یہ بہت پہلے کی بات ہے جب نجم سیٹھی لاہور سے ہفت روزہ ’آج کل ‘نکالا کرتے تھے ، ان کے ساتھ تو میری یاد اللہ نہیں تھی، البتہ ان کے نائب خالد احمد چونکہ میری طرح اردو زبان اور الفاظ کے حوالے سے خبط کی حدتک وابستہ تھے اور ہر شمارے میں مختلف الفاظ کی تاریخ اور معانی کے ضمن میں دلچسپ اور معلومات افزا ایک گوشہ مخصوص رکھتے تھے اور جس بحث میں کبھی کبھار میں بھی شرکت کیا کرتا تھا، ایک بار میں ان سے ملنے گیا اور گپ شپ کے بعد نجم سیٹھی سے ملے بغیر ہی واپس آگیا۔ بعد میں خالد احمد نے بتایا کہ سیٹھی صاحب نے اس کا نوٹس لیا تھا۔ اب موصوف نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھایا ہے تو ذہن کے یاد خانے میں ایک فلم سی چلنے لگی ہے جس کا تعلق جگنو محسن کے چچا سجاد حیدر کرمانی مرحوم سے ہے جن کا شمار اوکاڑہ کے ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو پرلے درجے کے اپ رائٹ اور صحیح معنوں میں عوام دوست ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ جنس تو اب ویسے ہی نایاب ہوچکی ہے ۔اب تو اقتدار وسیاست میں کرپشن کو عبادت سمجھا جاتا ہے۔ وہ پرانے مسلم لیگی تھے اور متعدد بار قومی و صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور ہمیشہ کامیابی حاصل کی اور وفاقی وزیر بھی رہے۔ علاوہ ازیں ضلع کونسل کے منتخب چیئرمین بھی۔ اسی زمانے میں مجھے اپنے منجھلے بیٹے کے لیے نوکری کا مسئلہ درپیش ہوا کیونکہ وہ ایم اے نہ کرسکا تھا۔ اتفاق سے ان دنوں اوکاڑہ سے تین وفاقی وزیر تھے۔ میاں محمد یٰسین خان وٹو، رائو سکندر اقبال اور شاہ صاحب تینوں میرے قدردان تھے چنانچہ یہ بات میں نے تینوں کے کان میں ڈال رکھی تھی۔ میاں یٰسین وٹو وزیر خزانہ ، رائو سکندر اقبال وزیر خوراک اور کرمانی وزیرتعلیم تھے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ یٰسین وٹو نے زرعی ترقیاتی بینک ،رائو صاحب نے نیشنل بینک اور شاہ صاحب نے نیشنل فرٹیلائزرز میں نوکری کا پروانہ تقریباً اکٹھا ایک ساتھ ہی مجھے بھجوا دیا۔ زرعی بینک کو ترجیح اس لیے دی گئی کہ برخوردار اوکاڑہ ہی میں تعینات رہے تاکہ کھیتی باڑی پر بھی توجہ دے سکے۔ یہ تینوں مرحوم ہوچکے ہیں لیکن میں ان سب کو اپنے محسنوں میں شمار کرتا ہوں۔ شاہ صاحب کا کمال یہ تھا کہ لوگوں کے مسائل حل کرنے میں ان سب سے زیادہ متحرک بھی وہی تھے، اور کسی سے گاڑی میں پٹرول تک ڈلوانے کے روادار نہ تھے۔ رہائش ہمیشہ اپنے گائوں میں رکھی جبکہ گھر میں ٹیلیفون لگوانے کے بہت عرصہ تک خلاف رہے، اسے ایک بہت بڑی مصیبت خیال کرتے تھے کہ یہ ان کے لیے ایک مسلسل پریشانی کا پیغام تھا، چونکہ وفاقی وزیر تھے، اس لیے صدر اور وزیراعظم کا رابطہ بھی ان کے ساتھ ضروری تھا، اس لیے، شاید زبردستی ان کے ہاں فون لگوادیا گیا۔ رینالہ خورد سے جب بھی اوکاڑہ آتے، میرے چیمبر پر لازمی طورپر تشریف لاتے۔ ایک دفعہ آئے تو میں نے کہا کہ شاہ صاحب ، اللہ کا حکم ! کہنے لگے کیا ہوا ؟ میں نے کہا ،سنا ہے آپ کے گھر میں ٹیلیفون لگ گیا ہے ! بہت ہنسے اور کافی دیر تک ہنستے رہے۔ ان کی درویشی کی دوسری اور زبردست مثال یہ ہے کہ دوسرے ہمعصر سیاستدانوں کی طرح الیکشن مہم پر کبھی نہیں نکلے کیونکہ اسے بھی وہ اسراف میں شمار کرتے تھے۔ ان کا معمول یہ تھا کہ جس گائوں میں کنویسنگ کے لیے جانا مطلوب ہوتا، علی الصبح وہاں کی مسجد میں پہنچ جاتے۔ اہل دیہہ کے ساتھ فجر کی نماز ادا کرکے اور دعا کے بعد انہیں بتاتے کہ وہ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ کھاتے پیتے خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دوسروں کی طرح وہ بھی الیکشن مہم پر لاکھوں کروڑوں خرچ کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے ہمیشہ اس سے احتراز کیا، اور، معمول کے شورشرابے کے بغیر الیکشن میں ہمیشہ کامیابی حاصل کی، اور، کبھی لوٹا کریسی کا شکار نہ ہوئے بلکہ پیپلزپارٹی کے سنہری زمانے میں بھی آخری دم تک اپنی جماعت سے وابستہ رہے اور پارٹی نے بھی ہمیشہ انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ انہیں کبھی کوٹ پتلون میں نہیں دیکھا، شلوار قمیض زیب تن کرتے اور زیادہ سے زیادہ واسکٹ ۔چونکہ مفت کے خدمت گار تھے، اس لیے حاجتمندوں کا ایک ہجوم ان کے ہم رکاب ہوتا۔ مقامی انتظامیہ کے نزدیک بھی وہ سب سے زیادہ عزت واحترام کے قابل تھے۔ کوئی چارسال پہلے میری اہلیہ کا انتقال ہوا تو اس وقت بیرون ملکی دورے پر تھے جہاں سے بطور خاص تعزیتی پیغام بھجوایا ، حالانکہ میں ان کا ووٹر بھی نہیں تھا۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ افسوس تم کو میرؔسے صحبت نہیں رہی سو!نجم سیٹھی نے پنجاب کا نگران وزیراعلیٰ مقرر ہونا تھا اور اس بہانے سے مجھے اپنے ایک مہربان دوست کی یادوں کو تازہ کرنے کا بہانہ دستیاب ہونا تھا۔ اپنی بے شمار خوبیوں کی بناء پر اس علاقے کے لوگ اب بھی انہیں نہایت اچھے لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔ بیشک ان کے دور اقتدار میں کوئی بڑا ڈویلپمنٹ منصوبہ تشکیل پذیر نہ ہوا ہو لیکن عوام کے ذاتی اور مقامی مسائل انہوں نے ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کے دلوں میں اپنا گھر کیے رہے۔ اور، اکثر حوالوں سے علاقے بلکہ ضلع بھر میں ان کی مثال دی جاتی ہے۔ ایں کاراز تو آید ومرداں چنیں کنند عام انتخابات سر پر ہیں، اگرچہ ان کے انعقاد کے حوالے سے ابھی تک شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے، تاہم اگر یہ ہوجاتے ہیں تو یہ ملک کی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں ایک عظیم تبدیلی کا بھی پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر آرٹیکل 62-63پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جاسکا تو زیادہ تر ایسے لوگ منتخب ہوکر آئیں گے جو سید سجاد حیدر کرمانی جیسے یاد گار زمانہ مقامی لیڈروں میں شامل ہونے کی تاب و تواں رکھتے ہوں کہ کم لوگ اس میدان میں ایسے نکلتے ہیں جن کی مثال پیش کی جاسکتی ہوکیونکہ بے لوث عوامی خدمت کے علاوہ سیاسی جدوجہد کا اور کوئی مقصد بھی نہیں ہوسکتا۔ سواگر یہ الیکشن بخیر وخوبی انعقاد پذیر ہوتے ہیں یا کسی وجہ سے التوا کا شکار ہوجاتے ہیں دونوں صورتوں میں اس سے قومی وملکی بہتری کی صورت نکلنے کی دعا ہر پاکستانی کے لبوں پر ہے۔ اس سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں پہلی بار جمہوری حکومت کا اپنی میعاد پوری کرنا صحیح معنوں میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر قوم اس سنگلاخ سے کامیابی کے ساتھ گزر سکتی ہے تو الیکشن کا پل صراط بھی بغیر کسی قباحت کے پار کرسکتی ہے۔ الیکشن میں رخنہ اندازی پر تلے ہوئے عناصر کو اگرچہ کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، اور طالبان کی تازہ دھمکی بھی اسی حوالے سے ہے کہ وہ الیکشن کسی صورت نہیں ہونے دیں گے تاہم عوام، آرمی اور عدلیہ بہرصورت الیکشن کے معاملے میں ایک صفحے پر ہیں اور وہ ہرصورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس سلسلے میں ان ملکوں کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے جہاں جنگ کے دنوں میں الیکشن کو ممکن بنادیا گیا۔ اس لیے یہ جو کہا جاتا ہے کہ ع مارنے والے سے برتر ہے بچانے والا اسی طرح، جوطاقتیں الیکشن کے حق میں ہیں کسی صورت بھی انہیں کمزور نہیں کہا جاسکتا اور اب سید سجاد حیدر کرمانی کے لیے ایک بار پھر دعائے مغفرت ! آج کا مطلع برائے نام ہے یا سربسر محبت ہے وہ منہ سے کیوں نہیں کہتا اگر محبت ہے