پیارے گویو! یہ جوکہتے ہیں کہ رونا اور گانا سب کو آتا ہے تو کچھ ایسا حقیقت پر مبنی نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر آپ لوگوں کی بھلا کیا ضرورت تھی، ہر کوئی اپنا اور دوسرے کا رانجھا خود ہی راضی کرلیا کرتا بلکہ ہم تو یہ بھی کہیں گے کہ ڈھنگ سے رونا بھی ہر کسی کو نہیں آتا، حتیٰ کہ بعض لوگ ایسے مضحکہ خیز طریقے سے روتے ہیں کہ انہیں روتا دیکھ کر باقاعدہ ہنسی آتی ہے۔ بیشک گلا پھاڑ کر رویا بھی جاسکتا ہے اور گایا بھی۔ البتہ یہ بات خاصی حد تک درست ہے کہ موسیقی رُوح کی غذا اور فی زمانہ جسمانی غذا کے فقدان بلکہ قحط کے زمانے میں اگر روح کوہی غذا میسر ہوتی رہے تو کیا کم غنیمت ہے۔ تاہم گانے میں سُر کی پابندی کچھ ایسی ضروری نہیں ہوتی کیونکہ آزادیٔ اظہار کے اس دور میں بے سُرے افراد کو بھی گانے کا برابر کا حق ہے جبکہ کئی روحیں بھی ماشاء اللہ ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں بے سُری موسیقی ہی راس آتی ہے اور ان میں بدروحیں بطور خاص شامل ہیں جبکہ روحوں کے مقابلے میں بدروحوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ جیسی ’روح‘‘ ویسے فرشتے۔ مطلب یہ ہے کہ بدروحیں اپنے ساتھ اچھے بھلے فرشتوں کو بھی لے بیٹھتی ہیں؛ چنانچہ بے سُرے گانوں کی مقبولیت اور سکوپ دن بدن بڑھتا نظر آرہا ہے۔ بہرحال، دونوں طرح کے گانے والوں کے لیے یہ صفحہ شروع کیا جارہا ہے تاکہ ان کے مسائل ان میں پیش ہوتے رہیں۔ اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے گا۔ سبق آموز واقعات ٭ ایک گویا ہر وقت دو تمغے گلے میں پہنے رکھتا تھا جن میں سے ایک بڑا تھا اور ایک چھوٹا۔ کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ چھوٹا ایوارڈ اس کو ایک گانا گانے پر ملا تھا۔ بڑے کے بارے میں پوچھاگیا تو اس نے بتایا کہ یہ اسے ایک گانا بند کرنے پر ملا تھا۔ ٭ ایران کی ایک کمپنی کو اپنی سالانہ تقریب میں کسی گویّے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس کا ایک وفد وقت کی مشہور مغنّیہ گوگول کے پاس گیا۔ پوچھنے پر جب مغنّیہ نے اپنا معاوضہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ اتنی رقم تو ہم نہیں دے سکتے، یہ تو ہمارے جنرل منیجر کی تنخواہ کے برابر ہے تو گوگول نے کہا: پھر گانا بھی اپنے جنرل منیجر ہی سے سن لیں! ٭ کسی فلیٹ میں مقیم ایک بچہ زور زور سے رو رہا تھا کہ اس کی ماں نہایت بھدی آواز میں اسے لوری سنانے لگی۔ لوری سنتے ہوئے بچے کی رونے کی آواز مدھم ہوتی گئی؛ حتیٰ کہ جب وہ خاموش ہوکر سوگیا اور اس کی ماں نے بے دھیانی میں جب لوری جاری رکھی تو ہمسائے نے کھڑکی سے منہ نکال کر کہا، اس سے تو روتا ہی رہتا تواچھا تھا! ٭ کسی فائیو سٹار ہوٹل میں ایک شخص ایک اونٹ اور بکری لے کر آیا اور انتظامیہ سے کہا کہ یہ دونوں گانا بہت اچھا گاتے ہیں۔ آپ انہیں آزما کر دیکھ لیں، اگر پسند آئیں تو آپ انہیں خرید سکتے ہیں۔ اس دلچسپ انکشاف پر ہوٹل والوں نے جملہ مہمانوں کو ہال میں اکٹھا کیا۔ اونٹ اور بکری کو سٹیج پر لایا گیا جنہوں نے ایسا گانا گایا کہ ہال بہت دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ بھائو تائو کے بعد ہوٹل انتظامیہ نے دونوں جانور خرید لیے۔ جب وہ شخص رقم وصول کرکے جانے لگا تو اس نے کہا کہ معاملہ تو طے ہوچکا ہے لیکن ایک بات میں آپ کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ گانا اکیلی بکری گاتی ہے۔ ہوٹل والوں نے اونٹ کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ صرف ساتھ ساتھ ہونٹ ہلاتا جاتا ہے! ٭ نامور مغنّی ایلوس پریسلے ایک سفر کے دوران کسی گائوں سے گزر رہا تھا کہ اسے سو ڈالر کی ضرورت پڑ گئی۔ وہ ایک مقامی بینک میں گیا اور رقم کے لیے چیک کاٹ کر جمع کرایا تو بینک والوں نے کہا کہ شناخت کے بغیر ہم پیسے نہیں دے سکتے۔ اس پر اُس نے کہا کہ بھئی میں ایلوس پریسلے ہوں، کیا آپ نے کبھی میرا گانا نہیں سُنا؟ تو بینک والوں نے کہا کہ کئی بار سنا ہے اور ہمیں آپ کے گانے پسند بھی بہت ہیں لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کہ آپ ایلوس پریسلے ہی ہیں اس لیے ہم شناخت کے ثبوت کے بغیر ادائیگی نہیں کرسکتے۔ البتہ اگر آپ گانا سنا دیں تو ہم آپ کی آواز سے پہچان جائیں گے جس پر پریسلے یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا کہ اگر میں سو ڈالر کے لیے گانا گا دوں تو میں واقعی ایلوس پریسلے نہیں ہوں! پسندیدہ اشعار اُس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک شعلہ سا لپک جائے ہے، آواز تو دیکھو غزل اُس نے چھیڑی، مجھے ساز دینا ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا رو سکا ہوں نہ تجھے گا ہی سکا کوئی نوحہ نہ ترانہ ہوا تُو ایک مشہور کہہ مُکرنی گوشت کیوں نہ کھایا، گانا کیوں نہ گایا؟ گلا نہ تھا! عبرت انگیز واقعات ٭ چھوٹے غلام علی خاں کا کوئی مداح ایک دفعہ اُن سے ملنے چلا گیا اور لوگوں سے پوچھتا پچھاتا بالآخر اُن کے گھر تک پہنچ گیا اور دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ گائک نے مہمان کے لیے بیٹھک کا دروازہ کھولا تو اس شخص نے کہا کہ مجھے چھوٹے غلام علی خاں سے ملنا ہے جس پر اس نے جواب دیا کہ میں ہی چھوٹے غلام علی خاں ہوں جس پر شخص مذکورہ بولا کہ اگر تم ہی ہو تو پھر شروع ہوجائو!۔ ٭ ایک لومڑی کافی دیر سے جنگل میں گھوم رہی تھی لیکن اسے کھانے کو کچھ نہ مل رہا تھا۔ اسی پریشانی میں اسے درخت کی شاخ پر ایک کوا بیٹھا نظر آیا جس کے منہ میں پنیر کا بڑا ٹکڑا تھا (حالانکہ کوے پینر کچھ زیادہ شوق سے نہیں کھاتے ورنہ وہ اسے لے کر بیٹھ نہ جاتا اور کب کا کھا چکا ہوتا، لیکن کہانی میں چونکہ ایسے ہی لکھا ہے اس لیے اسے مان لینے میں کوئی حرج بھی نہیں) اسے دیکھ کر بھوکی لومڑی کے منہ میں پانی بھر آیا جو اس نے غٹاغٹ کرکے پی لیا لیکن پانی سے بھوک کہاں مٹتی ہے؛ چنانچہ اسے ایک ترکیب سوجھی (بھوک میں ویسے بھی دماغ زیادہ کام کرتا ہے) اس نے کوّے سے کہا، پیارے کوّے! جنگل میں تمہارے گانے کی بڑی دھوم ہے کہ تم گانا بہت اچھا گاتے ہو، اپنی بہن کو گانا نہ سنائو گے؟ کوّے نے اس خوشامد پر خوش ہوکر گانے کے لیے چونج کھولی تو پنیر کا ٹکڑا نیچے گر پڑا جو لومڑی کے ناشتے کے کام آیا۔ آج کا مطلع بہت مصروف ہوں چھوٹا سا کوئی گھر بنانے میں کہیں وہ بھی کسی دل کے بہت اندر بنانے میں