اُمت مسلمہ کو اختلافات ختم کرکے متحد ہونا ہوگا… صدر زرداری صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’اُمت مسلمہ کو اختلافات ختم کرکے متحدہوناہوگا‘‘ اور اس سلسلے میں ہم سے رہنمائی حاصل کرکے مفاہمتی پالیسی اختیار کرنا ہوگی اور پھر ہی خدا کی قدرت انہیں صاف نظر آنے لگے گی جس کا نظارہ ہم پانچ سال تک کرتے رہے ہیں اور انتخابات کے بعد جو اگلی حکومت بنے گی وہ بھی اسی طریق کار پر عمل کرے گی اور خاکسار کے اس نسخۂ کیمیا سے پورا پورا فائدہ اٹھائے گی، انشاء اللہ تعالیٰ، انہوں نے کہا کہ ’’ہم شام کا مسئلہ حل کرانے کے لیے تیار ہیں‘‘ کیونکہ ہم نے اپنے سارے مسائل حل کرلیے ہیں اور اب بالکل فارغ بیٹھے مکھیاں ماررہے ہیں البتہ اس کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ملک مکھیوں سے پاک صاف ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’شام کی خودمختاری کا احترام کیا جانا چاہیے‘‘ جیسا کہ ہم امریکہ وغیرہ سے اپنی خود مختاری کا احترام کروارہے ہیں بلکہ اس بات کا بھی قومی امکان ہے کہ ڈرون حملوں کے علاوہ وہ آئندہ ہمارے ملک کے اندر آکر بھی کارروائیاں کرے گا جس سے ہماری خودمختاری میں مزید اضافہ ہوگا۔ آپ اگلے روز مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے سے خطاب کررہے تھے۔ آمریت سے بدتر جمہوریت کو نہیں مانتے …طاہرالقادری پاکستان عوامی تحریک کے قائدڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ’’ آمریت سے بدتر جمہوریت کو نہیں مانتے ‘‘ البتہ آمریت جتنی بری حکومت ہو تو کوئی ہرج نہیں ہے کیونکہ پرویز مشرف کی ساری کی ساری آمریت کو خاکسار ملک سے باہر بیٹھا نہ صرف مانتا رہا بلکہ اس کے خلاف کبھی آواز بھی بلند نہیں کی جبکہ اب مجھے خیال آیا ہے کہ ملکی معاملات کو بھی درست کرنے کی بات کرنی چاہیے اور کم ازکم کینیڈا میں ایسا نہیں ہوتا جو یہاں ہورہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے کی رشوت دی گئی ‘‘ جبکہ ہم حکومت کو نظر ہی نہیں آئے جواربوں روپے پلے سے بھی خرچ کرتے پھررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’انتظامی بنیادوں پر کم ازکم 35صوبے بننے چاہئیں‘‘۔ بلکہ پنجاب کے 35ضلعوں کا حق سب سے زیادہ ہے جہاں اگر صوبے نہ بنائے گئے تو مجھے ذاتی طورپر بہت افسوس ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’’گورنر کو صوبے کا سربراہ ہونا چاہیے‘‘ اور اس طرح خاکسار کی باری بھی کبھی آسکتی ہے، اور میں اس ضمن میں مایوس نہیں ہوں کیونکہ مایوسی کفر ہے اور مجھے کفر ہرگز اچھا نہیں لگتا اور میرا خیال ہے کہ کفر کو بھی اپنی کرامات سے دور کرنا پڑے گا ۔ آپ اگلے روز لاہور میں نجی ٹی وی سے گفتگو کررہے تھے۔ میں نواز شریف کی گارنٹی پر آیا…ارباب رحیم سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے کہا ہے کہ ’’میں نواز شریف کی گارنٹی پر واپس آیا‘‘ جس طرح اب پرویز مشرف ان کی گارنٹی پر واپس آنے والے ہیں کیونکہ عرب شہزادگان کی طرف سے انہیں راضی کرلیا گیا ہے جبکہ انہوں نے لشکر جھنگوی وغیرہ کو بھی گارنٹی دے رکھی ہے جس کے جواب میں ایسی تنظیموں نے پنجاب میں گڑ بڑ نہ کرنے کی گارنٹی دی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’زرداری حکومت کی مدت بڑھانا چاہتے تھے‘‘ حالانکہ انہیں یہ مدت گھٹانا چاہیے تھی کیونکہ وزرائے اعظم سمیت ان کے سارے زعماء اور افسر بھوکوں مررہے تھے اور کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا، انہوں نے کہا کہ ’’وہ دبائو کے باعث ایسا نہیں کرسکے‘‘ اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ دبائو میرا تھا جسے حاصل کرنے کے لیے وہ اکثر میرے پاس دبئی آیا جایا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ زرداری نے دبئی میں ایک دوست سے کہا تھا کہ ’’ایک سال کے لیے الیکشن بھول جائو‘‘ اور مجھے کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ وہ دوست میں ہی تھا۔ انہوں نے کہا کہ زرداری نے کہا تھا کہ ’’اب وہ صدر نہیں بن پائیں گے‘‘ چنانچہ میں نے سوچا تھا کہ میرا چانس نکل رہا ہے، اس لیے میں پہلی فرصت میں واپس آگیا ہوں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ’’دنیا‘‘ سے گفتگو کررہے تھے۔ بچے یا گھوڑے …؟ ایک اعلیٰ شخصیت نے کہا ہے کہ سکولوں میں گھوڑے بندھے ہوں تو بچوں کو کیا مستقبل دیں گے، تاہم اگر گھوڑوں کو باندھنے کے لیے جگہ دستیاب نہ ہوتو ہم گھوڑوں کو کیا مستقبل دیں گے لہٰذا ہمیں بچوں اور گھوڑوں دونوں کے مستقبل کا خیال رکھنا چاہیے ، چنانچہ سکولوں میں اگر بچوں کے لیے جگہ نہ ہو تو وہ مانگنے کا معزز اور نہایت نفع بخش پیشہ اختیار کرسکتے ہیں جو ملک عزیز میں روز افزوں ترقی پرہے جبکہ گھوڑے مناسب موقعوں پر گھوڑبازاری کے بھی کام ہوتے ہیں اور حکومت انہیں بیچ کر اور جملہ مسائل سے بے خبر ہوکر سر بھی سکتی ہے۔ نیز ہم نے بحر ظلمات میں جو گھوڑے دوڑائے تھے، ایک اطلاع کے مطابق وہ بھی سکولوں ہی میں باندھے جاتے تھے۔ بچوں کی صورت حال تو یہ ہے کہ یہ بڑے ہوکر ڈکیت وغیرہ بن جاتے ہیں جبکہ گھوڑوں سے اس قسم کا کوئی خدشہ موجود نہیں ہے کہ ایک گھوڑا بچپن سے لے کر جوانی تک گھوڑا ہی رہتا ہے۔ حتیٰ کہ دولہا کو گھوڑے پر بٹھائے بغیر کوئی شادی مکمل نہیں ہوتی، یعنی اگر گھوڑے نہ ہوں تو نہ شادیاں ہوں اور نہ اگلی نسل پیدا ہوسکے، اور ملک میں صرف گھوڑے ہی گھوڑے رہ جائیں، کوئی اسپ تاذی ہواور کوئی اسپ باسی اور جن کے بے لگام ہونے کا خطرہ بھی ہمیشہ موجود رہے گا، اور ظاہر ہے کہ ہم اتنے خطرات مول نہیں لے سکتے۔ خالد احمد بھی ہم سے جدا ہوگئے ! معروف شاعر، صحافی اور ڈرامہ نویس خالد احمد کا اچانک انتقال ادبی وصحافتی حلقوں کے لیے ایک گہرے صدمے سے کسی طورپر کم نہیں ہے، اچانک اس لیے کہ ان کی علالت کی بھی کوئی خبر نہ آئی اور وہ ہم سب کو داغ مفارقت بھی دے گئے۔ احمد ندیم قاسمی کے وقت سے ہی وہ ان کے مشہور رسالہ ’’فنون ‘‘ میں ’’لمحہ لمحہ‘‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا کرتے تھے، اور اب کالم بھی اسی عنوان سے لکھتے رہے۔ کئی شعری مجموعے انہیں زیب دے رہے ہیں۔ آخری وقت تک وہ لاہور سے باقاعدگی کے ساتھ شائع ہونے والے ماہ نامہ ’’بیاض‘‘ کی ادارت کے فرائض سرانجام دیتے رہے جو ہرماہ کی یکم تاریخ کو آپ کے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا تھا۔ وہ ایک مجلسی آدمی تھے اور محفلوں کی صحیح معنوں میں جان ہوا کرتے۔ یقین نہیں آرہا کہ ایسا ہنس مکھ اور یارباش آدمی ایک دم دنیا سے اٹھ گیا۔ حق تو یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھا۔ نجیب احمد اور نعمان منظور کے ساتھ مرحوم کے لیے خصوصی اظہار تعزیت بنتا ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ خالد احمد سمیت ہم سب کی کوتاہیاں معاف فرمائے اور مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے، آمین ! موت سے کس کو رستگاری ہے آج تم‘ کل ہماری باری ہے آج کا مطلع مرنے والے مر جاتے ہیں دنیا خالی کر جاتے ہیں