اوپر جو میں نے لکھا ہے کہ ’’استعارہ‘‘ میں یہ جملہ پوچھنے کے بعد کہ کیسا زمانہ آگیا ہے، ظفر اقبال کو غالب سے بڑا شاعر قرار دیا جارہا ہے۔ اس پر فاروقی صاحب کو اپنا ردعمل ظاہر کرنا چاہیے تھا، تو اس لیے کہ اور کسی کے ذمے یہ بات لگائی ہی نہیں جا سکتی تھی کیونکہ ان دنوں بلکہ کافی عرصے سے بھارت میں فاروقی ہی میرے اصل پروموٹر تھے۔ نیز یہ کہ پوری اردو دنیا، بالخصوص بھارت میں جو غالب کو ایک عقیدے کے طور پر مانا جاتا ہے، اس بیان کو سب نے ٹھنڈے پیٹوں کیونکر برداشت کرلیا جس سے غالب کی ہتک کا بھی پہلو نکلتا تھا۔ علاوہ ازیں فاروقی صاحب ہی نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’شعر شور انگیز‘‘ جو چار جلدوں پر مشتمل ہے، میں جا بجا میرے اشعار نقل کر رکھے ہیں اور بعض جگہ میرے اور میرؔ کے اشعار کا تقابل بھی پیش کیا گیا ہے اور جس پر مشفق خواجہ (خامہ بگوش) نے اپنی ایک تحریر میں اس کا مذاق بھی اڑایا اور جو میرے کلیات ’’اب تک‘‘ جلد دوم کے دیباچے کے طور پر بھی شامل ہے۔ چنانچہ یہ بات اس لیے بھی نظرانداز کیے جانے کے قابل نہ تھی کیونکہ غالب کے انتقال کے بعد پہلی بار، جھوٹے منہ بھی کسی نے کسی کو غالب سے بڑا شاعر کہنے کی جسارت نہیں کی ہے، غالب کے برابر بھی کسی کو قرار دینا اگرچہ انتہائی غیرمعمولی بات ہے۔ فیس بک پر یہ ہنگامہ کھڑا ہونے کے بعد میں نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے بھی یہ پوچھنا ضروری سمجھا کہ آپ کے پرچے میں جو یہ بات شائع ہوئی تھی تو اس کا ذریعہ کیا تھا، لیکن انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا اور بتایا کہ حقانی القاسمی ہی اس کے باقاعدہ ایڈیٹر تھے۔ یہ بات وہی بتا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے پروفیسر ابوالکلام قاسمی کا نام بھی لیا اور ان حضرات کے فون نمبرز بھی مرحمت کیے لیکن وہ بھی اس سلسلے میں کوئی رہنمائی نہ کرسکے۔ بعد میں میرے اور فاروقی صاحب کے تعلقات کشیدہ بھی رہے۔ ہوا یوں کہ انہوں نے شب خون میں’’زبانی معاملات‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس پر میں نے انہیں خط لکھا کہ اس میں انہوں نے فلاں فلاں الفاظ کے جو معنی بتائے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خط چھاپ دیا لیکن اس خط کا جو جواب انہوں نے چھاپا اس میں بھی بعض الفاظ کے معنی درست نہیں تھے جس کا ذکر میں نے ان کے نام اپنے اگلے خط میں کیا جو انہوں نے شائع نہ کیا۔ جس پر میں نے انہیں ایک زبردست احتجاجی خط لکھا اور قطع تعلقی اختیار کرلی اور یہ سلسلہ دو تین سال تک چلا۔ بعد میں جدہ میں ان کے اعزاز میں ہونے والے ایک مشاعرے میں ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ اس لیے ناراض ہوئے کہ آپ نے سمجھا کہ میں وہ خط نہیں چھاپوں گا… اور درحقیقت وہ خط انہوں نے کبھی نہیں چھاپا۔ میرا مطلب یہ نہیں تھا کہ میں اردو ان سے زیادہ جانتا ہوں کیونکہ ایک پنجابی ڈھگا ایسا دعویٰ کیسے کرسکتا ہے۔ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ ادبی معاملات زیربحث رہنے چاہئیں اور میرے سمیت غلطی کوئی بھی کرسکتا ہے۔ بہرحال اس طرح وہ ’’مقاطعہ‘‘ ختم ہوا اور میری غزلیں’’شب خون‘‘ میں دوبارہ چھپنے لگیں۔ اوپر ’’استعارہ‘‘ والی جو مثال دی گئی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی نقاد محتاط بلکہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی محتاط واقع ہوئے ہیں۔ اس معاملے کی میرے لیے تصدیق، ظاہر ہے کہ لازمی تھی، جو میں نے کرنے کی کوشش بھی کی۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ نقاد حضرات کے نزدیک سب کچھ لکھنے کے لیے ہی نہیں ہوتا، کچھ باتیں زبانی کرنے کیلئے بھی ہوتی ہیں تاکہ ان کی تردید یا ان کے بارے لاعلمی کا اظہار کیا جاسکے۔ اس کی ایک نہایت دلچسپ مثال اور بھی رہی کہ تقریباً 18سال پہلے جب میں لاہور میں اردو سائنس بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل تھا تو معروف شاعر اسلم کولسری میرے ساتھ اسی ادارے میں کام کرتے تھے۔ ایک دن (غالباً) بنکاک کے ایک مشاعرے میں شرکت کرنے کے بعد واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ وہاں پہلے ہی دن، سب یکجا بیٹھے تھے کہ ڈاکٹر گوپی چند بھی پھرتے پھراتے وہاں آگئے اور چھوٹتے ہی یہ اطلاع دی کہ اس صدی کی سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والی کتاب ظفر اقبال کی ’’ھے ہنومان‘‘ ہوگی (جو انہی دنوں شائع ہوئی تھی)۔ انہی دنوں میں نے اپنے مضامین میں ایک دو بار لکھا کہ نارنگ صاحب اپنے اس بیان کی تصدیق یا تردید کریں جو انہوں نے آج تک نہیں کی۔ میں نے ان کی خاموشی کو تائید ہی سمجھا اور چپ ہورہا۔ بعد میں ان سے لاہور اور پھر اسلام آباد میں ملاقات بھی ہوئی لیکن میں نے ان سے دانستہ اس کا ذکر نہیں کیا اور ان کی مصلحت کو مجبوری سمجھ کر انہیں ہراساں کرنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ میں صحیح یا غلط طور پر یہی سمجھا تھا کہ یہ کتاب چونکہ اہل ہنود کے ایک دیوتا شری ہنومان جی کے حوالے سے ہے اور خود سے منسوب اپنے قول کی تصدیق سے وہ ہندو ہونے کی بنا پر زیر عتاب آسکتے ہیں، حالانکہ محض ایک استعارے کے طور پر ہی اس کتاب میں ہنومان جی کو پیش کیا گیا تھا اور خدانخواستہ ان کی توہین وغیرہ ہرگز مقصود نہیں تھی کیونکہ خود میرا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا اور اگر انہیں ایسے ردعمل کا خدشہ نہ ہوتا تو وہ خود اس پر بحث کا آغاز کرتے۔ مقصد کسی کو جھوٹا ثابت کرنا یا کسی کی مصلحت کوشی پر طنز و تشنیع ہرگز نہیں۔ ویسے بھی نارنگ مذکورہ دوستوں کی طرح میرے محبت کرنے والے اور مہربان بھی ہیں۔ انہوں نے میری درخواست پر ’’اب تک‘‘ کی دوسری جلد کے لیے سرورق پر سجانے کیلئے جو تحریر بھیجی تھی وہ آفتاب نے اپنے آرکائیوز میں شامل کی ہوئی ہے جبکہ دوسری جلد کا انتساب بھی انہی کے نام اور تیسری جلد کا شمس الرحمن فاروقی کے نام۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جن لوگوں سے میں گہرے اور دلی تعلقات کا دعویٰ رکھتا ہوں، ان کے ساتھ کسی معاملے پر اختلاف رائے رکھنا بھی اپنا حق سمجھتا ہوں۔ اگرچہ آبگینوں کو ٹھیس لگنے لگانے کے بارے میں احتیاط کرنی چاہیے لیکن ان حضرات کے ساتھ میری دیرینہ وابستگی شعرو ادب کے حوالے سے ہے، کسی رشتے داری پر استوار نہیں، پھر یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی تحریوں میں بحثوں اور اختلاف رائے کے دروازے خود کھولے ہیں اور ان کی انصاف پسندی کا سب سے بڑا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی ایک دوسرے کے اس قدر مخالف ہیں کہ ان پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہونے کا محاورہ بھی اگر چسپاں کیا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہوگا اور یہ بات ساری اردو دنیا کو اچھی طرح سے اور تمام تر تفصیلات کے ساتھ معلوم ہے کہ ان کا کسی ادبی معاملے پر متفق ہونا ممکنات ہی سے باہر ہے لیکن میں ایک واحد مثال ہوں کہ جس پر یہ دونوں حضرات ہم رائے ہیں اور میں اس پر بجا طور پر فخر کرسکتا ہوں اور مجھ سے اس لیے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ میں ان کے بارے میں کسی بھی طرح کی بدنظمی کا شکار ہوسکتا ہوں۔ کم از کم میری سلیٹ بالکل صاف ہے۔ محبت اور تعلق میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں لیکن جس محبت کی جڑیں مضبوط ہوں اور جو خالص ادبی حوالے سے ہو، وہ باقی اور محفوظ ہی رہتی ہے۔ لہٰذا میرے لیے یہ دونوں محبوب و محترم ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ہی میں نے انہیں (الگ الگ) حال ہی میں شائع ہونے والے اپنے کلیات کا ایک ایک نسخہ پہنچایا ہے اور پوری دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ مجھے اپنے بارے میں ان کی رائے کا ہمیشہ احترام رہے گا، جیسا کہ اب تک رہا ہے۔ ہاں، آپس میں لڑائی جھگڑا کروانے یا اسے طول دلوانے والے بھی بہت ہیں اور فیس بک پر ان کی آجکل رونق لگی دیکھی جاسکتی ہے جبکہ ان کے رنگ برنگے کمنٹس انتہائی دلچسپ بھی ہوتے ہیں اور انہیں اپنی پسند کی رائے دینے کا پورا پورا حق بھی حاصل ہے کیونکہ یہ بھی ایک ادبی مصروفیت ہے جس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آج کا مقطع دوستی ایک مکاں کی طرح ہوتی ہے سچ پوچھو تو، ظفر گاہے بگاہے جس کی مرمت ہوتی رہنی چاہیے (جاری) تصحیح: میرے گزشتہ روز کے کالم میں کتاب کا نام سہواً ’’شعرِ شرر انگیز‘‘ شائع ہو گیا۔ اصل فقرا یوں ہوگا ’’فاروقی ’شعر شور انگیز‘ کی چار جلدوں سمیت مجھے اپنی ہر تصنیف بھجوانے کی کرم فرمائی کرتے رہے ہیں‘‘ قارئین نوٹ فرمالیں۔