اس بات میں تو کوئی شک وشبہ ہے ہی نہیں کہ اگر سپریم کورٹ نہ ہوتی تو ہمارے حکمران کب کے یہ ملک بیچ کر کھاچکے ہوتے، حتیٰ کہ حالیہ دنوں میں ہی خزانے کی جو لُوٹ مار کی جارہی ہے اور جس حساب سے اسے خالی کیا جارہا ہے، ماضی میں اس کی شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو، گویا جہاز ڈوب رہا ہے، اور، جس کے ہاتھ جوکچھ لگ رہا ہے سمیٹتا چلا جارہا ہے۔ جمہوریت کو کرپشن کے چارچاند لگانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی گئی اور یہ کھانا اس طرح کھایا گیا ہے جیسے یہ زندگی کا آخری کھانا ہو، اور، اس کے بعد یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہونے جارہا ہو۔ چنانچہ ادھر الیکشن کمیشن نے بدکاروں کے کابلے کسنا شروع کیے اور ادھر سارے کے سارے پیشہ ور سیاستدانوں اور جماعتوں نے آسمان سرپر اٹھانا شروع کردیا۔ چونکہ چورچوروں کے بھائی ہوتے ہیں۔ اس لیے اس معاملے میں یہ سب حضرات ایک ہی صفحے پر نظرآتے ہیں کہ سب کے خصوصی مفادات پر ضرب پڑرہی ہے اور زمین ان کے پائوں تلے سے نکلتی ہوئی محسوس ہونے لگی ہے اور یہی ان کے دل کا چور بھی ہے کہ اپنے اپنے اعمال سب کی نظر میں ہیں اور آرٹیکل 63,62کی تلوار سب کو سرپرلٹکتی ہوئی نظر آرہی ہے کیونکہ اردگرد دنیا میں جوکچھ ہورہا ہے وہ بھی سب پر آئینہ ہے کہ مثلاً جعلی ڈگری والوں یا دھوکہ دہی کے ذریعے اسمبلیوں میں آنے والوں کے لیے ہرجگہ نااہلیاں ہیں اور کڑی سزائیں۔ اس طبقے نے جو کھالیا اسی کو غنیمت سمجھیں کہ یہ ان کے پیٹ سے نکلوائے جانے کا ابھی کوئی فوری امکان نظر نہیں آتا، اس لیے مزید لُوٹ مار اور ماردھاڑ کا خیال دل سے نکال دیں۔ چونکہ ہم خود کرپٹ اور بے ایمان ہیںاسی لیے ہر بار اپنے جیسوں کو ہی منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں جبکہ ہمارے پاس اور کوئی چوائس بھی نہیں ہوتا کہ دوبرائیوں میں سے ایک کی پرچی پر مہرلگانا ہماری مجبوری بھی ہوتی ہے۔ لیکن اب پہلی تبدیلی یہ آئی ہے کہ ساتھ ساتھ کچھ اچھائیاں بھی دستیاب ہوں گی اور الیکشن کے نام پر کوئی فراڈ بھی عوام کے ساتھ نہیں کیا جاسکے گا کہ دھاندلی اور جعلسازیوں کے سارے دروازے ان حضرات کو بند ہی ملیں گے۔ سب سے زیادہ خوش آئند بات یہ ہے کہ بظاہر کمزور نظرآنے والا الیکشن کمیشن اب اپنے پائوں پر کھڑا نظر آنے لگا ہے اور صرف اسی لیے کہ سپریم کورٹ اس کی پشت پر موجود ہے چنانچہ اہلِ سیاست کی کوئی گیدڑ بھبکی اب تک اسے پسپائی پر مجبور نہیں کرسکی بلکہ وہ مزید ثابت قدمی کا مظاہرہ کررہا ہے اور اپنے آئینی اختیارات کے تحت کارروائی میں مصروف ہے۔ اپنے ترمیم کردہ نامزدگی فارم اس نے چھپوالیے ہیں اور آئینی دفعات پر حرف بحرف عمل پر کمر باندھ چکا ہے، اگرچہ ہمارے دوست بیرسٹر اعتزاز احسن بھی یہ واویلا کررہے ہیں کہ صدر کی منظوری کے بغیر یہ فارم غیرآئینی اور غیرقانونی ہیں لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کا آخری فیصلہ بھی سپریم کورٹ ہی نے کرنا ہے بلکہ سپریم کورٹ اس بارے اظہار رائے کربھی چکی ہے۔ سو اگر کوئی صاحب یہ ثابت کرسکیں کہ موجودہ حکمرانو ں میں دس افراد بھی ایسے ہیں جو آرٹیکل 63,62پر پورا اترتے ہیں تو براہ کرم مجھے ان کے اسمائے گرامی سے ضرور آگاہ کریں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، اگر ایک طرف سے بھی شروع کریں تو ہمارے کرمفرما شریف برادران کب ان شرائط پر پورا اترتے ہیں کہ ان کا سارا ماضی ایک کھلی کتاب کی طرح سب کو دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ الیکشن اس سلسلے میں کسی لحاظ داری یا مصلحت اندیشی سے کام لے، بلکہ اس کا کلہاڑا پورے انصاف اور دیانتداری سے سب پر ایک ساتھ چلے گا۔ چنانچہ یہ سارا سیاسی گندالیکشن کے ذریعے ہی صاف کیا جاسکتا ہے اور الیکشن بھی ایسا کہ جملہ پابندیوں کو بروئے کار لاکر منعقد کرایا گیا ہو جس کی راہ میں بظاہر اب کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی، حتیٰ کہ الیکشن کمیشن کی منسوخی اور انتخابات کے التوا کے خواہشمند طاہر القادری جیسے عناصر کو بھی دبک کر بیٹھنا پڑگیا ہے، اور ، نہ ہی رحمن ملک کی آئے دن کی پیش گوئیاں اس کا راستہ روک سکتی ہیں جبکہ اس سلسلے کی مزید دلچسپ اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اس پر تُل گئی ہے کہ انتخابات بہرصورت ہونا چاہئیں اور آرمی چیف بذاتِ خود بھی اسی خیال کے زبردست حامی ہیں۔ اگر سمتِ سفر درست ہوجائے تو باقی کا کام بھی نتیجہ خیز اور آسان ہوسکتا ہے۔ چنانچہ صورت حال اگر اسی طرح بغیر کسی رکاوٹ کے برقرار رہتی ہے تو اس بات کا زبردست امکان بھی موجود ہے کہ اس دوران احتساب کی بھی کوئی صورت نکل آئے اور کھایا ہوا پیسہ اُگلوایا جاسکے جس سے غیرملکی بینک بھرے پڑے ہیں کیونکہ یہ تو طے ہے کہ موجودہ منظر نامے میں سارے سیاسی گٹھ جوڑ اور الائنس بالکل رائیگاں چلی جائیں گی اور ایک نئی قیادت جنم لے گی ، پرانے بت زمین بوس ہوں گے اور ماضی کی ساری جکڑ بندیاں جو عوام کے خلاف بُنی جاتی رہی ہیں، ایک قصۂ ماضی ہوکر رہ جائیں گی۔ اس سارے کھیل کو اپنے مفادات کے تحت امریکہ شاید بگاڑنے کی کوشش کرے جو گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنے اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے پر نہ صرف پیچ وتاب کھارہا ہے، بلکہ دھمکیاں بھی دے رہا ہے اور اس ضمن میں شریف حضرات اس کی ہمنوائی کرکے نمبربنانے کی کوشش بھی کررہے ہیں اور اس طرح آغاز کارہی میں ملکی وقومی مفاد پر سودے بازی کی تیاری کررہے ہیں کیونکہ اس گیدڑ سنگھی کی بدولت وہ اقتدار کی سیڑھی پر چڑھ سکتے ہیں لیکن ساری قوم چونکہ ان معاملات پر مکمل طورپر یکسو ہے، اس لیے! اور اس لیے بھی کہ خود امریکہ کو بھی ہم سے ابھی بہت کام ہے، اس لیے یہ دبائو بھی پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ جائے گا اور ان کے مذکورہ بالا حامی عناصر ایکسپوز ہوکر بھی رہ جائیں گے۔ کسی کو اس سلسلے میں کسی غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے کہ قوم ان پرانی ذلتوں سے آزاد ہونے والی ہے، یعنی سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے سو، ان جغادری لٹیروں کی بجائے کہیں کہیں ان کے بھتیجے بھانجے بھی منتخب ہوجائیں تو وہ ان سے ضرور بہتر ہوں گے کیونکہ ایک تو وہ بدلے ہوئے ماحول کے زیراثر ہوں گے اور دوسرے وہ اپنے بزرگوں کو نشانِ عبرت بنتے بھی دیکھ چکے ہوں گے اور آنے والی تبدیلی میں انہیں بھی اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا۔ سو‘ ملک کا مستقبل فخروبھائی ، سپریم کورٹ اور آرمی چیف کے محفوظ ہاتھوں میں ہے اور اسے کسی طرح کا بھی گزند پہنچانے کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی اور نئی سلوائی جانے والی شیروانیاں صندوقوں یا وارڈ روبوں ہی میں پڑی اور کھڑی رہ جائیں گی، اور اگر اس آخری موقع سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو اس ملک ساتھ خاکم بدہن، کچھ بھی ہوسکتا ہے ، حالانکہ جوکچھ اس کے ساتھ پہلے ہوچکا ہے وہ بھی کچھ کم نہیںہے! آج کا مقطع دشت سا چمکا ہوا تھا ریت سے خالی، ظفرؔ داغ سے دمکے ہوئے تھے لالہ زاروں کے بغیر