پیارے ڈاکوئو! اگرچہ چور حضرات کی طرف سے ہم پر سخت دبائو تھا کہ ان کا صفحہ پہلے شروع کیا جائے لیکن ہم ایمانداری سے سمجھتے ہیں کہ چوری کا پیشہ خاصا آئوٹ آف فیشن ہوچکا ہے اور اب ڈکیتیوں ہی کا دور دورہ اور بول بالا ہے کیونکہ ہماری خدا ترس پولیس ڈکیت حضرات کے ساتھ خصوصی تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی حسب توفیق وردی کے بغیر یا وردی میں ہی جان جوکھم کے اس کام میں شرکت کرتی ہے جبکہ انہیں بعض معزز وزراء کرام اور اراکین اسمبلی کا بھی دلی تعاون حاصل ہوتا ہے کیونکہ اس کارِ خیر میں وہ خود بھی حصہ دار ہوتے ہیں حتیٰ کہ رسہ گیری کا رواج بھی اب پرانا ہو کر روبہ زوال ہے کیونکہ یہ کام زیادہ نفع آور بھی ہے اور گوہر مقصود بھی فوراً حاصل ہوجاتا ہے چونکہ نوجوانوں کو نوکریاں اور دیگر روزگار دستیاب نہیں ہے اور سرکار ی نوکری اگر ملتی بھی ہے تو بعداز خرابیٔ بسیار، یعنی وہ باقاعدہ خریدنا پڑتی ہے۔ اس لیے نئی نسل اس معزز پیشے کی طرف زیادہ راغب ہے اور جو نہایت تیزی سے پھل پھول بھی رہا ہے۔ اس لیے بھی اس صفحے کا اجرا بے حد ضروری ہوگیا تھا بعض عاقبت نااندیش ڈکیتی وغیرہ کے دوران مزاحمت سے مارے بھی جاتے ہیں لیکن اس میں بھی ڈکیت حضرات کا کچھ زیادہ مقصد نہیں ہوتا کیونکہ ان کی زندگی ہی اتنی ہوتی ہے اور وہ اس وقت کسی اور وجہ سے بھی مر سکتے ہیں۔ بقول شاعر جو ڈاکوئوں سے، ظفر، بچ رہیں گے، وہ خوش بخت محافظوں کی حفاظت میں مارے جائیں گے آپ کی قیمتی رائے اور مفید مشوروں کا انتظار رہے گا ۔ سبق آموز واقعات ٭شام کا جھٹ پٹا تھا کہ گلی کی نکڑ سے گزرتے ہوئے شخص کو ایک آدمی نے روک کر کہا کہ میں بہت غریب آدمی ہوں اور میں نے دو دن سے کھانا بھی نہیں کھایا۔ میرے پاس صرف یہ پستول ہے جس میں چھ گولیاں بھری ہوئی ہیں، اس لیے جو کچھ تمہاری جیب میں ہے فوراً نکال کر میرے حوالے کردو! ٭ مشہور امریکی مزاح نگار مارک ٹوین لکھتے ہیں کہ غربت کی وجہ سے ہم کتا تو نہیں رکھ سکتے تھے، تاہم باہر سے کئی خطرے کی بو سونگھ کر ہم سب کتوں کی طرح رات کو بھونکا کرتے تھے تاکہ ڈاکو یہ سمجھ کر بھاگ جائیں کہ گھر میں خطرناک کتے موجود ہیں! ٭ ڈاکوئوں نے ایک سیٹھ کے گھر پر واردات کی غرض سے دھاوا بولا تو وہاں سے کچھ بھی دستیاب نہ ہوا چنانچہ وہ اس کی موٹی بیوی کو گاڑی میں لاد کر ساتھ لے گئے اور سیٹھ سے کہتے گئے کہ اگر کل شام تک تم نے دو لاکھ روپے ادا نہ کیے تو ہم اسے چھوڑ دیں گے! ٭ایک ڈاکو نے پستول دکھا کر ایک راہ گیر کی جیب خالی کروائی ہی تھی کہ اوپر سے پولیس والے بھی کہیں سے آگئے اور اسے دبوچ لیا جس پر ڈاکو نے کہا کہ دیکھ لو۔ میرے پاس نقلی پستول ہے اور میں تو مذاق کررہا تھا جس پر پولیس والوں نے جواب دیا کہ ہم بھی نقلی پستول والے ہیں اور وردی پہن کر اسی کام کے لیے نکلے تھے لہٰذا رقم ہمارے حوالے کرو! ٭ایک شخص نے تھانے میں جا کر اطلاع دی کہ وہ گاڑی پر آرہا تھا کہ ڈاکوئوں نے روک کر اس سے 10 ہزار نقد اور لیپ ٹاپ چھین لیے اور رفو چکر ہوگئے۔ اس پر پولیس والوں نے خوش قسمتی سے پوچھا کیا آپ کے پاس اسلحہ نہیں تھا؟ تو موصوف نے جواب دیا کہ میرے پاس پستول تو تھا لیکن اس پر ان کی نظر ہی نہیں پڑی ورنہ وہ بھی لے جاتے! مفید مشورے ٭خواتین سے پرس وغیرہ جیسی چھچھوری چیزیں چھیننے کے بجائے بینکوں پر توجہ دیں جس کے لیے بینک گارڈز کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ بصورت دیگر بھی اگر آپ اپنے ہی پائوں پر کھڑے رہنا چاہتے ہیں، تو بھی کسی قسم کا مسئلہ پیش نہیں آئے گا اور کسی گاڑی یا موٹرسائیکل کا تکلف کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ اس سے فارغ ہو کر پیدل ہی خراماں خراماں واپس یا کسی اور بینک کی طرف روانہ ہوجائیں، پولیس اس میں دخل در معقولات مناسب نہیں سمجھتی، کراچی کی روشن مثال سب کے سامنے ہے، ہمت مرداں، مدد خدا! ٭مزاحمت پر اپنے شکار کو قتل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کی ٹانگ وغیرہ پر گولی مار کر اسے خوفزدہ کر دینا ہی اکثر اوقات کافی ہوتا ہے کیونکہ بصورت دیگر آپ کے ظالم اور سفاک ہونے کا بھی شبہ ہوسکتا ہے، اس لیے اپنی ساکھ کو قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ ٭اپنے گینگ میں ایک آدھ خاتون کو بھی شامل رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اس سے بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ بعض خواتین اکیلے بھی اس کام کا بیڑہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ سلطانہ ڈاکو اور بھارت کی پھولن دیوی کی روشن مثال سب کے سامنے ہیں جبکہ موخر الذکر الیکشن لڑکر وہاں کی رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئیں، یعنی ع ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا ٭جگا ڈاکو کی سوانح عمری کا مطالعہ بھی مفید ہوسکتا ہے اگر وہ اب تک نہ لکھی گئی ہو تو اس سلسلے میں خود بھی پیش رفت کرسکتے ہیں تاہم اس کام سے فارغ ہو کر، یعنی عمر کے آخری حصے میں اپنی سرگزشت لکھنا نہ بھولیے تاکہ اس پیشے سے منسلک ہونے والے نوجوانوں کی رہنمائی ہوسکے۔ ٭تاکیداً عرض ہے کہ اپنی جمع پونجی کسی بیرون ملک بینک میں رکھوائیں جیسا کہ ہمارے سیاسی ڈاکوئوں کا وتیرہ ہے کہ ڈالروں میں رکھوائیں گے تو اس نیک کمائی میں ازخود ہی اضافہ ہوتا رہے گا جبکہ روپے کی قدر تو ممکن ہے کہ خدانخواستہ صفر ہی ہو کر رہ جائے! پسندیدہ شاعری کیا دُبدھا ہے، بھائی ڈکیت گیٹ کھلا ہے، بھائی ڈکیت اس روزی پر آپ کا بھی حق بنتا ہے، بھائی ڈکیت ناکہ بھی کچھ دور نہیں وہ تھانہ ہے، بھائی ڈکیت کھانے کا فرمائیں شوق میز لگا ہے، بھائی ڈکیت آخر کس مجبوری سے منہ ڈھانپا ہے، بھائی ڈکیت سوئے ہیں پہرے دار سبھی سب اچھا ہے، بھائی ڈکیت وردی میں آنے کا کچھ اور مزہ ہے، بھائی ڈکیت پہلے آنے والوں سے یہی بچا ہے، بھائی ڈکیت بات ظفر کی بھی سن لیں کیا کہتا ہے بھائی ڈکیت آج کا مطلع اگر اس کھیل میں اب وہ بھی شامل ہونے والا ہے تو اپنا کام پہلے سے بھی مشکل ہونے والا ہے