الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست ہے…نواز شریف مستقبل کے مشکوک امیرالمومنین میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’نگران وزیراعظم کے تقرر کے بارے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست ہے‘‘ بشرطیکہ نگران وزیراعلیٰ کا فیصلہ بھی درست ہو۔ انہوں نے کہا کہ ’’نگران وزیر اعظم کے ساتھ تعاون کریں گے‘‘ کیونکہ اگر تعاون نہ کیا تو کام مزید خراب ہوگا جو کم بخت عمران خان نے ایک بار پھر اتنا بڑاجلسہ کر کے پہلے ہی کافی خراب کردیا ہے اور اب جماعت اسلامی کو بھی ورغلانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اب آپ ہی کہیے کہ ایسے آدمی پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے جبکہ ورغلانے کے لیے پہلے زرداری ہی کیا کم ہے جو اس نے تین چارسال تک مجھے بھی شیشے میں اتارے رکھا اور اب ضروری ہے کہ عمران خان نامی مصیبت کا مل کر مقابلہ کیا جائے جیسا کہ ہم دونوں مل کر اب تک عوام کا مقابلہ کرتے رہے ہیں اور انہیں چھٹی کا دودھ یاد آگیا ہے حالانکہ انہیں اس دودھ کو بھی یاد رکھنا چاہیے جس کی نہریں ہم نے پورے پنجاب میں بہادی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک بیان جاری کررہے تھے۔ مختصر عرصے میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے ریکارڈ فنڈز جاری کیے… پرویز اشرف سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ’’میں نے مختصر عرصے میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے ریکارڈ فنڈز جاری کیے ‘‘ جبکہ یہ فنڈز وصول کرنے والوں کی اپنی ہی فلاح و بہبود کے منصوبے تھے کیونکہ اتنے تھوڑے وقت میں کوئی اور منصوبہ کامیاب ہی کیسے ہوسکتا ہے، لہٰذا کاغذات میں یہ منصوبے یقینا مکمل ہوں گے اور اگر نہ بھی ہوئے تو کون پوچھے گا کیونکہ ساری قوم تو الیکشن میں مصروف ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ’’میری پالیسیوں پر تنقید ہوسکتی ہے، کسی مالی سکینڈل کا الزام نہیں لگایا جاسکتا‘‘ بلکہ رینٹل پاور پراجیکٹ کے بعد کسی مزید سکینڈل کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے جس کی تلوار ابھی تک سرپر لٹک رہی ہے حالانکہ ان حالات میں جبکہ ہماری حکومت بھی نہیں رہی، اس طرح کی قطع رحمی کی کچھ زیادہ گنجائش باقی نہیں رہ جاتی جبکہ زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ اب نیب وغیرہ جیسے ادارے بھی شیر ہوجائیں گے جو پہلے کم ازکم شرم لحاظ تو کرتے تھے کہ ملک کے سب سے بڑے انتظامی عہدیدار کو کیا پریشان کیا جائے جو قوم کے غم میں پہلے ہی اس قدر دبلا ہوگیا ہے کہ پہچانا ہی نہیں جاتا اور یہ ناشکری قوم میرے گردشکنجہ کسے جانے کا بھی بیتابی سے انتظار کررہی ہے، آخر ایسی عاقبت نااندیش قوم کیسے ترقی کرسکتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے اپنا الوداعی بیان جاری کررہے تھے۔ عوامی خدمت کے لیے مٹی کے ساتھ مٹی ہونا پڑتا ہے …شہباز شریف سابق وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’عوام کی خدمت کے لیے مٹی کے ساتھ مٹی ہونا پڑتا ہے‘‘ جس کا اندازہ جاتی عمرہ کے غریب خانے سے ہی لگایا جاسکتا ہے جو خود دورسے مٹی کا ایک ڈھیر ہی نظر آتا ہے اور شام کو اچھی طرح جھاڑنے سے بھی یہ مٹی پوری طرح ساتھ نہیں چھوڑتی اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بھائی صاحب بڑی مٹی دکھائی دیتے ہیں اور میں چھوٹی جبکہ رہی سہی کسر اس دُھول نے پوری کردی ہے جو اگلے روز سونامی عمران خان نے اڑائی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ ہمارے اور پیپلزپارٹی ہی کے ووٹ کاٹے گا کیونکہ چند سال پہلے تک یہاں اورتو کسی پارٹی کا وجود تک نہیں تھا اس لیے کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن دیکھ کر پیپلزپارٹی والوں کو بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حالت ان کی بھی ہمارے ہی جیسی ہے جس کے مزید خراب ہونے کے امکانات روز بروز بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اور ٹکٹ کے طلبگاروں نے ہمارا جینا الگ سے حرام کررکھا ہے اور اصل خطرہ یہ بھی ہے کہ ٹکٹ سے محروم رہ جانے والے بھی اپنے ووٹ عمران خان ہی کے کھاتے میں ڈال کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کریں گے جبکہ تبدیلی کے منتظر طبقات پریشان کرنے کے لیے الگ ہوں گے حالانکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ اس ملک میں تبدیلی کبھی آہی نہیں سکتی۔ آپ اگلے روز لاہور میں مختلف وفود سے ملاقات کررہے تھے۔ زندگی یا موت…؟ دوسری سب باتوں سے قطع نظر ، جنرل (ر) پرویز مشرف کا یہ سوال بالکل بجا اور برمحل ہے کہ جو پاکستان وہ چھوڑ کر گئے تھے، کہاں ہے کیونکہ حالیہ حکمرانوں نے اپنی بدحکومتی اور لوٹ مار سے ملک کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ بجلی اور گیس کی صورت حال نے ہی ان مہربانوں کے منہ پر وہ کالک مل دی ہے کہ لوگ بیشک پرویز مشرف اور ان کی پارٹی کو ووٹ نہ دیں، اگر ان میں ذراسی بھی غیرت موجود ہے تو سارے فساد کی جڑا ن دو بڑی پارٹیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں اور اگر عوام نے بغیر کسی دبائو کے اور اپنی مرضی سے ووٹ دینے ہیں تو وہ ان خواتین وحضرات پر ضائع کرنے کی بجائے کسی کنوئیں میں پھینکنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ جوکچھ ان مہربانوں نے اس بدنصیب ملک کے ساتھ کیا ہے وہ ایک کھلی کتاب کی طرح سب کو نظر آرہا ہے کیونکہ یہ سب ان کی آنکھوں کے سامنے اور ان کے ساتھ ہوتا رہا ہے اور اگر لوگوں نے اپنے اصلی دشمنوں کو اب بھی نہ پہچانا تو وہ اپنے دشمن خود ہوں گے اور انہیں یہ بھی اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے شکنجے سے باہر نکلنے کا یہ آخری موقع ہوگا اور موقعے بار بار نہیں آیا کرتے جبکہ یہ مہرعوام نے اپنی پرچی پر نہیں بلکہ اپنی موجودہ اور آئندہ نسلوں کی قسمت پر لگانی ہے جبکہ آزمائے ہوئوں کو آزمانا جہالت ہی نہیں، پرلے درجے کی اور ناقابل معافی فروگزاشت بھی ہوتی ہے ۔ ضرورت ہے ؟ ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہذا مشتہر کیا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو لاہور شہر سے امیدواروں کی طرف سے ٹکٹ کے لیے درخواستیں مطلوب ہیں جو کہ شکست کے خطرے کے پیش نظر کوئی اس طرف کا رخ نہیں کررہا حالانکہ ان خواتین وحضرات کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہار کر بھی اخلاقی فتح انہی کی ہوگی کیونکہ اخلاق و انصاف کے جو جھنڈے پارٹی نے پچھلے پانچ برسوں میں گاڑے ہیں ان کے پیش نظر متوقع امیدواروں کو دنیا داری کا زیادہ ثبوت نہیں دینا چاہیے کیونکہ دنیا کا مال دنیا ہی میں پڑا رہ جائے گااور جو مال پارٹی کے زعما نے اکٹھا کیا ہے وہ بھی ساتھ لے کر نہیں جائیں گے بلکہ ان کی اولادیں ہی اس پر طوعاً و کرہاً گزارا کرتی نظر آئیں گی ۔ جو خواتین و حضرات ٹکٹ کے لیے درخواست نہ دینا چاہتے ہوں وہ جذبۂ خیرسگالی اور صلہ رحمی کے طورپر ٹکٹ کی فیس ضرور مرحمت فرمادیں کیونکہ یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ پارٹی کا روزگار یکلخت بند ہوگیا ہے اور سخت کڑکی کا عالم ہے چنانچہ جو دے ، اس کا بھی بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا ۔ دس دنیا ، ستر آخرت، دے جا سخیا راہ خدا۔ ؎ ہاں بھلا کر، ترا بھلا ہوگا اور درویش کی صدا کیا ہے المشتہر : پاکستان پیپلزپارٹی عفی عنہ ، آج کا مطلع محبت کرہی بیٹھے ہیں تو اب اظہار کیا کرتے اس الجھن سے اسے بھی جاکے اب دوچار کیا کرتے (نوٹ: گزشتہ روز قطعے میں سہواً تیر کی بجائے شیر کا لفظ شائع ہو گیا۔ قارئین تصیح فرما لیں۔)