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ہر جمعہ کے روز طالبِ دعا اور حاجتمندوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ علامہ اقبال ٹائون میں ان کی رہائش گاہ پر لگے رہتے ہیں اور جس کے لیے وہ قطعاً کوئی معاوضہ طلب یا قبول نہیں کرتے۔ ان اسرار روحانی تک رسائی کی پوری داستان انہوں نے اپنی کتاب ’’اسرارِ روحانیات‘‘ میں تفصیل سے بیان کی ہے ۔یہ کتاب اصل میں ایک دعوت نامہ ہے کہ کس طرح آپ اپنی زندگی کو قرآنی احکامات کے مطابق گزارسکتے ہیں اور ساتھ ساتھ علمِ روحانیات کی سیڑھیاں چڑھ سکتے ہیں اور کس طرح وہ عظیم قوت حاصل کرسکتے ہیں جو بظاہر انسانی عقل و فہم کے دائرے میں نہیں آسکتی، اور جس کا واحد مقصد بھی خلقِ خدا کی خدمت اور ان کے دکھ درد بانٹنا ہے۔ کتاب کے آغاز میں عطاء الحق قاسمی، ڈاکٹر اجمل نیازی، طارق اسماعیل ساگر ، بانوقدسیہ اور دیگران نے صاحبِ موصوف کے ساتھ اپنی ملاقات کا احوال بیان کیا ہے بلکہ اس تحفہ کتاب پر اپنے اپنے انداز میں سیر حاصل تبصرہ بھی کیا ہے اور خود بھی پروفیسر صاحب کے روحانیات کے اس پُراسرار سفر سے لطف اندوز اور مستفید ہوئے ہیں۔ یہ سعادت ہمارے دوست مجیب الرحمن شامی نے بھی حاصل کی ہے اور پچھلے دنوں شائع ہونے والے اپنے کالم میں پروفیسر صاحب اور اس کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کیے ہیں جبکہ یہ کتاب اس سے پہلے چھپ چکی تھی ورنہ ان کی وہ انتہائی قابل قدر اور لائق مطالعہ تحریر بھی اس تصنیف لطیف میں شامل ہوتی۔ تاہم، یہ ایک صدقہ جاریہ ہے اور ابھی بے شمار اہل قلم ودانش افراد یہ سعادت حاصل کریں گے، انشاء اللہ تعالیٰ ! یہ ایک عجیب وغریب کتاب ہے جس کے اوصافِ حمیدہ کا احاطہ کسی مختصر تحریر میں نہیں کیا جاسکتا اور، جس کا سب سے بڑا اعجاز یہ ہے کہ نہ صرف آدمی خود یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ محض اپنی کوتاہی کے باعث اتنی بڑی نعمت سے محروم رہا بلکہ اس آسان فہم کتاب کے مطالعہ سے خود اس کے اندر اس بیش بہا سفر کی تمنا پیدا ہوتی ہے جس کے مراحل اس میں نہایت خوبی سے بیان کردیئے گئے ہیں، حتیٰ کہ اگر وہ پختہ ارادے اور تھوڑی سی ہمت سے بھی کام لے تو وہ خود سفر کا آغاز کرکے اپنی زندگی کی ایک بڑی غفلت کی تلافی کرسکتا ہے، آخر اس سے بڑا کرشمہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ پروفیسر صاحب کے اس مبارک روحانی سفر کی ابتدا علم الاعداد اور پامسٹری وغیرہ جیسے علوم سے ہوئی ، اگر آپ چاہیں تو وہ آپ سے تاریخ پیدائش پوچھ کر نہ صرف آپ کی عمر گزشتہ کھول کر بیان کردیں گے بلکہ آپ کو پیش آنے والے دیگر واقعات سے بھی پردہ اٹھا دیں گے، اور جن میں کچھ ایسے واقعات بھی شامل ہوں گے جنہیں یاد کرکے آپ خود شرمندہ ہوکر رہ جائیں ۔ اس لیے آپ کے ماضی کا اس تفصیل کے ساتھ کریدا جانا اور اس طرح آپ کی یادداشت کا تازہ ہونا شاید آپ کے لیے بھی پشیمانی اور ندامت کا باعث ہو، اسی لیے اکثر حضرات درمیان میں ہی حوصلہ چھوڑ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ بند کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر پہلا تاثر یہ قائم ہوتا ہے کہ ہم اب تک ایک جعلی زندگی بسرکرتے چلے آئے ہیں جبکہ اصلی زندگی آغاز کرنے کا طریقہ اس میں کمال صراحت سے بیان کردیا گیا ہے۔ نیز یہ احساس ہوتا ہے کہ اب بھی صحیح معنوں میں جینے کا آغاز کیا جاسکتا ہے اور جس کے لیے کسی طرح کی رہبانیت اور ترک دنیا کی بھی ضرورت نہیں ہے اور دنیا میں رہ کر بھی اس راستے پر شروعات کی جاسکتی ہیں۔ اس سفر کے مراحل میں نے کھول کر بیان اس لیے نہیں کیے کہ آپ اس گلزارِ نجات میں خود داخل ہوکر اس کے فیوض وبرکات کا اندازہ لگائیں اور دیکھیں کہ یہ آپ کے ذوق و شوق کو مہمیز کس طرح سے لگاتی ہے اور ان کے مرید خاص ڈاکٹر مجتبیٰ شاہ نے یہ کتاب مددن کرکے راہ سے بھٹکی ہوئی قوم کی رہنمائی کس خوبصورت انداز میں کی ہے۔ آج کا مطلع مجھے بھی رزق مل جاتا ہے اکثر میرے حصے کا وہ کیڑا ہوں، ظفر، جو پیار کے پتھر میں رہتا ہے