پیپلز پارٹی نے بہتر نام دیا تو غور کریں گے… نوازشریف قائدِ انقلاب کامریڈ نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’نگران وزیراعظم کے لیے پیپلز پارٹی نے بہتر نام دیا تو غور کریں گے‘‘ کیونکہ خاکسار سے بہتر غور تو کوئی کر ہی نہیں سکتا اور غورو فکر کی اس خداداد صلاحیت ہی کی بدولت اسٹیبلشمنٹ دو بار اس عاجز کو اقتدار دلا چکی ہے اور غورو فکر کی زیادتی اور فراوانی کے طفیل ہی اس ہیچمدان نے جنرل پرویز مشرف کا بیرونِ ملک سے واپسی کے دوران ہی گھونٹ بھرنے کی کوشش کی تھی لیکن سول ایوی ایشن والے اپنی کم عقلی کی وجہ سے ان کے جہاز کا رُخ بھارت کی طرف موڑنے کی بجائے سیدھا ملک کے اندر لے آئے جہاں کچھ مزید کم عقل لوگ نہ صرف ان کے استقبال کے لیے موجود تھے بلکہ اُلٹا میرا چھابہ ہی اُلٹا دیا۔ غرض کس کس کی عقل کا ماتم کیا جائے‘ تاہم یہ بیان بھی لوگوں کی عقل و دانش میں اضافہ کرنے ہی کے لیے دیا ہے ورنہ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے ساتھ سارے معاملات پہلے ہی طے ہو چکے ہیں کہ نگران وزیراعظم کون ہوگا اور پنجاب کا نگران وزیراعلیٰ کون… ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے جو نام دیئے ہیں ان کی شخصیت پر کوئی داغ نہیں ہے‘‘ کیونکہ سارے کے سارے داغ ہم نے پہلے ہی اپنے وسیع و عریض دامن میں بھر رکھے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں روز مرہ کا ایک بیان جاری کر رہے تھے۔ جمہوریت کی فتح ہوئی‘ اب کوئی شب خون نہیں مار سکتا… پرویز اشرف وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ’’جمہوری قوتوں کو فتح ہوئی‘ اب کوئی شب خون نہیں مار سکتا‘‘ کیونکہ ہم نے خود ہی جمہوریت پر ایسا مستقل شب خون مار کر دکھا دیا ہے کہ لوگ اسے رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے کہ کس طرح مفاہمت کے نام پر عوام کا کچومر نکالا جاتا ہے۔ اصل میں یہ جمہوری قوتوں کی نہیں بلکہ مفاہمتی طریقہ واردات کی فتح ہوئی ہے جس کے تحت اقتدار کی ضیافت میں سبھی شامل ہو جاتے ہیں‘ جسے ’’زرداری ڈاکٹرائن‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے اور جس نے ملکی سیاست کا نقشہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے یعنی ؎ ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد فیضؔ گلشن میں وہی طرزِ فغاں ٹھہری ہے انہوں نے کہا کہ ’’ہم دودھ اور شہد کی نہریں تو نہیں بہا سکے لیکن مسائل میں کمی ضروری کردی ہے‘‘ کیونکہ دودھ اور شہد کی اگر نہریں بہائی جاتیں تو ان میں مٹی اور کوڑا کرکٹ بھی شامل ہو جانا تھا‘ اسی لیے ہم نے پائپ لائن کے ذریعے ان کا رُخ اپنی طرف موڑ لیا کیونکہ خیرات ہمیشہ گھر سے شروع کی جاتی ہے۔ آپ اگلے روز حکومتی میعاد ختم ہونے پر الوداعی تقریر کر رہے تھے۔ ہم نے عوام کے دل جیت لیے ہیں… گیلانی سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’ہم نے عوام کے دل جیت لیے ہیں‘‘ البتہ یہ ابھی نہیں کہا جا سکتا کہ زیادہ دل خاکسار نے جیتے ہیں یا برخورداران نے اور اگرچہ اس عاجز کو اس نیک کام کا دوبارہ موقعہ تو شاید ہی ملے‘ تاہم صاحبزادگان اگر تفتیشوں اور انکوائریوں سے بچ رہے تو عوام کے جگر اور گردے وغیرہ بھی جیت کر دکھا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پیپلز پارٹی پھر کامیاب ہوگی‘‘ جس کے لیے یہی ضمانت کافی ہے کہ مجھ ایسے نیک نام شخص کو انتخابات کا انچارج بنا دیا گیا ہے جس کی مشہورِ زمانہ پارسائی کی وجہ سے عوام کھنچے کھنچے پارٹی کی طرف آتے چلے آئیں گے اور اگر کوئی کسر رہ گئی تو اس کے لیے میرے ہی جیسے فرشتہ صفت لیڈر میاں منظور خاں وٹو کافی ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہماری حکومت نے کروڑوں غریبوں کو سماجی تحفظ فراہم کیا‘‘ اور مہنگائی 300 گنا بڑھا کر انہیں توکّل اختیار کرنے کی طرف مائل کیا ہے تاکہ وہ اپنی عاقبت سنوارنے کی طرف توجہ دے سکیں اور جنت میں ہمارے ساتھ اکٹھے ہو جائیں جبکہ وہ اپنی زندگی میں جنت کے مزے پہلے ہی چکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام کی طاقت ہمارے ساتھ ہے‘‘ اور ابھی ہم نے عوام کو مزید طاقتور بنانا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں حکومتی میعاد ختم ہونے پر خطاب کر رہے تھے۔ 24 مارچ کو نہ آیا تو پھر نہیں آئوں گا… پرویز مشرف سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ ’’اگر میں 24 مارچ کو وطن واپس نہ آیا تو پھر نہیں آئوں گا‘‘ اگرچہ ایک دوست ملک کے شہزادگان کی معرفت میاں نوازشریف کو تو راضی کر لیا گیا ہے کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں نے جو کچھ بھی کیا تھا قومی مفاد ہی میں کیا تھا جبکہ وہ خود بھی عمر بھر سب کچھ قومی مفاد ہی میں کرتے رہے ہیں‘ حتیٰ کہ لشکر جھنگوی وغیرہ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ وغیرہ بھی قومی مفاد ہی میں کی ہے تاکہ اقتدار میں ان کی واپسی یقینی ہو جائے جبکہ فوج کی طرف سے بھی کوئی خطرہ نہیں کہ وہ اپنے ایک سابق آرمی چیف کو کسی آزمائش میں کیوں ڈالیں گے البتہ عدلیہ کی طرف سے اصل خدشات اب بھی موجود ہیں حالانکہ چیف جسٹس سمیت ان شرفا کو معطل اور اندر وغیرہ بھی قومی مفاد ہی میں کیا گیا تھا‘ اس لیے لگتا یہی ہے کہ قوم میری خدمات سے مزید استفادہ کرنے سے محروم ہی رہے گی‘ تاہم میں اس خاموش اکثریت کے حوالے سے پریشان ہوں کہ اس کا کیا بنے گا جو اب تک میرا دم بھر رہی ہے اور بے تابی سے میری منتظر ہے اور شاید اسے بھی میری فرقت ہمیشہ ہی کے لیے برداشت کرنی پڑے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔ صریح زیادتی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے نگران وزیراعظم کے معاملے پر شیخ الاسلام سے مشاورت نہ کر کے صریح زیادتی کا ارتکاب کیا ہے حالانکہ وہ الیکشن ملتوی کروانے کے سلسلے میں ان دونوں جماعتوں کے جذبات ہی کی ترجمانی کر رہے تھے اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ لوگ صاحبِ موصوف کے ساتھ الیکشن میں کسی اتحاد یا تعاون سے بھی گریز کریں گے اور اپنے آپ کو شیخ الاسلام کی بددعائوں میں شامل کرنے کی غلطی کے مرتکب ہوں گے۔ اس طرح ان کا کینیڈا سے واپس آنا بالکل ہی رائیگاں جائے گا چنانچہ انہوں نے ان دونوں جماعتوں کی توپوں میں کیڑے ڈالنے کے لیے چلّہ کشی کا بھی پختہ پروگرام بنا لیا ہے‘ حالانکہ اگر انہیں نگران وزیراعظم بنانے کی پیشکش کر دی جاتی تو وہ اسے طوعاً و کرہاً قبول بھی کر سکتے تھے اور یہاں اپنے قیام کے دوران انہوں نے اس کے واضح اشارے بھی دیئے تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ کوڑھ دماغ اب کسی شریف آدمی کا اشارہ سمجھنے کے بھی قابل نہیں رہے‘ اس لیے ان دونوں میں سے کوئی کامیاب ہو کر خود ہی اپنے کیفر کردار کو پہنچ جائے گا۔ آج کا مطلع مل کے بیٹھے نہیں‘ خوابوں میں شراکت نہیں کی اور کیا رشتہ ہو تجھ سے جو محبت نہیں کی