پیارے دکاندارو! ملک میں ماشاء اللہ آپ کی اکثریت بھی ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی حوالے سے دکاندار ہے جبکہ ہمارے سیاستدان تو ہیں ہی دُکاندار۔ کوئی اصلی ہیں تو کوئی اس معزز پیشے کی وجہ سے بن گئے ہیں۔ جب دکاندار ترقی کرجائے تو تاجر کہلانے لگتا ہے اس لیے اگر تاجر اور اقتدار یکجا ہوجائیں تو خدا وند تعالیٰ کی قدرت کا بے مثال نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ تاجر اور حکومت کے مل جانے سے ایک بے نظیر دوآتشہ تشکیل پاجاتا ہے۔ چونکہ ہم صحافی لوگ بھی کسی حد تک دکاندار ہی واقع ہوئے ہیں یعنی جابجا خبریں بیچنے کا دھندا کرتے ہیں اس لیے ہمارا آپ کے ساتھ قارورہ کافی ملتا ہے۔ چنانچہ اس صفحے کا اجراء ہمارے لیے بھی ضروری اور بے حد مفید تھا۔ چنانچہ نہ صرف یہ کہ ہم خود اس سلسلے کو خوش آمدید کہتے ہیں بلکہ اُمید ہے کہ یہ آپ لوگوں کی تمناّئوں اور خوابوں کے عین مطابق ہوگا جبکہ ہمارے لیے بھی اس سہولت کا امکان موجود ہے کہ آپ کی دکانوں سے سودا سلف اُدھار مل جایا کرے گا جس کے لیے پیشگی شکریہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے کاروبار میں برکت دے، آمین! (ادارہ ہفت روزہ گرو گھنٹال) سبق آموز واقعات ٭ دو دکاندار اکٹھے کہیں سفر پر جارہے تھے۔ ایک بولا کہ مجھے تو یاد ہی نہیں رہا کہ سیف کو مقفل کرنا ہے اور میں اسے کھلا ہی چھوڑ آیا ہوں۔ اب کیا ہوگا؟ دوسرے نے جواب دیا کہ فکر کی کوئی بات نہیں، ہم دونوں تو باہر ہیں۔ ٭ ایک انگریز نے ایک کیمسٹ کو فون کیا کہ آپ نے میری اہلیہ کی توہین کی ہے، آپ معافی مانگتے ہیں یا میں آپ کے خلاف مقدمہ کروں؟ کیمسٹ نے کہا: پہلے میری بات سن لیجئے۔ کل رات میں دکان بند کرنے کے بعد شٹر گرا رہا تھا کہ اندر فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے سوچا کوئی خاتون ہوگی اور اپنے بچے کے بارے میں کسی دوا کا پوچھ رہی ہوگی۔ چنانچہ میں نے شٹر اٹھائے، بھاگم بھاگ فون تک پہنچا، راستے میں اپنے ٹخنے پر چوٹ بھی لگوا بیٹھا۔ فون کا ریسیور اٹھایا تو وہ آپ کی اہلیہ تھیں جو تھرما میٹر کے استعمال کا طریقہ پوچھ رہی تھیں جو میں نے بتا دیا… ٭ ایک کریانہ فروش نے جب دیکھا کہ اس کے ساتھ والی دکان کا لڑکا اس کی بوری میں سے آٹا نکال رہا ہے تو اس نے دکاندار سے شکایت کی جس پر اس نے بتایا کہ لڑکا پاگل ہے، اس لیے درگزر کرو۔ چنانچہ وہ خاموش ہوگیا۔ چند دنوں بعد جب اس نے پھر دیکھا کہ لڑکا اس کی بوری میں سے آٹا نکال رہا ہے تو اس نے دکاندار سے سخت احتجاج کیا جس پر اس نے کہا کہ تمہیں بتایا تو تھا کہ لڑکا پاگل ہے۔ اس پر پہلا دکاندار بولا، اگر یہ واقعی پاگل ہے تو کبھی اپنی بوری سے آٹا نکال کر میری بوری میں بھی ڈالے۔ ٭ ایک صاحب تھرمس خریدنے کے لیے ایک دکان پر گئے۔ دکاندار نے اس کی مطلوبہ تھرمس کی قیمت بتائی اور کہا کہ فی الحال اس کے پاس اس قسم کی تھرمس کا سٹاک ختم ہوچکا ہے۔ چنانچہ وہ صاحب ساتھ والی دکان پر گئے جہاں تھرمس موجود تھی لیکن اس کی جو قیمت بتائی گئی وہ پہلی دکان کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ گاہک نے کہا کہ ساتھ والی دکان پر تو اس کی قیمت اتنی کم ہے‘ آپ کیوں اتنی مہنگی بیچ رہے ہیں‘ تو دکاندار نے کہا کہ پھر تھرمس آپ وہیں سے کیوں نہیں لے لیتے تو موصوف نے کہا کہ ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ دکاندار نے کہا، جب ہمارے پاس آئوٹ آف سٹاک ہوتی ہے تو ہم اسے مفت بیچتے ہیں۔ ٭ ایک سردار صاحب ایک دکان پر گئے اور پہلی نظر میں پسند آنے پر دکاندار سے پوچھا: اس فریج کی کیا قیمت ہے۔ تو دکاندار نے کہا: ہم نے یہ نہیں بیچنی۔ سردار صاحب نے سوچا کہ دکاندار شاید ان کی شخصیت سے مرعوب نہیں ہوا، اس لیے انکار کردیا، چنانچہ دوسرے دن انہوں نے ایک اعلیٰ درجے کا سوٹ زیب تن کیا اور دکان پر جاکر وہی سوال کیا لیکن دکاندار نے پھر وہی جواب دیا۔ انہوں نے سوچا کہ شاید یہ مجھے سکھ ہونے کی وجہ سے نظرانداز کررہا ہے۔ انہوں نے حجامت بنوائی اور پھر جب جاکر دکاندار سے سوال کیا کہ اس فریج کی کیا قیمت ہے اور آپ اسے فروخت کیوں نہیں کرتے تو دکاندار نے کہا: اس لیے کہ یہ فریج نہیں واشنگ مشین ہے! پسندیدہ شاعری ویسے بھی راستے ہی میں ہی پڑتی دکان ہے آیا کرو کہ آپ کی اپنی دکان ہے تقسیم ہی دکھائی تھی نقشے میں اس طرح آدھا ہمارا گھر ہے تو آدھی دکان ہے سیدھی طرف سے آئیں تو ہے سب سے آخری اور الٹے ہاتھ آئیں تو پہلی دکان ہے ہر چیز دستیاب ہے، اندر تو آئیے باہر سے لگ رہی ہے کہ چھوٹی دکان ہے اک ساکھ ہے بنائی ہوئی اہل شہر میں ہر شخص جانتا ہے، پرانی دکان ہے آجائیں آج اگر رُخِ روشن سمیت آپ بتی گئی ہوئی ہے، اندھیری دکان ہے اب کیا برے بھلے کا تفاوت روا رکھیں گاہک بھی اس طرح کے ہیں، جیسی دکان ہے پھیکا ہمارا کیوں نہ ہو پکوان اس قدر سب سے زیادہ شہر میں اونچی دکان ہے سودا سلف کہیں نظر آتا نہیں، ظفرؔ کیسے دکاندار ہو، کیسی دکان ہے آج کا مقطع یہاں پہ بکتا ہے اکثر اُنہی کا مال، ظفرؔ جو اپنی گرمئی بازار خود بناتے ہیں