عوام کسی مداری کے جھانسے میں نہیں آئیں گے…نوازشریف قائدِ انقلاب کامریڈ نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’عوام کسی مداری کے جھانسے میں نہیں آئیں گے‘‘ کیونکہ خاکسار نے ان احمقوں کو جو جھانسہ دے رکھا ہے، اس سے باہر نکلیں گے ہی تو کسی دوسرے کے جھانسے میں آئیں گے، اس لیے ہم ان کی طرف سے مکمل طور پر مطمئن ہیں اور ساتھ ساتھ عمران خان کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعائیں بھی مانگ رہے ہیں کیونکہ جو بھی گڑبڑ کرنی ہے اسی کی طرف سے ہی کی جائے گی۔ پیپلزپارٹی والے تو پہلے ہی فارغ ہیں اور ہمارے فارغ ہونے کا خطرہ بھی بدستور موجود ہے کیونکہ نوجوانوںنے تو باقاعدہ اس کے حق میں اودھم مچا رکھا ہے حالانکہ انہیں لیپ ٹاپ دے دے کر ہم پھاوے ہوگئے ہیں، کیسا زمانہ آگیا ہے، ہیںجی؟ انہوں نے کہا کہ ’’تبدیلی کا جھوٹا نعرہ لگانے والوں کا کوئی مستقبل نہیں‘‘ اس لیے ہم نے تبدیلی کا سچا نعرہ بھی نہیں لگایا کیونکہ ہماری طرح عوام بھی تبدیلی کے سخت خلاف ہیں اور بھوک ننگ کے عادی ہوگئے ہیں جبکہ ان کی اسی مستقل مزاجی کی بناء پر ہی ہم ان سے پوری امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ ایک بار برسراقتدار لا کر اپنی دوراندیشی کا ثبوت ضرور دیں گے تاکہ ان کی بھی اسی طرح مزے سے گزرتی رہے اور ہم بھی اپنے حصے کا کھانا اسی طرح سے کھاتے رہیں کیونکہ اتنا کھانا اگر دستیاب ہو تو کس کافر کا دونوں ہاتھوں سے کھانے کو جی نہ چاہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’کرپٹ سیاستدانوں سے نجات کا وقت آگیا ہے‘‘ اور، اب زیادہ کرپٹ سیاستدانوں کی باری ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں اعجاز الحق سے گفتگو کررہے تھے۔ نگران سیٹ اپ کی مدت بڑھائی گئی تو مستعفی ہوجائوں گا… نجم سیٹھی نگران وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ ’’نگران سیٹ اپ کی مدت بڑھائی گئی تو استعفیٰ دے دوں گا‘‘ اور جس طرح نگران وزیراعلیٰ بننے کیلئے لابنگ کی ہے اسی طرح مستعفی ہونے کیلئے بھی لابنگ ابھی سے شروع کردی ہے کہ اللہ میاں کسی کی محنت ضائع نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سیاست میں آنے کا ارادہ نہیں‘‘ کیونکہ اگر سیاست میں آئے بغیر ہی سیاست کے مزے چکھے جاسکتے ہیں تو اس تکلف میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے جبکہ سیاست میں پڑے بغیر نگران وزیر میں پہلے بھی رہ چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میری تقرری میں امریکہ کا کردار نہیں‘‘ کیونکہ امریکہ کا ایسی باتوں میں کوئی کردار ہوتا ہی نہیں اور اس کی مرضی کے مطابق سب کچھ ویسے ہی ہوتا چلا جاتا ہے اور، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’کسی سیاسی جماعت سے دوستی ہے نہ دشمنی‘‘ صرف تعلقات ہیں جو کسی سے زیادہ ہیں تو کسی سے کم اور حصہ بقدر جثہ سب کے ساتھ تعاون کیا جائے گا کیونکہ انہوں نے بھی آپس میں تعاون کرکے ہی مجھے مقرر کیا ہے، اگرچہ پہلے تو کوئی خاص تعاون نہیں کیا جارہا تھا لیکن اوپر سے ’’حکم ربی‘‘ ہونے کے بعد سارا کام سیدھا ہوتا چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’الیکشن مہم کے دوران تمام سیاستدانوں کو مکمل سکیورٹی دی جائے گی ‘‘تاہم سیاستدانوں کو اپنی سکیورٹی کی خود بھی فکر رکھنی ہوگی کیونکہ ہم اپنی سکیورٹی کی طرف توجہ دیں گے یا دوسروں کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’البتہ اپنی ہدایات پر عملدرآمد کرنے کی کوشش ذرا زیادہ ہی کرنی پڑے گی۔ آپ اگلے روز پنجاب ہائوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔‘‘ معلِّق پارلیمنٹ میں حکومت اتحادیوں کے نخرے اٹھائے گی…طاہر القادری پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے کہا ہے کہ ’’معلّق پارلیمنٹ میں حکومت اتحادیوں کے نخرے اٹھائے گی‘‘ حالانکہ نخرے صرف خاکسار کے اٹھانا چاہئیں جیسا کہ دھرنا کے دوران اُٹھائے گئے تھے جس کے بعد بہلا پھسلا کر دھرنا ختم کرا دیا گیا جبکہ ابھی پوری طرح خاکسار کے نخرے نہیں اُٹھائے گیے تھے، حتیٰ کہ بعد میں جو نام نہاد معاہدہ کیا، اس سے بھی مکر گئے۔ اوپر سے دھرنے کے دوران بارش نے کام خراب کردیا جس کا مطلب یہ تھا کہ خود اللہ تعالیٰ کو بھی یہ دھرنا منظور نہیں تھا حالانکہ میرے اپنے کشف و کرامات کے حوالے سے یہ دھرنا کامیاب ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’انتخابات سیاسی گھوڑوں کے ہوں گے‘‘ حالانکہ یہ صرف اور صرف ہمارے جیسے غیر سیاسی گھوڑوں کے ہونے چاہئیں اوران کے لیے گھاس کا بھی پورا پورا انتظام ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام تماشائی ہیں‘‘ کیونکہ میرے تماشے کے بعد شاید عوام اس کے عادی ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’11مئی کو الیکشن کی رسم ادا کی جائے‘‘ اگرچہ میں نے تو ایک بیان میں کہا تھا کہ الیکشن نہیں ہونے دوں گا لیکن پھر میں نے سوچا کہ چلو، الیکشن کرا دیتے ہیں، یہ ملک بھی کیا یاد کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوامی تحریک ان انتخابات کو مسترد کر چکی ہے‘‘ اور اس کے باوجود اگر یہ کروائے جا رہے ہیں تو اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کیا ہوسکتی ہے، کم از کم الیکشن کروانے والوں کو اتنا تو چاہیے تھا کہ ایک شریف آدمی کے جذبات ہی کا خیال رکھ لیتے۔ آپ اگلے روز تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور سے لندن سے فوت پر بات چیت کررہے تھے۔ وضع داریاں ایک اخباری اطلاع کے مطابق نواز لیگ نے اعجاز الحق کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے بھی میاں صاحب کے دل میں اس قدر اور اتنا بڑا نرم گوشہ پیدا ہوگیا ہے کہ اس پر خود جنرل مذکور حیران ہیں اور یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ میاں صاحب نے ان کے خلاف خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے حالانکہ یہ بھی موصوف کا تجاہل عارفانہ ہی ہے کیونکہ وہ اس وجہ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ان سب کوائف اور اسباب کے علاوہ میاں صاحب کی وضعداری بھی ہے کہ جس جرنیل نے اٹھا کر انہیں اقتدار کی کرسی پر بٹھا دیا تھا اور جس کی برسی میں ہر سال شریک ہو کر آنسو بہایا کرتے اور اس کا مشن مکمل کرنے کا مسلسل اعلان کیا کرتے تھے، اس کے فرزند ارجمند کے خلاف وہ اپنا امیدوار کیونکر کھڑا کرسکتے ہیں جبکہ جنرل مشرف کے بھی سارے کے سارے ساتھی میاں صاحب سے آ کر بغلگیر ہوگئے ہیں تو وہ ان جرنیلوں کے خلاف کیونکر ہوسکتے ہیں جبکہ جنرل پرویز مشرف کو برخواست کرنا بھی ان کی اپنی ہی سوچ کا نتیجہ تھا، اور اگر شہباز شریف نئے آرمی چیف ضیاالدین بٹ کے لیے بازار سے پھول ستارے لانے میں دیر نہ کردیتے اور راستے میں کھڑے ہو کر چاٹ کھانے نہ لگ جاتے تو سارا منصوبہ خیر و خوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوجاتا۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف دیر کردی بلکہ ان سے یہ بھی نہ ہوسکا کہ آتے ہوئے تھوڑی چاٹ میاں صاحب کے لیے بھی لیتے آتے۔ اسی کو ستم بالائے ستم کہتے ہیں؟ آج کا مقطع ظفر کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں، نہ سہی غرض اسے ہے بس اے یار تیرے ہونے سے تصحیح: میرے گزشتہ کالم میں سہواً شمس الرحمان حجازی کی جگہ شمس الرحمن بخاری لکھا گیا۔ اس کے بعد ایک فقرہ مزید شامل کرلیں کہ ’’یہی کام یہاں پر نسیم حجازی کیا کرتے تھے‘‘